(ایک تعلیمی ادارے میں کی گئی گفتگو کا خلاصہ)
بعد الحمد و الصلوٰة۔ آج کی مجلس میں یہ بات عرض کرنی ہے کہ تعلیم اور تربیت دونوں ضروری ہیں۔
یہاں اسکول و کالج کے طلبہ بھی بیٹھے ہیں۔ جب ہم کلاس میں تھیوری پڑھتے ہیں تو کیا وہ تھیوری کافی ہوتی ہے یا لیبارٹری میں پریکٹیکل بھی ضروری ہوتا ہے؟ خالی تھیوری کچھ نہیں کرتی جب تک پریکٹیکل نہ ہو اور خالی پریکٹیکل کچھ نہیں کرتا جب تک اس کے پیچھے تھیوری نہ ہو۔ تعلیم اور تربیت یہی ہے کہ جو کام ہم کلاس سے سیکھتے ہیں وہ ہمارے عمل میں ہونی چاہیے۔ مثلاً نماز کے سارے اسباق سیکھ لیے، لیکن نماز کی پریکٹس نہیں کی تو اسباق سیکھنے کا کوئی فائدہ ہو گا؟ یہ تعلیم و تربیت کا آپس میں تعلق تھیوری اور پریٹیکل کی طرح ہے کہ ساتھ ساتھ عمل اور تجربہ ہو گا تب تعلیم مکمل ہو گی۔قرآن کریم نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نبوی منصب جہاں بیان فرمایا ہے وہاں صرف ” یعلمھم “ نہیں کہا بلکہ ” یزکیھم“ بھی کہا ہے۔ ”یعلمھم الکتاب والحکمة ویزکیھم “ (البقرہ)۔ یعلمھم تعلیم ہے اور یزکیھم تربیت ہے۔ یعلمھم تھیوری ہے اور یزکیھم پریکٹیکل ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ جس ماحول میں ہم نے جا کر کام کرنا ہے اُس سے واقفیت ہونی چاہیے۔ آپ چھ سات سال، آٹھ دس سال یہاں لگا کر آگے کسی فیلڈ میں جائیں گے یا گھر بیٹھے رہیں گے؟ تو جس فیلڈ میں جانا ہے اس کا پتہ ہونا چاہیے۔ آپ نے کرکٹ میں جانا ہے تو کرکٹ سیکھیں گے تب اس میں جائیں گے نا۔ میں بلا پکڑ کر کھڑا ہو جاوں تو کرکٹ کھیل لوں گا؟ ایک آدمی نے سمندر میں جانا ہے کہ اس میں تیروں گا تو پہلے وہ واقفیت حاصل کرے گا یا پہلے چھلانگ لگائے گا؟ سمندر کتنا گہرا ہے، کتنا چوڑا ہے، کون کون سے جانور اس میں رہتے ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ میں چھلانگ لگاوں گا تو خود ہی پتہ چل جائے گا کہ اندر کیا ہے، تو پھر پتہ تو اس کو چل ہی جاتا ہے۔ تو جس کام میں آپ جا رہے ہیں اس کا علم ہونا چاہیے۔
ہر طالب علم کے ذہن میں مستقبل کا کوئی نہ کوئی کام ہوتا ہے کہ میں نے یہ کرنا ہے بلکہ ماں باپ کا بھی ٹارگٹ ہوتا ہے، ماں بچے کو دودھ پلا رہی ہوتی ہے تو کہتی ہے، میرا پتر ڈی سی بنے گا، میرا پتر تھانیدار بنے گا۔ ماں باپ کے ذہن میں بھی کوئی ٹارگٹ ہوتا ہے اور پڑھنے والے کے ذہن میں بھی ہوتا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ جو ٹارگٹ آپ کے ذہن میں ہے اس کی عملی تیاری ابھی سے کریں۔ اگر مفتی بننا ہے تو ابھی سے فقہ کی کتابوں پر اور فتاویٰ پر آپ کی توجہ ہوگی تو مفتی بنیں گے ورنہ نہیں بنیں گے۔ میں نے خطیب بننا ہے، مدرس بننا ہے، ڈاکٹر بننا ہے، انجینئر بننا ہے، ٹیکنوکریٹ بننا ہے، ٹیکنالوجی سیکھنی ہے تو اس کے مطابق کام کریں، اپنے آپ کو تیار کریں، ساری چیزیں سیکھیں لیکن فوکس اس کو کریں۔
ہر ماں باپ کے ذہن میں کچھ نہ کچھ ہوتا ہے کہ میرا بیٹا بڑا ہو کر یہ بنے گا، ایک بزرگ نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ دیکھو، جو بچے کو بنانا چاہتے ہو نا اُس کے سامنے بن جاو، وہ خودبخود بن جائے گا۔ وہ آپ کو دیکھ کر فالو کرے گا۔ آپ کے لیے میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ آپ کے ذہن میں جو ٹارگٹ ہے اس کے لیے ابھی سے محنت کریں اور اساتذہ سے سوال جواب کریں اور اپنے آپ کو تیار کریں جبکہ اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے میں ایک قصہ سنایا کرتا ہوں، یہاں بھی سناوں گا۔ ہمارے ہاں عربی ادب کی ایک کتاب ”دیوانِ حماسہ“ پڑھائی جاتی ہے۔ بہت عرصہ میں نے پڑھائی ہے، اس میں ایک واقعہ ہے۔ ایک بچہ تھا، اسے گھر والوں نے خوب کھلا پلا کر جوان کیا، لیکن اس کو یہ نہیں بتایا کہ ہماری دشمن داری کس سے ہے۔ ہر خاندان کا اپنا ماحول ہوتا ہے کہ کسی سے صلح ہے، کسی سے دشمن داری ہے۔ انہوں نے اس کو وہ نہیں بتایا اور دشمن سے نمٹنا نہیں سکھایا۔ یوں کہیں لیں کہ اسے بس کتاب پڑھا دی، کھلا پلا کر خوب تگڑا کر دیا، لیکن یہ نہیں بتایا کہ تمہاری لڑائی کس سے ہو گی، کون تمہیں تنگ کرے گا، نمٹنا کیسے ہے۔ وہ جوان ہو کر میدان میں جب گیا تو وہاں وہی کچھ ہوا جو ہوتا ہے۔ وہ اپنے مدمقابل دشمنوں کا مقابلہ نہیں کر سکا کیونکہ اسے سکھایا نہیں گیا تھا، اسے پتہ ہی نہیں تھا کہ میرے ساتھ کیا بیتے گی، کون میرے ساتھ کیا کرے گا۔ اب وہ اپنے ماں باپ کو کوس رہا ہے۔ وہ دو شعر آپ کو سنانا چاہتا ہوں
فھلا اعدونی لمثلی تفاقدوا
وفی الارض مبثوث شجاع و عقرب
کہ مجھے میرے ماں باپ نے میرے اساتذہ نے کیوں تیار نہیں کیا جبکہ ان کو پتہ تھا کہ میں نے جس ماحول میں جانا ہے وہ سانپوں کا علاقہ ہے، بچھووں کا علاقہ ہے، انہوں نے مجھے بتایا ہی نہیں کہ سانپ سے کیسے بچنا ہے، بچھو سے کیسے بچنا ہے، یہ ایک دوسرے کو گم پائیں، انہوں نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔
ھلا اعدونی لمثلی تفاقدوا
اذا الخصم ابزی مائل الراس انکب
انہوں نے مجھے کیوں تیار نہیں کیا جبکہ ان کو پتہ تھا کہ میرا مدمقابل ٹیڑھی گردن والا بڑا متکبر ہے، مجھے ٹیڑھی گردن والے متکبرین کا سامنا ہوگا، انہوں نے مجھے ٹریننگ کیوں نہیں دی؟‘ میں بات یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ تیاری بھی اِسی دور میں کرنی ہوگی اور آپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے مستقبل کو سامنے رکھ کر تیار ہوں اور اساتذہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ آپ کو آپ کا مستقبل دیکھ کر تیار کریں۔ میں اپنے بچوں کو اپنے مستقبل کے حوالے سے تیار نہیں کروں گا کہ میرا ”مستقبل“ تو گزر گیا ہے، وہ تو اب ماضی ہو گیا ہے۔ میں اپنی اولاد کو ان کے مستقبل کے حساب سے تیار کروں گا کہ ان کو کن کا سامنا ہو گا، کیا مصیبتیں ہوں گی، کیا مشکلات ہوں گی، کن کا مقابل ہو گا۔
تو میں نے ایک بات آپ سے اور اساتذہ سے بھی یہ کہی ہے کہ اپنے مستقبل کی فکر کریں، تیاری کریں اور اس کے ساتھ ساتھ جو پڑھتے ہیں اس کو عملی زندگی میں لانے کوشش کریں۔ میں نے مثال یہ دی ہے کہ آپ نماز کے مسائل پڑھتے ہیں تو آپ کی نماز اس کے مطابق ہونی چاہیے۔ روزے کے مسائل پڑھتے ہیں تو آپ کا روزہ اس کے مطابق ہونا چاہیے۔ آپ نے اخلاقیات کی کوئی نہ کوئی کتاب پڑھی ہو گی کہ بڑے سے کیسے بولنا ہے، چھوٹے سے کیسے بات کرنی ہے، برابر کے آدمی سے کیسے ڈیل کرنا ہے، تجارت کیسے کرنی ہے، وہ جو اخلاقیات آپ قرآن و حدیث میں پڑھتے ہیں، وہ آپ کی پریکٹس میں بھی ہونی چاہئیں اور یہ کہنا کہ ”اس وقت دیکھا جائے گا“ تو اس وقت دیکھا نہیں جاتا بلکہ زمانہ پھر اس کو دیکھ لیتا ہے، اس لیے ابھی سے تیاری کریں۔
آخری بات یہ عرض کروں گا کہ آپ جو کچھ بھی کر رہے ہیں اگر مقصد اللہ کی رضا اور آخرت کی تیاری ہے تو سب کچھ دین ہے اور اگر مقصد دنیا کا کوئی منصب حاصل کرنا ہے تو پھر قرآن پڑھنا بھی دین نہیں ہے، یہ بات ذہن میں پکی کر لیں۔ آپ سائنس پڑھ رہے ہیں کہ سائنسدان بنوں گا تو دین کی خدمت کروں گا، ملک کی خدمت کروں گا، اقوام کی خدمت کروں گا تو اللہ اس سے راضی ہوگا کہ یہ دین ہے اور اگر آپ قرآن پڑھ رہے ہیں کہ میں اس سے پیسے کماوں گا، یہ کروں گا، وہ کروں گا تو یہ دین نہیں ہے۔ دین نام ہے نیت کا، اپنے ارادے ٹھیک کریں۔ جو کام بھی آپ کریں، آپ تجارت سیکھ رہے ہیں، ٹیکنالوجی سیکھ رہے ہیں، سوشیالوجی سیکھ رہے ہیں، جو کچھ بھی پڑھ رہے ہیں، آپ کی نیت یہ ہونی چاہیے کہ اللہ کا حکم ہے، اللہ کے رسول کا حکم ہے، اللہ کو راضی کرنے کے لیے، اپنی اصلاح کے لیے، قوم کی خدمت کے لیے، اپنے مستقبل کے لیے یہ کام کررہا ہوں۔
ہمارے ہاں بچہ جب دینی تعلیم کے میدان میں آتا ہے تو ایک بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ بچے کے فیوچر کا خیال کرو۔ تو فیوچر کسے کہتے ہیں، یہ بات بھی ذہن میں تازہ کر لیں۔ کیا فیوچر اس چند سالہ زندگی کا نام ہے؟ اس کے بعد بھی کوئی فیوچر ہے یا نہیں؟ مرنے کے بعد قیامت تک قبر کا زمانہ، یہ ہمارے فیوچر کا حصہ ہے یا نہیں؟ اور اٹھنے کے بعد پچاس ہزار سال کا وہ لمبا دن ہمارے فیوچر میں شامل ہے یا نہیں؟ اور پھر ایک پل بھی عبور کرنا ہے، وہ بھی ہمارے فیوچر میں شامل ہے یا نہیں؟ اور پھر ہمیشہ کے لیے یا اُدھر یا اِدھر۔ میں صرف یہ بات آپ کے ذہن میں ڈالنا چاہتا ہوں کہ فیوچر کی فکر ہر ایک کو کرنی چاہیے، میں بھی فیوچر ہی کی بات کر رہا ہوں لیکن فیوچر صرف یہ دنیا کے چند سال نہیں ہے۔میں اس کی مثال یوں دیا کرتا ہوں کہ ایک آدمی نے کسی جگہ دس دن کے لیے جانا ہے اور ایک آدمی نے ایک سال کے لیے جانا ہے، کیا دونوں کی تیاری ایک جیسی ہو گی؟ اور ایک آدمی نے کسی جگہ اس نیت سے جانا ہے کہ میں نے اب وہیں رہنا ہے۔
تو میں نے آخری بات یہ کہی ہے کہ اپنی نیتوں کو ٹٹولیں، اللہ کی رضا اور اپنے مستقبل کی اصلاح کا سوچیں۔ مستقبل سے مراد دنیا کی زندگی بھی ہے، قبر کی زندگی بھی ہے، قیامت کا پچاس ہزار سال کا دن بھی ہے اور اسے اگلی ”اَن لمیٹڈ“ زندگی بھی ہے۔ یہ سب ہمارا مستقبل ہے، اسے سامنے رکھ کر اپنی زندگی کی تشکیل کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اچھا مسلمان بنائے، اچھا پاکستانی بنائے اور اچھا دیندار اور دینی کارکن بنائے۔ آمین!
