یورپ کے 12 بڑے شہروں میں شدید گرمی کی لہر کے دوران صرف 10 دنوں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 2 ہزار 300 ہوگئیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ ہلاکتیں 23 جون سے 2 جولائی کے درمیان بارسلونا، میڈرڈ، لندن اور میلان سمیت 12 بڑے یورپی شہروں میں ہوئیں۔
ان 2,300 اموات میں سے 1,500 براہ راست ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہوئیں جن میں زیادہ تر بزرگ، بیمار، بچے اور کھلے آسمان تلے کام کرنے والے شامل ہیں۔
اتنی بڑی تعداد میں بڑے شہروں میں ہونے والی ہلاکتیں اس لیے بھی ہوئیں کیونکہ سڑکیں اور عمارتیں گرمی جذب کر لیتی ہیں اور گرمی کی شدت بڑھ جاتی ہے۔
امپیریل کالج لندن کے محقق بین کلارک کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی نے درجہ حرارت کو کافی بڑھا دیا ہے جس سے یہ حالات مزید خطرناک ہوگئے ہیں۔
ڈاکٹر گیری فالوس کانسٹنٹیناؤڈیس نے بتایا کہ صرف دو سے چار ڈگری کا اضافہ زندگی اور موت کے درمیان فرق بن سکتا ہے۔ اسی لیے گرمی کی لہریں ’خاموش قاتل‘ کہلاتی ہیں کیونکہ زیادہ تر اموات گھروں یا ہسپتالوں میں خاموشی سے ہوتی ہیں۔
تحقیقی ادارے Copernicus Climate Change Service کے مطابق جون 2025 دنیا کا تیسرا گرم ترین جون رہا جبکہ مغربی یورپ میں اب تک کا سب سے گرم جون ریکارڈ کیا گیا۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے باعث آئندہ سالوں میں گرمی کی لہریں زیادہ شدت والی، زیادہ بار آنے والی اور زیادہ لوگوں کو متاثر کرنے والی ہوں گی۔
ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی یورپ کے کئی علاقوں میں “ٹراپیکل نائٹس” کا سامنا رہا، جن میں رات کا درجہ حرارت اتنا کم نہیں ہوتا کہ انسانی جسم کو آرام مل سکے۔
ماہرین نے زور دیا ہے کہ اگر ماحولیاتی تبدیلیوں پر فوری اور مؤثر قابو نہ پایا گیا، تو آنے والے سالوں میں یہ ’خاموش قاتل‘ مزید زندگیاں نگلتے رہیں گے۔