مقامِ شہادت

قرآن وحدیث میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جِدّوجُہد کے لیے دو کلمات آئے ہیں: ایک ”جہاد ”اور دوسرا” قتال فی سبیل اللہ ”۔ جہاد میں عموم ہے اور قتال فی سبیل اللہ اُس کا ایک شعبہ ہے،جیساکہ حدیث پاک میں ہے: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بعض مجاہدین آئے ،آپ علیہ السلام نے اُن سے فرمایا:خوش آمدید! تمہارا آنا باعثِ خیر ہو،اب تم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف آئے ہو۔ صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! جہادِ اکبر کیا ہے۔آپ علیہ السلام نے فرمایا: بندے کا اپنے نفس کی خواہشاتِ (باطلہ) کے خلاف جِدّوجُہد کرنا، (الدررالمنتثرة فی الاحادیث المشتھرة)”۔ یہ حدیث اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے مگر معناً درست ہے۔ الغرض مومن کی زندگی سعیِ پیہم اور جُہدِ مُسلسل کا نام ہے اور قِتال فی سبیل اللہ اُس کا ایک شعبہ ہے ، قتال فی سبیل اللہ کی تعریف اس حدیث مبارک میں موجود ہے:

” ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوکرعرض کی: یارسول اللہ! ایک شخص ( ذاتی ، قبائلی یا گروہی) حمیّت کی خاطر لڑتا ہے، دوسرادادِ شَجاعت پانے کے لیے لڑتا ہے اورتیسرا شان دکھانے کے لیے لڑتا ہے ، ان میں سے اللہ کی راہ میں کون ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: جو اللہ کے کلمے (دین) کے غلبے کے لیے لڑے تو اللہ کی راہ میں ہے۔ (بخاری)”اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جہادکواپنے ساتھ بیع وشراء سے تعبیر فرمایا: ”بے شک اللہ نے مؤمنوں سے اُن کی جانوں اور مالوں کو جنت کے عوض خرید لیا ہے ، (یہ وہ لوگ ہیں) جو اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں ،پس (کبھی دشمن کو) قتل کرتے ہیں اور(کبھی راہِ خدا میں )مارے جاتے ہیں، یہ تورات، انجیل اور قرآن میں اللہ کاسچا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدے کو پورا کرنے والا اور کون ہے ،پس تم اس سودے پر خوش ہوجائو جو تم نے اللہ سے کیا ہے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ (التوبہ:)” پس اللہ کی راہ میں مارے جانے والے کو شہید کہتے ہیں۔ علماء نے بتایا: اُسے شہید اِس لیے کہتے ہیں کہ وہ زبانِ قال کے بجائے زبانِ حال سے شہادت دیتا ہے کہ اُس نے اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کردی ہے اور اس کی روح موت کے ساتھ ہی جنت میں پہنچ جاتی ہے ۔

اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے میں جو روحانی لذت ہے ، اُس کے مقابلے میں جنت کی نعمتیں بھی کم ہیں ۔ حدیث پاک میں ہے: ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(١)ہر وہ شخص جو جنّت میں داخل ہوگا، وہ (دوبارہ) دنیا میں واپس جانا پسند نہیں کرے گا،خواہ اس کو روئے زمین کی تمام چیزیں مل جائیں، البتہ شہید جب آخرت میں اپنی عزت اور وجاہت دیکھے گا تو صرف وہ یہ تمنا کرے گا کہ وہ پھر دنیا میں جائے اور(یکے بعد دیگرے) دس بار راہِ خدا میں قتل کیا جائے۔ (بخاری)” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقامِ شہادت کو عظمت عطا کرتے ہوئے فرمایا: ” اللہ تعالیٰ اس شخص کا ضامن ہے جو اللہ کی راہ میں گھر سے نکلا ،اس کا گھر سے نکلنا صرف مجھ پر ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق کی وجہ سے تھا کہ میں اس کو اجرِ کثیر یا مالِ غنیمت کے ساتھ لوٹائوں یا اس کو جنت میں داخل کروں ،اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ سمجھتا تو میں کسی لشکر سے پیچھے بیٹھا نہ رہتا ،میں اس کو ضرور پسند کرتا ہوں کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جائوں ،پھرزندہ کیا جائوں، پھر قتل کیا جائوں، پھر زندہ کیا جائوں، پھر قتل کیا جائوں۔ (بخاری)” یقیناآپ علیہ السلام نے شہادتِ ظاہری کو نہیں پانا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ فرمایا تھا: ”اور اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت فرمائے گا۔” (المائدہ) لیکن اس کے باوجود آپ علیہ السلام نے بار بارشہادت کی تمنا کرکے اس منصب کو عظمت عطا کی۔

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام میں کھڑے ہوکر فرمایا:اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور اللہ پر ایمان لانا تمام اعمال میں افضل ہے، ایک شخص نے عرض کی:یارسول اللہ! بتلائیے کہ اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جائوں تو کیا اس سے میرے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں!اگر تم اللہ کی راہ میں قتل کیے جائو درآں حالیکہ تم صبر کرنے والے ثواب کی نیت رکھنے والے ہو اور پیٹھ پھیرنے والے نہ ہو۔ پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا: تم نے کیا کہا تھا؟ اس نے عرض کیا:میں نے کہا تھا:اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جائوں تو کیا اس سے میرے گناہوں کی معافی ہوجائے گی؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ہاں! درآں حالیکہ تم صبر کرنے والے ، ثواب کی نیت رکھنے والے ہواور پیٹھ پھیرنے والے نہ ہو تو قرض کے سوا تمہارے باقی گناہ معاف کردیے جائیں گے، کیونکہ جبریل امین نے مجھے یہ ابھی بتایا ہے۔” (مسلم)

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے شہداء کے لیے حیاتِ جاودانی کی بشارت دی ہے :(١) ”اور جو اللہ کی راہ میں مارا جائے اُسے مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہے۔ (البقرہ) ”(٢)”اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں تم انھیں ہرگزمُردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں ، اپنے رب کے پاس رزق پاتے ہیں۔ (آل عمران)” جو اللہ کی راہ میں شہید ہوجائے، وہ طبّی اور ظاہری اعتبار سے فوت ہوجاتا ہے اور اس پر موت کے احکام جاری ہوتے ہیں۔، اس کی بیوی بیوہ قرار پاتی ہے، اس کی وراثت تقسیم ہوجاتی ہے ، لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انھیں مردہ کہنے کی ممانعت فرمائی اور یہ بھی کہ اپنے ذہن میں بھی انھیں مردہ گمان نہ کرو ۔ اُن کی حیات بعد َالموت کی کیفیت کیا ہے، یہ اللہ تبارک وتعالیٰ بہتر جانتا ہے، ہم غیر مشروط طور پر اس پر ایمان لانے کے پابند ہیں۔ شہید کامقام اتنا بلند اس لیے ہے کہ وہ رضا ورغبت سے اپنی سب سے قیمتی متاعِ حیات کو اللہ کی راہ میں قربان کردیتا ہے۔ مذکورہ احادیثِ مبارکہ اس پر شاہد ہیں کہ وہ جنت کی ابدی اور دائمی نعمتوں کو پاکر بھی تمنائے شہادت کرے گا جبکہ حدیث مبارک کی شہادت کے مطابق کوئی اور جنتی دوبارہ دنیا میں جانے کی تمنا نہیں کرے گا جبکہ شہید زبانِ حال سے کہتا ہے
جان دی ،دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

یعنی بندۂ مومن نے اگر اللہ کی راہ میں جان دی ہے تویہ اُسی کی عطا تھی ،اپنے پاس سے کیا دیا،ہاں! ایک جان کے بدلے میں سوجانیں قربان کرتا تو یہ اُس کا کمال ہوتا ،مگر یہ اُس کے بس کی بات نہیں ہے۔ چنانچہ امام عالی مقام حسین رضی اللہ عنہ نے شبِ عاشوراپنے اہلِ بیت اور جاںنثاروں سے فرمایا: ”جو آج کی رات اپنے گھر والوں کے پاس جانا چاہے تو میں اُسے اجازت دیتا ہوں ، کیونکہ قوم میرے خون کی پیاسی ہے ، جب وہ مجھے شہید کردیں گے ، تو دوسروں سے بے نیاز ہوجائیں گے۔ آپ نے اپنے چچازادوں بنو عقیل سے کہا: تمہارے حصے کی قربانی مسلم بن عقیل نے اپنی شہادت سے دے دی ہے، میں تمہیں اجازت دیتا ہوں : تم چلے جائو۔ سب نے یک زبان ہوکر کہا: آپ کے بعد جینا کس کام کا، لوگ کیا کہیں گے : ہم نے اپنے بزرگ ،اپنے سردار ، اپنے چچازاد کو مشکل وقت میں چھوڑ دیا۔ ہم نے دنیا کی زندگی کی محبت میں ان کے ساتھ مل کر دشمن پر تیر چلایا،نہ نیزہ گھونپا اور نہ تلوار چلائی۔ واللہ! ہم ہرگز آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے بلکہ ہم اپنی جانوں، مالوں اور اہل سمیت اپنا سب کچھ آپ پر قربان کردیں گے اور اُس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک آپ کے انجام کو نہ پہنچیں۔ مسلم بن عوسجہ اسدی اور سعید بن عبداللہ حنفی نے کہا: واللہ! ہم آپ کو مشکل وقت میں ہرگز تنہا نہیں چھوڑیں گے حتیٰ کہ اللہ دیکھ لے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غیاب میں اپنی بساط کے مطابق آپ کی حفاظت کی۔ واللہ! یہ تو ایک جان ہے، اگر ہمیں ہزار جانیں بھی ملیں تو ہم ایک ایک کر کے سب آپ پر قربان کردیں گے۔ ہم تب تک آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ ہم اپنا سب کچھ آپ پر قربان نہ کردیں اور جب ہم شہید کردیے جائیں گے تو ہم سمجھیں گے کہ ہم نے حق ادا کردیا۔