اسرائیلی انٹیلی جنس شامی صدر کو قتل کرنے کےلئے سرگرم

رپورٹ: علی ہلال
ترک انٹیلی جنس نے شامی صدر احمدالشرع کے قتل کا منصوبہ ناکام بنانے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ علاقائی قوتیں احمدالشرع کو قتل کرکے شام میں بڑے پیمانے پر انارکی اور بدامنی کو ہوا دینے کے لئے سرگرم ہیں۔
رپورٹ کے مطابق امریکی انتظامیہ نے شام کے صدر احمدالشرع پر ممکنہ قاتلانہ حملے کے خدشے پر بڑھتی ہوئی تشویش کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ان کے خلاف ان باغی مسلح گروہوں کی طرف سے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے، جو ماضی میں سابقہ حکومت کا تختہ الٹنے میں شریک رہے تھے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے شام کے لیے خصوصی ایلچی سفیر ٹام باراک نے اشارہ دیا کہ واشنگٹن، صدر الشرع کو شام کی تعمیرنو میں ایک کلیدی شخصیت تصور کرتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی سکیورٹی کو ’انتہائی اہم‘ قرار دیا گیا ہے۔ باراک نے المونٹیر ویب سائٹ کو دیے گئے انٹرویو میں کہاہے کہ ہمیں الشرع کے اردگرد ایک تحفظاتی نظام کی ترتیب کی ضرورت ہے۔ ان کی جانب سے ایک جامع حکومت کی تشکیل کی کوششیں اور مغرب کے ساتھ رابطے، انہیں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ان کے مطابق خطرات صرف سابقہ حکومت کے بچ جانے والے عناصر یا داعش جیسی شدت پسند تنظیموں سے نہیں آ رہے بلکہ ان گروہوں سے بھی ہیں جو کبھی الشرع کے ساتھ لڑ چکے تھے، لیکن بعد میں علیحدہ ہو گئے، کیونکہ ان کے خیال میں سیاسی اور اقتصادی فوائد کے حصول میں سستی برتی گئی۔
رپورٹ کے مطابق ترک میڈیا نے گزشتہ دنوں احمدالشرع کے قتل کے ایک منصوبے کی ناکامی کا دعویٰ کیا تھا جس کے بعد ترک میڈیا کے کہا تھا کہ شام ترکی کا ہمسایہ ملک ہے اور الزام میں بدامنی سے ترکی براہ راست متاثر ہوگا۔ لہٰذا ترک ادارے کسی بھی صورت میں شام میں کسی ایسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ 29 جون کو ایک مرتبہ پھر اسرائیلی عبرانی جریدے ’یسرائیل ہیوم‘ نے انکشاف کیا ہے کہ جنوبی شام کے شہر درعا میں شامی صدر احمدالشرع کو نشانہ بنانے کی ایک خطرناک قاتلانہ سازش کو ناکام بنا دیا گیا۔ رپورٹس کے مطابق یہ کارروائی تقریباً مکمل ہونے والی تھی لیکن ترک اور شامی انٹیلی جنس اداروں نے باہمی ہم آہنگی سے بروقت کارروائی کرتے ہوئے اسے آخری لمحے میں ناکام بنادیا۔ اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ اس سازش کا ماسٹرمائنڈ ایک تجربہ کار شخص ہے جو ماضی میں داعش کا رکن رہ چکا ہے اور اس کے حزب اللہ سے بھی روابط رہے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق اس شخص نے درعا کے دیہی علاقے میں سکیورٹی کی خراب صورتحال اور وہاں موجود مسلح گروہوں کی سرگرمیوں اور مستقل سکیورٹی خلا کا فائدہ اٹھایا۔ترک اخبار استقلال نے بتایا کہ اس انٹیلی جنس کامیابی کا راز انقرہ اور دمشق کے درمیان براہِ راست اور فعال تعاون ہے، جس میں حساس معلومات کا تبادلہ اور مشتبہ افراد کے درمیان ہونے والی مواصلاتی گفتگو کو روکنا شامل تھا۔ ذرائع کے مطابق اس منصوبے کو بے نقاب کرنے اور ناکام بنانے میں زمینی معلومات اور الیکٹرانک نگرانی (یعنی کالز/ سگنلز کی ریکارڈنگ) نے کلیدی کردار ادا کیا اور بروقت کارروائی سے ایک بڑے سانحے سے بچالیا گیا۔ تاہم دوسری جانب شامی حکومت کی جانب سے اسرائیلی جریدے کے دعوے کی تردید کی گئی ہے۔ شامی خبررساں ایجنسی سانا نے بھی اس کی تردید کی ہے۔ تاہم دوسری جانب فرانسیسی لبنانی اخبار ’لوریان لوجور‘ نے اس سے قبل سفارتی ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا تھا کہ صدر احمدالشرع کو دسمبر میں اقتدار سنبھالنے کے بعد کم ازکم دو مرتبہ قاتلانہ حملوں کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سے ایک کوشش مارچ میں ہوئی تھی۔

امریکی تنظیم نشہ آور سفوف ملا آٹا فلسطینیوں میں بانٹنے لگی

مشرق وسطیٰ میں جاری جیو پولیٹیکل تبدیلی پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس داعش اور دیگر عسکری تنظیموں کی آڑ میں شام میں بدامنی کے لئے سرگرم ہے، جس میں صدر احمدالشرع سمیت بڑی شخصیات کو نشانہ بنانے کا پلان شامل ہے۔ اسرائیلی میڈیا اور حکومت بارہا کہہ چکی ہے کہ تل ابیب شام کے ساتھ سفارتی تعلقات چاہتا ہے لیکن شام کو گولان ہائٹس پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کرنا ہوگا۔ عرب میڈیا کے مطابق نئی شامی حکومت کو کئی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں غیر ملکی سابق جنگجووں کو قومی فوج میں شامل کرنا اور شمالی علاقوں میں موجود حراستی کیمپوں کا مسئلہ شامل ہے، جہاں داعش سے وابستہ افراد اور ان کے اہل خانہ موجود ہیں۔اسی طرح صدرالشرع اب بھی کرد جنگجوو¿ں کو قومی ڈھانچے میں ضم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، خاص طور پر مارچ میں شام کی جمہوری افواج (قسد) کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے بعد، جسے ایک ’فیصلہ کن قدم‘ قرار دیا گیا، حالانکہ اس معاہدے کے باوجود اہم علاقوں جیسے ’تشرین ڈیم‘ پر کنٹرول کے حوالے سے اختلافات باقی ہیں۔
معاملہ صرف عسکری اتحاد تک محدود نہیں، بلکہ ’یہ گہری سطح پر شامی شناخت سے متعلق سوالات کا بھی حامل ہے‘۔ شام کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے اسرائیل کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ باقی رکھنے کی شرط رکھی ہے۔ گزشتہ دنوں احمد الشرع نے اسرائیلی حملے روکنے کے لیے بالواسطہ مذاکرات کے اجرا کی بات کی تھی۔اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے واضح کیا ہے کہ اسرائیل کا گولان کی پہاڑیوں میں موجود رہنا شام کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے ایک بنیادی شرط ہے۔ اسرائیلی چینل آئی نیوز24 کو دیے گئے انٹرویو میں اسرائیلی وزیرخارجہ نے کہا کہ شام کی جانب سے گولان پر اسرائیل کی خود مختاری کو تسلیم کیے بغیر شام کے صدر احمدالشرع کے ساتھ کسی بھی ممکنہ معاہدے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا ’اگر اسرائیل کو شام کے ساتھ امن یا معمول کے تعلقات قائم کرنے کا موقع ملا جبکہ گولان ہماری خود مختاری میں رہے، تو یہ اسرائیلیوں کے مستقبل کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہو گی‘۔
اسی چینل نے ایک شامی باخبر ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ شام اور اسرائیل کے درمیان 2025ء کے اختتام سے قبل ایک امن معاہدے پر دستخط متوقع ہیں۔ اس معاہدے میں دسمبر 2024ء کو شام کے جنوبی علاقے میں اسرائیلی دراندازی کے بعد قبضے میں لی گئی تمام شامی اراضی جن میں جبل الشیخ کی چوٹی بھی شامل ہے، سے بتدریج انخلا کی شق شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق شامی صدر کے لیے گولان ہائٹس سے دستبردار ہونا بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس صورت میں ان کی ساکھ کو غیرمعمولی نقصان پہنچے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج شامی میڈیا نے حکومتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ شامی حکومت گولان ہائٹس کے معاملے پر اسرائیل کے ساتھ کسی سمجھوتے پر تیار نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی انٹیلی جنس احمدالشرع کے ساتھ ایرانی مخالفت کو بھی دیکھ رہی ہے اور اس موقع سے فایدہ اٹھاکر صہیونی ایجنسیاں شام میں بڑی بدامنی کے لئے سرگرم ہیں۔ دو روز قبل شامی صدر احمدالشرع نے ایک بیان میں کہا تھا کہ شام کی نئی انتظامیہ اسرائیلی افواج کی جانب سے جنوبی صوبہ القنیطرہ کی محفوظ بستیوں پر جاری حملوں کو روکنے کے لیے کوشاں ہے۔ صدر کے دفتر سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ اسرائیلی حملوں کو روکنے کے لیے بین الاقوامی ثالثوں کے ذریعے بالواسطہ مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔ بیان میں یہ بھی ذکر تھا کہ صدر الشرع نے القنیطرہ اور گولان کے معززین و قبائلی عمائدین سے ملاقات بھی کی۔ یاد رہے کہ اسرائیل نے دسمبر 2024ء میں سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کے سقوط کے بعد شام کی بری، بحری اور فضائی فوجی تنصیبات پر درجنوں فضائی حملے کیے اور اس دوران وہ نہ صرف علاقہ غیر (بفر زون) میں داخل ہوا بلکہ گولان کی پہاڑیوں، جبل الشیخ اور جنوبی شام کے دیگر علاقوں میں اپنی موجودگی کو وسعت بھی دی۔