26 جون دنیا بھر میں منشیات کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن لوگوں کو منشیات کے استعمال کے نقصانات سے آگاہی کے لیے سیمینارز، واکس اور ریلیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سول سوسائٹی اور حکومتی زعماء اس روز اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ زمین کو منشیات کی لعنت سے پاک کرنے کے لیے جی جان سے کوشش کریں گے۔
نشے کی لعنت سماجی، معاشی اور معاشرتی مسائل کو جنم لیتی ہے۔ نشہ انسان کی رگوں میں اندھیرا بن کر اترتا ہے اور اس کی زندگی کی تمام روشنی چھین لیتا ہے۔ نشے کا عادی فرد اپنی زندگی کو تو کانٹوں میں دھکیلتا ہی ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ دوسرے افرادِ خانہ کے لیے بھی زندگی کو جہنم بنا دیتا ہے۔ وہ نشہ خریدنے کی ابتدا اپنے جیب خرچ سے کرتا ہے۔ پھر بہانے بازیوں اور فراڈ سے ایکسٹرا اخراجات کے لیے گھر والوں سے رقم بٹورتا ہے۔ اگر اسے بازار سودا سلف لانے کے لیے بھیجا جائے تو سودا کم مقدار میں لاتا ہے، قیمت زیادہ بتاتا ہے اور کچھ رقم اپنے نشے کے لیے بچا لیتا ہے۔ جب گھر والے سودا منگوانا چھوڑ دیں تو گھریلو اشیاء چوری کر کے بیچنا شروع کر دیتا ہے۔ گھر والے چوکنا ہو جاتے ہیں تو اردگرد کے گھروں اور محلے میں چوریاں کرتا ہے۔ گھر والوں کے تعلق داروں سے رقم ادھار لینا شروع کر دیتا ہے جسے شرمندگی کے ساتھ گھر والے واپس کرتے ہیں۔ سودا سلف ادھار لے کر سستے داموں فروخت کر کے نشہ پورا کرتا ہے جبکہ یہ جرمانہ بھی گھر والوں کو پورا کرنا پڑتا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ بڑے پیمانے پر چوریاں اور ڈاکے شروع کر دیتا ہے۔ صحت اس کی اجازت نہیں دیتی تو بھیک مانگنے لگتا ہے۔ اسے اپنی رسوائی کا کوئی ڈر اس لیے نہیں ہوتا کہ اپنے وقار اور عزت کو تو اس نے اسی روز خیرباد کہہ دیا تھا جب نشے کی ابتدا کی تھی البتہ گھر والوں کے لیے وہ مسلسل عذاب کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ چوری، فراڈ اور فساد کی شکایتیں سن سن کر گھر والے ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔ ان کی اپنی زندگی قابلِ رحم ہو جاتی ہے کہ اس ایک فرد کی وجہ سے وہ کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔ اس کے بہن بھائیوں کے رشتے طے ہونے میں سخت دشواریاں آڑے آتی ہیں۔ معاشرے میں ان کی عزت گھٹ جاتی ہے، مقام گر جاتا ہے اور وہ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ منشیات کا عادی شادی شدہ ہو تو اس کی بیوی اور بچوں کی زندگی جہنم کا عملی نمونہ بن جاتی ہے۔
نشہ ایسی لت ہے جس نے ایک مقام پر رکنا نہیں ہوتا۔ ہر چند ہفتے بعد اس کی مقدار میں اضافہ کرنا پڑتا ہے کہ موجودہ مقدار مطلوبہ اثر پیدا کرنے کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔ سگریٹ کو تمام منشیات کی ماں کہا جاتا ہے۔ بظاہر یہ ایک کم ضرر رساں نشہ ہے لیکن اس کا عادی دیگر نشوں کی عادت کو باقی لوگوں کی نسبت جلدی اپنا لیتا ہے۔ وہ سادہ سگریٹ سے چرس بھرے سگریٹ اور اس سے آگے ہیروئن تک پہنچ جاتا ہے۔ اس سے آگے آئس وغیرہ جیسی منشیات اس کی منتظر ہوتی ہیں۔ نشے کے انجکشن کا استعمال بھی عام ہے۔ آپ کو اکثر نشئی کوڑے کے ڈھیروں، پارکوں اور پلوں کے نیچے دنیا و مافیہا سے بے نیاز خود کو نشے کے انجکشن لگاتے ملیں گے۔ انہیں اپنے کھانے پینے کی اتنی فکر نہیں ہوتی جتنی نشہ پورا کرنے کی ہوتی ہے۔
ایک سروے کے مطابق دنیا بھر میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 31کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد افراد منشیات کے عادی ہیں۔ نشے کے عادی افراد کی تعداد کے لحاظ سے دنیا بھر میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان میں ایک سروے کے مطابق سوا چار کروڑ بھکاری ہیں۔ ان میں ایک کروڑ نشہ کرنے والے افراد کو بھی شامل کر لیں تو پچیس کروڑ کی آبادی میں سوا پانچ کروڑ ایسے افراد ہیں جو معاشرے اور معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہیں۔ اگر یہی افراد کوئی کام دھندا شروع کر دیں تو نہ صرف ہماری معیشت سنبھل جائے گی بلکہ بیرونی دنیا اور آئی ایم ایف کے آگے ہمیں قرض اور امداد کے لیے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑیں گے۔
نشہ صرف بڑے شہروں میں ہی فروخت نہیں ہوتا اور اس کے عادی کسی خاص طبقے یا علاقے تک محدود نہیں ہیں۔ پاکستان کے ہر شہر، قصبے اور گاؤں میں یہ لعنت پہنچ چکی ہے۔ منشیات سے بحالی کے مراکز صرف بڑے شہروں تک محدود نہیں رہنے چاہئیں۔ ہر شہر، قصبے اور گاؤں میں بحالی منشیات کے مراکز قائم کر کے کوالیفائڈ ماہر ڈاکٹروں اور عملے کا ان میں تقرر کیا جانا چاہیے۔ لیکن اس سے بھی ضروری کام منشیات فروشی پر سخت قانون سازی کی ضرورت ہے۔ جرم کے مطابق پانچ سال سے سزائے موت تک کی سزائیں دینے کے لیے قانون سازی کر کے ان کے لیے الگ تھانے اور الگ عدالتیں قائم کی جائیں۔ منشیات فروشی کو ناقابلِ ضمانت جرم قرار دیا جائے۔ ایک سے ڈیڑھ ماہ کے اندر مقدمات کا فیصلہ لازمی ہونا چاہیے۔ منشیات کی روک تھام کا معاملہ صرف حکومت پر ہی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اس کے لیے معاشرے کے ہر فرد کو اپنی سطح پر کردار ادا کرنا چاہیے۔ منشیات کے عادی افراد کو کسمپرسی اور بے چارگی کے عالم میں مرنے کے لیے چھوڑ دینا ان پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ منشیات کی عادت کے شکار لوگ نفرت کے نہیں ہمدردی کے مستحق ہیں۔ انہیں نارمل زندگی میں لانے کے لیے حکومت اور سول سوسائٹی کو مل کر کوشش کرنی چاہیے۔