اسلام آباد:وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ قائمہ کمیٹیاں کیسز ختم کرانے کے لیے نہیں بنائی گئیں، ہم قانون کے پابند ہیں، قانون کے مطابق ہی چلیں گے۔
قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اسٹینڈنگ کمیٹی کے رولزسب نے مل کر بنائے ہیں،اسٹینڈنگ کمیٹی کے پاس پولیس تفتیش کا اختیار لینے کا حق نہیں ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اسٹینڈنگ کمیٹی کے ایجنڈا کا پیج ون اور پیج 17 قیدی نمبر 804 ہو گا تو اسمبلی سیکرٹریٹ کچھ نہیں کر سکے گا، قائمہ کمیٹیاں جیلوں میں اضافی سہولیات لینے کے لیے قائم نہیں کی گئیں۔
وفاقی وزیر قانون کی تقریر کے دوران اپوزیشن کا شور شرابا، ڈیسک بجا کر نعرے بازی کی گئی،چور چور کے نعرے لگائے گئے۔ اس موقع پر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اپوزیشن تنقید کیساتھ ساتھ دوسروں کو سننے کا بھی حوصلہ رکھے، ہم پر تنقید کرنے والے اپنے دور میں نفرت کے بیج بوتے رہے ہیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پی ٹی آئی دور میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں کی گئیں، سیاسی مخالفین کو نشانہ بنایا گیا، اپوزیشن بانی پی ٹی آئی کو خوش کرنے کے لیے غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے، کسی وزیر کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کرپشن کیسز معاف کر دے۔
انہوں نے کہا کہ کاش وزارت انسانی حقوق کے پاس کرپشن کیسز کی سزا معطلی کا اختیار ہوتا تو میں حاضر تھا، کاش جیل میں میاں بیوی کو ساتھ رکھنے کا اختیار ہوتا تو میں ضرور کرتا۔
وفاقی وزیر قانون نے سوال کیا کہ کیا مریم نواز کے کمرے کا دروازہ توڑنے پر چادر و چاردیواری پامال نہیں ہوتی، فریال تالپور کو عید سے پہلے جیل میں ڈالا گیا، چادر و چاردیواری پامال نہیں ہوئی؟۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ مجھے خوشی ہوتی اگر یہ کہا جاتا ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ انٹرنیشنل سطح پر اے اسٹیٹس ملا ہے، چائلد میرج ایکٹ، کرسچن میرج ایکٹ پر بات ہوتی تو خوشی ہوتی، اس معصوم موضوع کو سیاست کی نذر کر دیاگیا۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ ایلوکیشن کا قائمہ کمیٹی سے کیا تعلق ہے؟ وزارت انسانی حقوق کے پاس چار کمیشنز ہیں،قائمہ کمیٹیوں کا جیل میں ملاقاتوں، میاں بیوی کو جیلوں میں ملوانے، عدالتوں سے تاریخیں کم کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
دریں اثناء قومی اسمبلی اجلاس میں 33وفاقی وزارتوں اور ڈویژنوں نے مطالبات زر کی منظوری کا عمل مکمل کرلیا ۔اجلاس کے دوران وفاقی وزارتوں اور ڈویژنوں کے 9ہزار 951ارب22کروڑ سے زائد کے 136 مطالبات زر منظور کرلیے گئے، اپوزیشن کی ساڑھے 7سو سے زائد کٹوتی کی تحاریک کثرت رائے سے مسترد کردی گئیں۔
اسی طرح غذائی تحفظ ڈویژن کے 34 ارب 4 کروڑ کے تین مطالبات زر منظور، کٹوتی کی 98 تحاریک مسترد کی گئیں، آج کے اجلاس میں چار وزارتوں اور ڈویژنوں کے4ہزار814 ارب روپے سے زائد کے مطالبات زر منظور کیے گئے۔
دورانِ اجلاس اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ کٹوتی کی تحریکوں کا مقصد یہ ہے کہ ہم پالیسی سے اتفاق نہیں کرتے۔ انہوں نے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی زیادہ کر دی ہے، یہ عوام کی چمڑی ادھیڑ رہے ہیں۔
ساڑھے 500 ارب کی اسمگلنگ ہوتی ہے جسے روکنے کے لیے ان کی کیا کوششیں ہیں؟ بالکل صفر۔ انہوں نے کہا کہ کرپٹ ادارے کو مزید اختیارات دے رہے ہیں، اس کو گرفتاری کے اختیارات دے رہے ہیں۔
انرجی سیکٹر بیٹھ چکا ہے، اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ 44 فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے ہے اور یہاں پر یہ لوگ عیاشیاں کر رہے ہیں۔ وزیراعظم اور صدر ہائوس کے اخراجات بڑھ رہے ہیں، بتایا جائے یہ کہاں کا انصاف ہے؟۔
رکن اسمبلی عالیہ کامران نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس چوری کس نے روکنی ہے؟۔ ایف بی آر کے اپنے سسٹم میں اتنی کمزوریاں ہیں۔ ایف بی آر میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کی مدد سے ٹیکس چوری کی جاتی ہے۔
کٹوتی کی تحاریک پر بحث کے دوران پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ افغان سرحد پر سیکورٹی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ خیبرپختونخوا میں سیکورٹی صورتحال جوں کی توں ہے۔
کے پی میں پاک افغان سرحد پر دوطرفہ تجارت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ ضم شدہ فاٹا اضلاع پر جی ایس ٹی کا نفاذ سمجھ سے بالاتر ہے۔ پی ٹی آئی سابقہ فاٹا میں ٹیکسز کے نفاذ کے خلاف نہیں ہے، لیکن حکومت سہولتیں بھی دے اور سیکورٹی صورتحال بہتر ہونے تک ٹیکسز موخرکرے۔
دوسری جانب قومی اسمبلی آج فنانس بل کی منظوری دے گی جب کہ اجلاس آج جمعرات کو11 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔