غزہ،صہیونی فوج کی گولہ باری،درجنوں گھر تباہ،84شہید

غزہ/تل ابیب/جنیوا/نیویارک:قابض اسرائیلی فوج کے جمعرات کودرجنوں فضائی اور زمینی حملے،84فلسطینی شہید،درجنوں زخمی ہوگئے۔غزہ کی وزارت صحت نے بتایا کہ سات اکتوبر 2023ء سے جاری قتل عام میں شہداء کی تعداد 55 ہزار 637 ہو چکی ہے جب کہ زخمیوں کی مجموعی تعداد 1 لاکھ 29 ہزار 880 سے تجاوز کر چکی ہے۔

ان شہداء میں 400 سے زائد وہ مظلوم لوگ ہیں جو محض روٹی کے ایک ٹکڑے کی تلاش میں نکلے تھے۔قابض اسرائیل نے جمعرات کو بھی غزہ شہر کے مشرقی علاقوں پر توپ خانے سے شدید گولہ باری کی جبکہ جبالیہ کے مشرق میں گھروں کو بارود سے اْڑا دیا۔

ایک کے بعد ایک محلہ صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا اور بچوں، عورتوں، بزرگوں کو ملبے تلے دفن کر دیا گیا۔غزہ کے شمال مغربی علاقے میں واقع ”گولڈن سیلون” کے قریب سے شہری دفاع کی ٹیموں نے گذشتہ چند دنوں سے لاپتا 15 شہداء کی لاشیں نکالیں جو امداد کے منتظر تھے اور جنہیں قابض اسرائیل نے بغیر کسی وجہ کے قتل کر دیا تھا۔

قابض اسرائیل نے شمالی غزہ میں فائر بریگیڈ کے ایک کارکن شفیق نافذ اسلیم کو بھی اس وقت شہید کر دیا جب وہ امدادی کاموں میں مصروف تھے۔وسطی غزہ کے علاقے الزوایدہ میں قابض اسرائیلی جنگی طیاروں نے ایک سولر آئل کے مقامی کارخانے کو بھی نشانہ بنایا جس سے علاقے میں توانائی کا بحران مزید شدت اختیار کر گیا۔

اسرائیلی فوج نے غزہ میں امداد کیلئے جمع ہونے والے فلسطینیوں پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں11 فلسطینی شہید ہوگئے جبکہ قابض اسرائیلی فوج نے جمعرات کی صبح ایک بار پھرغرب اردن کے مختلف علاقوں میں ظلم و درندگی کا نیا باب رقم کرتے ہوئے فلسطینیوں کے گھروں پر وحشیانہ چھاپے مارے۔

درجنوں گھروں پر دھاوا بولا گیا، بچوں اور عورتوں کو ہراساں کیا گیا، گھروں کو فوجی چوکیوں میں بدل دیا گیا اور نوجوانوں کو گرفتار کر کے جبراً لاپتا کیا گیا۔اس وحشیانہ کریک ڈاؤن مہم کا آغاز جنوبی الخلیل سے ہوا جہاں قابض اسرائیلی فوج نے چار فلسطینیوں کو گرفتار کیا جن میں دو سگے بھائی اور ایک کم عمر لڑکی شامل ہے۔

مقامی ذرائع کے مطابق صہیونی فوجیوں نے شہر کے جنوبی علاقے پر دھاوا بول کر مہند فیصل بدوی، احمد فہد بدوی اور ان کے بھائی مہند فہد بدوی کو ان کے گھروں سے گرفتار کر لیا۔ اس دوران نہ صرف گھروں کی قیمتی اشیاء تباہ کی گئیں بلکہ خاندانوں کے افراد کو گھنٹوں اذیت دی گئی۔

الخلیل ہی کے شمالی علاقے بیت اْمر میں ظلم کی حد پار کرتے ہوئے قابض فوج نے ایک 17 سالہ طالبہ آیات وائل عادی کو اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ اپنے امتحانات کی تیاری میں مصروف تھی۔

فوجی اہلکاروں نے اس بچی کو زد و کوب کیا اس کے گھر میں توڑ پھوڑ کی اور اہل خانہ کو ہراساں کیا۔بنی نعیم، سعیر اور الشیوخ قصبوں میں بھی درجنوں گھروں پر حملے کیے گئے، جہاں اگرچہ کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی مگر لوگوں کو ہراساں کیا گیا۔

یطا کے نواحی علاقے جنبا میں چرواہوں پر آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے تاکہ ان کی روزی روٹی بھی چھینی جا سکے۔بیت لحم کی مشرقی بستی العساکرہ میں قابض اسرائیلی فوج نے اندھیرے میں چھاپا مار کر بیک وقت 22 فلسطینیوں کو گرفتار کر لیا۔

مقامی باشندوں نے بتایا کہ بڑی تعداد میں صہیونی فوجیوں نے گھروں میں گھس کر بچوں، خواتین اور بزرگوں کو زدوکوب کیا اور دیواروں پر دھمکی آمیز نوٹس چسپاں کر کے چلے گئے۔نابلس میں بھی صہیونی بربریت عروج پر رہی۔ قابض فوج نے راس العین محلے میں مامون المصری نامی شہری کو گھر سے گرفتار کیا۔

اس سے قبل بلاطہ پناہ گزین کیمپ میں جاری اسرائیلی آپریشن کے دوران 14 خاندانوں کو زبردستی ان کے گھروں سے نکال دیا گیا جنہیں بعد ازاں قابض فوج نے فوجی چوکیوں اور عارضی حراستی مراکز میں بدل دیا۔

ریڈ کریسنٹ (ہلال احمر) کے مطابق صرف بلاطہ کیمپ میں قابض فوجیوں کے تشدد سے 16 افراد زخمی ہوئے۔نابلس ہی کے جنوب میں واقع اللبن الشرقیہ گاؤں میں ایک فلسطینی نائل عویس کی رہائشی عمارت پر قابض فوج نے قبضہ جما لیا اور کئی گھنٹوں تک اسے فوجی اڈے میں تبدیل کیے رکھا۔

اس کے علاوہ گاؤں کے مرکزی داخلی راستے پر چیک پوسٹ قائم کر کے لوگوں کی آمد و رفت محدود کر دی گئی۔رام اللہ و البیرہ میںصہیونی فوج نے الامعری کیمپ، الماصیون اور سطح مرحبا محلوں میں داخل ہو کر گھروں اور رہائشی عمارتوں پر چھاپے مارے۔

اگرچہ یہاں فوری گرفتاریاں رپورٹ نہیں ہوئیں لیکن شمالی رام اللہ کے الجلزون کیمپ میں تین گھروں کو جبری طور پر تفتیشی مراکز میں بدل دیا گیا، درجنوں نوجوانوں کو حراست میں لے کر تفتیش کی گئی اور کیمپ کے داخلی و خارجی راستے بند کر دیے گئے۔

دریں اثناء فلسطین کے مقبوضہ شمالی علاقے الجلیل میں قابض اسرائیل کی درندگی ایک بار پھر بے نقاب ہو گئی ہے، جہاں اس نے نہ صرف مساجد کے لائوڈ اسپیکر ضبط کیے بلکہ مؤذنین کو بلا کر ان سے تفتیش کی گئی، گویا اذان جیسے روحانی عمل کو بھی جرم بنا دیا گیا ہو۔

مقامی ذرائع کے مطابق قابض اسرائیلی فوج نے الجلیل کے گائوں مجد الکروم میں واقع ایک مسجد سے لائوڈ اسپیکر ضبط کر لیا اور متعدد مؤذنین کو طلب کر کے ان سے تفتیش کی۔ یہ سب کچھ اس دعوے کے تحت کیا گیا کہ اذان کی آواز قانون کے خلاف اور شور شرابہ ہے۔

موقع پر موجود عینی شاہدین نے ‘عرب 48’ ویب سائٹ کو بتایا کہ قابض اسرائیلی پولیس نے مؤذنین کو کھلم کھلا دھمکایا کہ اگر وہ ضبط شدہ لائوڈ اسپیکر دوبارہ استعمال میں لائے تو ان پر دس ہزار شیکل کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

علاوہ ازیں قابض اسرائیلی فوج نے چھ دن کی جبری بندش کے بعد مسجد اقصیٰ کے تین دروازے تو کھول دیے ہیں مگر ان پر سخت سیکورٹی پابندیاں عائد کر کے فلسطینیوں کی عبادت پر رکاوٹ برقرار رکھی ہے۔ یہ کھلا اعلان ہے کہ مسجد اقصیٰ اب بھی قابض اسرائیل کی قید میں ہے۔

قابض پولیس نے مسجد اقصیٰ کے تین دروازے باب المجلس، باب حطہ اور باب السلسلہ کھولے۔ یہ دروازے 2025ء کے جمعہ کی صبح سے بند کر دیے گئے تھے جب قابض اسرائیل نے ایران کے خلاف اعلان جنگ کیا تھا اور اسی بہانے مسجد اقصیٰ کو فلسطینی نمازیوں پر بند کر دیا تھا۔

عینی شاہدین کے مطابق دروازوں کے کھلنے کی اطلاع ملتے ہی اہلِ ایمان کا قافلہ مسجد اقصیٰ کی جانب دوڑ پڑا۔ شام کے وقت ہزاروں فلسطینیوں نے مغرب اور عشاء کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد کا رخ کیاتاہم اس تمام صورتحال میں فلسطینی عوام کے دل میں ایک تلخ سوال اب بھی موجود ہے کہ کیا اپنے ہی وطن میں عبادت کرنا بھی جرم بن چکا ہے؟۔

ادھرسعودی عرب نے قابض اسرائیلی حکام کی جانب سے جاری مسلسل خلاف ورزیوں کی مذمت کی ہے۔

عرب ٹی وی کے مطابق اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے مستقل نمائندہ (سفیر)عبد المحسن بن خثیلہ نے گزشتہ روز جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے اجلاس کے دوران فلسطین اور دیگر مقبوضہ عرب علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کا موقف ہمیشہ سے واضح رہا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا منصفانہ اور جامع حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تمام مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے اسرائیلی قبضہ ختم نہ کیا جائے۔

1967 ء کی سرحدوں کے مطابق ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم نہ کی جائے جس کا دار الحکومت مشرقی بیت المقدس ہو،جیسا کہ بین الاقوامی قانونی اصولوں اور عرب امن منصوبے میں بیان کیا گیا ہے۔

سعودی عرب نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی جرائم اور علاقے میں بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریاں پوری کرے اور ان بین الاقوامی کوششوں کی حمایت کرے جن کا مقصد فوری طور پر اس عسکری کشیدگی کو ختم کرنا ہے جو عام شہریوں کے تحفظ اور عالمی امن و استحکام کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔

فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے)نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں جاری اسرائیلی حملوں کے باعث صحت کا شعبہ سنگین بحران کی کیفیت سے دوچار ہو چکا ہے۔

امارات نیوز ایجنسی کے مطابق ادارے کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں استعمال ہونے والی ضروری طبی سامان کا 45 فیصد ذخیرہ پہلے ہی ختم ہو چکا ہے جبکہ باقی ماندہ سامان کا ایک چوتھائی حصہ آئندہ چھ ہفتوں کے اندر ختم ہونے کا خدشہ ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جان بچانے والی ادویات اور خون سے حاصل کردہ اجزا کا ذخیرہ اختتام کے قریب ہے جس کی وجہ سے مریضوں کی جانیں خطرے میں ہیں۔یو این آر ڈبلیو اے نے عالمی برادری اور امدادی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں طبی امداد کی فوری ضرورت ہے۔

لہٰذا وہ فوری طور پر غزہ میں بڑھتی ہوئی طبی امداد کی فراہمی کے لیے اقدامات کریں تاکہ انسانی جانوں کو بچایا جا سکے۔