ایران کے بعد ترکی نشانہ، اِسلامی ممالک سے متعلق اسرائیل کے خطرناک عزائم کھلنے لگے

رپورٹ: علی ہلال
اسرائیلی تجزیہ کار نے کہا ہے کہ ایران کے بعد اسرائیل کا اگلا ہدف ترکی بنے گا۔ عبرانی چینل 13 سے بات چیت کرتے ہوئے یہودی عسکری تجزیہ کار ایال نے بتایا کہ ہم نے کوارٹر فائنل حماس کے ساتھ لڑی، سیمی فائنل ایران کے ساتھ کھیل رہے ہیں جس میں ہم فاتح ٹہرے ہیں۔ اب ہمارا فائنل ترکی کے ساتھ ڈن ہے۔
اسرائیلی تجزیہ کار کے اس تجزیہ نے اسرائیل اور ترکی کے امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کو نئی تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ ترکی وہ ملک ہے جس نے اسرائیل کو عالم اسلام میں سب سے پہلے تسلیم کیا ہے اور آج تک ترکی کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم ہیں۔ ایسے میں ترکی کے بارے میں اس نوعیت کے خیالات کا اظہار صہیونی ریاست کے مستقبل کے بھیانک عزائم سے پردہ اٹھاتا ہے۔
خیال رہے کہ غزہ جنگ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں متعدد مواقع پر اسرائیلی اداروں اور افراد نے ترکی کے بارے ایسے بیانات جاری کئے ہیں جن سے صہیونی ریاست کے ترکی سے متعلق عزائم آشکار ہورہے ہیں۔ 26 اکتوبر 2023ء کو ترک صدر رجب طیب اردگان کے فلسطینی تنظیم کے حوالے سے جاری تازہ بیان پر اسرائیلی حکومت اور اداروں نے شدید غصے کا اظہار کیا تھا۔ ترک صدر کے مطابق فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس دہشت گرد نہیں بلکہ تحریک آزادی کی جنگ لڑرہی ہے۔ اس بیان پر جہاں اسرائیلی میڈیا نے شور مچایا تھا وہیں اسرائیلی فوج کے ترجمان نے ترک صدر کے بیان پر سخت ردعمل دیاتھا۔
اسرائیلی وزیر سیاحت و کھیل الیاہو نے ترکی کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی پر زور دیاتھا۔ خیال رہے کہ ترک صدر نے حکمرانی پارٹی کے اراکین اسمبلی سے خطاب میں نئے کمنٹس دیتے ہوئے یہ بیان جاری کیا تھا۔ اس بیان کو سات اکتوبر کے بعد سے ترک صدر کا سب سے منفرد بیان قرار دیا گیا تھا۔ اکتوبر 2023ء کے بعد سے اسرائیل کے متعدد ذمہ داروں نے متعدد عالمی تقاریب میں جدید مشرق وسطیٰ کے نقشے لہراکر صہیونی ریاست کے عزائم کے بارے بتا دیا ہے۔ نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خطاب کے دوران دو نقشے لہرائے جن میں  سے ایک میں سبز رنگ کے ممالک کو دکھایا گیا تھا، جنہیں اسرائیل کے حلیف ممالک کا نام دیا گیا تھا جبکہ دوسرے نقشے پر سیاہ رنگ تھا ان ممالک کو اسرائیل کے دشمن ممالک کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔
ترک صدر رجب طیب اردگان نے بھی اس پر اپنے خطاب میں بات کی تھی۔ انہوں نے اس نقشے کو اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کا نام دیتے ہوئے بتایا کہ اسرائیل غزہ اور مغربی کنارے پر اکتفا نہیں کرے گا بلکہ دجلہ و فرات کے درمیانی علاقے پر قبضہ اس کا خواب ہے جس کا اعلان اسرائیل نقشے پیش کرکے کررہاہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں اسرائیل کی فوجی بجٹ بنانے والی ناغال کمیٹی نے بھی اسرائیلی وزیراعظم کو دفاعی بجٹ میں مزید اضافے کی رپورٹ دیتے ہوئے کہاہے کہ اسرائیل کا اگلا حریف ترکی ہے جس کے ساتھ اسرائیل کی جنگ ہوگی۔ اسرائیلی انٹیلی جنس کی سابق خاتون آفیسر اور سیکورٹی ماہر میری آئیسین نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے گزشتہ برس لبنان میں جنگ میں زمینی حملہ کرنا اور حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو مارنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اسرائیل کا بیک وقت غزہ،مغربی کنارہ، لبنان،یمن، شام اور عراق میں حملے کرنا مزاحمتی محور کو ختم کرنا ہے۔ میری آئیسین کے مطابق اسرائیل خطے میں مزاحمتی محور کو ختم کرکے اپنے توسیع پسندانہ منصوبے کو آگے بڑھا رہاہے۔
جدید مشرق وسطی منصوبے پر روشنی ڈالتے ہوئے عرب باحث وائل زبون لکھا ہے کہ اس منصوبے میں اسرائیل کو علاقائی برتری اور بالادستی دیے جانے کا منصوبہ شامل ہے، جس میں اولین سیڑھی عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کا قیام ہے تاکہ اسرائیل کی سفارتی تنہائی ختم ہو۔ اس سے نفرت کرنے والے ممالک کم ہوں اور اس کے حلیفوں کی تعداد میں اضافہ ہو۔ اس سے اسرائیل کو خطے کے ہر سیاسی اور عسکری معاملے میں شرکت کا موقع میسر آئے گا اور اسرائیل علاقائی تنازعات میں ایک ’قائدانہ‘ کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آجائے گا۔ اس میں ٹیکنالوجی ،سیکورٹی اور انٹیلی جنس کے شعبے سرفہرست ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے قدرتی ذخائر بالخصوص تیل اور گیس کے ذخائر سے مالامال ہے۔ ان ذخائر کو عالمی قوتوں اور اسرائیل کے قبضے میں لانا اہم ہدف ہے، جس کے لیے اسرائیل کو عرب ممالک کے ساتھ آزاد تجارت، انفراسٹرکچر پروجیکٹس اور سرمایہ کاری کے ذریعے مداخلت کی راہ دی جائے گی۔
اِس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے علاقائی اقتصادی گروپ کا قیام اور شراکت عمل میں لایا جائے گا جبکہ میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے مزاحمتی فکر اور نظریات کو دہشت گردی سے جوڑ کر بدنام کیا جائے گا۔ جدید مشرق وسطی میں عرب ممالک کو فرقہ وارانہ ،لسانی، سیاسی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم بھی شامل ہے۔ علاقائی عرب ممالک کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے چھوٹے چھوٹے کمزور ریاستیں قائم کی جائیں گی تاکہ اسرائیل کے مقابلے میں کمزور ہوں اور سیکورٹی و ٹیکنالوجی میں اسرائیل کے آگے محتاج اور کمزور ہوں۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں نسلی اور گروہی بنیادوں پر اختلافات کی حوصلہ افزائی کی جائے گی جبکہ بعض نسلی وفرقہ وارانہ گروپوں کے مقابلے میں ان کے حریفوں کی حمایت کرکے اختلافات کو ہوا دی جائے گی۔
گزشتہ دنوں اسرائیلی اکیڈمک اور ریسرچر مئیر مصر نے باقاعدہ مطالبہ کرتے ہوئے کہاہے کہ اسرائیل ایران کے خلاف عربوں کی جانب سے لڑ رہا ہے، لہٰذا اس جنگ کے اخراجات عرب ممالک سے لیے جائیں گے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایران پر حملہ اسرائیل کے خطرناک عزائم کی ایک جھلک ہے۔ خیال رہے کہ رواں برس جنوری میں اسرائیلی سیکورٹی کی بجٹ اور فورس بلڈنگ کمیٹی ’ناغل‘ نے بھی حکومت کو رپورٹ دی تھی کہ اسرائیل کی اگلی جنگ ترکی کے ساتھ ہوگی۔