امریکا کی ایران کے نیوکلئیر پلانٹ پر حملے کی تیاری

امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق اعلیٰ امریکی حکام آئندہ چند روز میں ایران پر ممکنہ حملے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
بلومبرگ نے باخبر ذرائع کے حوالے سے جمعرات کو اطلاع دی ہے کہ صورتحال مسلسل بدل رہی ہے اور آئندہ ہفتے کے آغاز میں حملے کا امکان موجود ہے۔
اس سے قبل “اے بی سی نیوز” نے ایک ذریعے کے حوالے سے بتایا تھاکہ ممکنہ امریکی حملہ فوردو نیوکلیئر پلانٹ پر ایک ہی وار نہیں بلکہ کئی حملوں پر مشتمل ہو سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس حملے پر غور کررہے ہیں اور اس کی تیاری بھی جاری ہے۔
ادھر امریکی ویب سائٹ “اکسیوس” نے انکشاف کیا ہے کہ ٹرمپ نے اپنے مشیروں سے یہ جاننے کی خواہش ظاہر کی ہے کہ اگر فوردو پر حملے میں امریکی گہرے اثرات والے بم استعمال کیے جائیں تو اس کی کامیابی کے کتنے امکانات ہیں۔
اکسیوس کے مطابق ٹرمپ اس بات کی بھی تصدیق چاہتے ہیں کہ ایران پر حملہ واقعی ضروری ہے اور اس کے نتیجے میں امریکا کسی طویل جنگ میں نہ الجھ جائے۔
ایک امریکی عہدیدار نے کہا کہ “میرا خیال ہے کہ ٹرمپ اب تک ایران پر حملے کے بارے میں قائل نہیں ہوئے”۔
مذکورہ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ٹرمپ کو بتایا گیا ہے کہ امریکی بمبار فوردو جیسی زیرزمین تنصیبات تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے واضح جواب دینے سے گریز کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی ۔ کوئی نہیں جانتا کہ میں کیا کرنے والا ہوں”۔
ٹرمپ نے انکشاف کیا کہ ایرانی حکام واشنگٹن آکر بات چیت کرنا چاہتے ہیں لیکن ساتھ ہی کہا کہ “اب شاید اس کے لیے دیر ہو چکی ہے”۔
وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق تین باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ ٹرمپ نے اپنے قریبی مشیروں کو ایران پر حملے کی منصوبہ بندی کی منظوری دے دی ہے، لیکن حتمی حکم اس لیے مؤخر کیا جا رہا ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ آیا تہران اپنا جوہری پروگرام ترک کرتا ہے یا نہیں۔
فوردو میں یورینیم افزودگی کے پلانٹ کو تباہ کرنے یا غیر مؤثر بنانے کے امکان پر بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ ” امریکہ واحد ملک ہے جو یہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے. مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں لازماً ایسا ہی کروں گا”۔

ایران کا میزائل حملہ، بئرسبع میں اسرائیلی ہسپتال کو اڑا کر رکھ دیا

فوجی ماہرین کا خیال ہے کہ فوردو کا جوہری پلانٹ جو کہ قم شہر کے قریب ایک پہاڑ کے نیچے واقع ہے، اس کو تباہ کرنے کے لیے اسرائیل کو امریکی عسکری مدد کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
ادھر اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاھو نے بدھ کی شام جاری کردہ ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ اسرائیل قدم بہ قدم آگے بڑھتے ہوئے ایرانی جوہری تنصیبات اور بیلسٹک میزائل ذخائر کو ختم کرنے کے مشن پر گامزن ہے۔
ٹرمپ نے سفارتی ذرائع سے جنگ روکنے کی تجویز کو نظر انداز کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ امریکا بھی جنگ میں شامل ہو سکتا ہے۔
منگل کے روز سوشل میڈیا پر انہوں نے ایرانی رہبر اعلیٰ خامنہ ای کے قتل کی بات کی اور پھر ایران سے “غیر مشروط ہتھیار ڈالنے” کا مطالبہ کیا۔
ایک باخبر ذریعے کے مطابق ٹرمپ اور ان کی ٹیم اس وقت مختلف آپشنز پر غور کررہے ہیں، جن میں اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے میں شامل ہونا بھی  ہے۔