ویٹو کسی قانون ساز ادارے کے قانون یا تجویز کو نامنظور کرنے کے آئینی حق، حق استرداد اور حق تنسیخ کو کہا جاتا ہے۔ ویٹو پاور اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک کا ایک خصوصی اختیار ہے جس سے وہ اقوام متحدہ کا کوئی بھی بل، قانون اور قرارداد رد کرسکتے ہیں۔ ان ارکان میں چین، فرانس، برطانیہ، روس اور ریاستہائے متحدہ امریکا شامل ہیں۔ سلامتی کونسل کے تازہ اجلاس میں غزہ میں مستقل جنگ بندی کی قراردار کو امریکا نے ویٹو کردیا۔
5 جون 2025ء کو یہ قرارداد پاکستان سمیت سلامتی کونسل کے 10 غیرمستقل ارکان الجزائر، ڈنمارک، یونان، یو ای اے، گنی، پانامہ، جنوبی کوریا، سیر الیون، سلوانیہ اور صومالیہ نے پیش کی تھی۔ جس میں کہا گیا تھاکہ ”غزہ میں بلاتاخیر، غیرمشروط اور مستقل جنگ بندی کی جائے جس کا تمام فریق احترام کریں۔ غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل و تقسیم میں حائل تمام رکاوٹوں کو فوری، غیرمشروط دور کرنے اور اقوام متحدہ و امدادی شراکت داروں کو علاقے میں محفوظ اور بلارکاوٹ رسائی اور غزہ میں ضروری خدمات کو بحال کیا جائے۔ 1972ء سے آج تک امریکا مسئلہ فلسطین پر 53قراردادیں جبکہ 7 اکتوبر 2023 ء کے بعد جنگ بندی کی 5قراردادیں ویٹو کر چکا ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کے 193 ممبر ممالک امریکی ہٹ دھرمی کے آگے بے بس ہیں۔ انسانی حقوق کی علمبرداری کا دعوے دار امریکا کمزور ممالک پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی آڑ میں چڑھ دوڑتا ہے مگر اسرائیلی نسل کشی کی حمایت میں وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا اور اپنے عیب کو ہنر ثابت کرتا ہے
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس، سلامتی کونسل کے ممبران کی جنگ بندی کی قرارداد کی حمایت بھی امریکا کو قرارداد ویٹو کرنے سے نہ روک سکی۔ اسرائیل کے جنگی جرائم کو تحفظ دینے والی امریکا کی ویٹو پالیسی کے عالمی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں! یہ سوال انتہائی اہم ہے۔ امریکا کی جانب سے قرارداد ویٹو کرنے سے یہ سوالات سامنے آتے ہیں کہ کیا غزہ کے مظلوموں کی نسل کشی اسی طرح جاری رہے گی؟ کیا امریکا غزہ کے ایشو پر تنہا ہو رہا ہے؟ کیا حالیہ جنگ بندی کی قرارداد ویٹو ہونے کے بعد یورپی ممالک میں امریکا و اسرائیل مخالف لہر میں تیزی آ سکتی ہے؟ جنگ بندی کی حالیہ قرارداد ایک ایسے موقع پر ناکام ہوئی جب غزہ میں انسانی بحران شدت اختیار کئے ہوئے ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے علاقے میں طبی خدمات کے مکمل خاتمے، بڑھتی ہوئی نقل مکانی اور اسرائیل کی خوراک اور ادویات کی ترسیل میں رکاوٹوں کے باعث بڑھتی ہوئی اموات کے بارے خبر دار کر رہے ہیں۔ یوں موجودہ جنگ بندی کی قرارداد فقط فلسطینیوں کے سیاسی و ریاستی حقوق کی قرارداد نہیں تھی بلکہ دم توڑتی انسانیت، انسانی ہمدردی، بھوک سے لاغر بچوں کو بچانے اور غزہ میں جاری نسل کشی روکنے کی قرارداد تھی۔ لہٰذا امریکا کی ویٹو کی جانے والی موجودہ قرارداد پہلی ویٹو کی گئی قراردادوں سے اپنی نوعیت میں مختلف تھی جس کا ممکنہ ردعمل امریکا کو عالمی سیاست میں فلسطینی ایشو پر مزید تنہا کرسکتا ہے۔ حال ہی میں فرانس کے پورٹ ورکرز نے اسرائیلی بحری جہازوں پر ساز و سامان لادنے سے انکار کردیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق آئندہ چند روز میں یورپی ممالک کی بندرگاہوں پر کام کرنے والے مزید پورٹ ورکرز اسرائیلی ساز وسامان لادنے سے انکار کی مہم کا حصہ بن سکتے ہیں۔
5 جون کو 14 ممبران نے قرارداد میں امریکا و اسرائیل کو واضح پیغام دیا کہ فلسطین میں مزید ظلم وستم کی کوئی گنجائش نہیں۔ غزہ میں جاری غیرانسانی سلوک کو بند کیا جانا چاہیے۔ امریکا کی اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کی ویٹوپالیسی نے امریکا کو اقوام عالم کے سامنے کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے جس کا امریکا کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں۔ امریکا اسرائیل کے ظلم و سربیت کو اقوام متحدہ کے ذریعے تحفظ فراہم کر کے اقوام متحدہ کی ساکھ کو بھی متاثر کررہا ہے۔ اسرائیل کا بین الاقوامی قوانین کو پاؤں تلے روندنا انتہائی تشویشناک ہے۔ عالمی عدالت انصاف کے اسرائیل کے خلاف جاری فیصلوں پر عملدرآمد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ گویا اسرائیل کے سامنے بین الاقوامی قوانین بھی راکھ کا ڈھیر بن چکے ہیں جبکہ انسانی حقوق کے چیمپین ہونے کا دعویدار امریکا غزہ میں جاری لائیو نسل کشی کو تحفظ فراہم کررہا ہے۔ اقوام عالم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا 8 ارب سے زائد انسانوں کا مستقبل فقط ایک ویٹوپاور کے ہاتھ میں محفوظ رہ سکتا ہے؟ کیا عالمی قوانین پر عملدرآمد کے لیے ہمیں کسی نئے نظام کی ضرورت ہے؟ قرارداد ویٹو کیے جانے پر سلامتی کونسل اور امریکا کو شدید عالمی تنقید کا سامنا ہے
جس رستے پر بھی جاتا ہوں رستہ روکے
آگے ایک سوال کھڑا ہے اب کیا ہوگا
سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ بدقسمتی سے جنگ بندی ایک برا لفظ بن گیا ہے مگر یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے کہ اسرائیل اپنے دفاع کی آڑ میں نہتے فلسطینیوں کا قتلِ عام کر رہا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر امریکی حمایت جاری رہی اور جنگ بندی نہ ہوئی تو خطے کے حالات بے قابو ہو سکتے ہیں۔ ترک صدر کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل اسرائیلی تحفظ ودفاع کونسل بن چکی ہے، کیا یہ انصاف ہے؟ اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ناروے کے وزیر خارجہ نے کہا کہ غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ناکامی افسوسناک ہے۔ عالمی امدادی گروپ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے بیان میں کہا گیا کہ امریکی ویٹو ان اقدار کے بالکل برعکس ہے جن کو برقرار رکھنے کا وہ دعویٰ کرتا ہے۔ عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ غزہ کے تقریباً 90فیصد شہریوں کو بھوک کا سامنا ہے جن میں سے 36فیصد شہریوں کو کھانے کے لئے کچھ بھی میسر نہیں ہے جبکہ دیگر 52فیصد کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا۔ غزہ کے شمالی حصے کی صورتحال انتہائی بدتر ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف کے مطابق غزہ کی پٹی میں روزانہ درجنوں بچے شہید اور زخمی ہوتے ہیں، یہ بچوں کے لئے دنیا کی سب سے خطرناک جگہ ہے
ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر؟
بہرکیف، روزِ مکافات تو ضرور آئے گا۔ خدائے دیر گیر مہلت دیتا ہے
نہ جا اس کے تحمل پر کہ ہے بے ڈھب گرفت اس کی
ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا
(مولانا ظفر علی خان)۔
صہیونی ذہنیت کا یہ عالم ہے کہ بیت المقدس کے ڈپٹی میئر نے سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو زندہ دفن کرنے کا مطالبہ کیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ صہیونیت غزہ اور اہل غزہ کا وجود مٹانا چاہتی ہے
یہ اہل وفا کس آگ میں جلتے رہتے ہیں
کیوں بجھ کر راکھ نہیں ہوتے
کیا یہ فلسطینی انسان نہیں یا انسانیت کے اُصول و ضوابط ان پر لاگو نہیں ہو تے؟ انسانی حقوق کے علمبردار نہ جانے کس مستی میں ہیں؟ سلامتی کونسل کو اپنے کردار پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے، اِس سے پہلے کہ اقوام متحدہ کی حیثیت بھی اِس کی پیشرو لیگ آف نیشنز کی طرح ہوجائے۔