جنوب مشرقی ایشیا میں ڈیٹا سینٹرز کی تیز رفتار ترقی نے اس خطے کو عالمی سطح پر ایک اہم ٹیکنالوجی مرکز بنا دیا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی اثرات کے حوالے سے خدشات بھی جنم لے رہے ہیں۔ تاہم، حالیہ ایک رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2030 تک اس خطے میں ڈیٹا سینٹرز اپنی توانائی کا تقریباً 30 فیصد حصہ شمسی اور ہوائی ذرائع سے، بیٹری اسٹوریج پر انحصار کیے بغیر، حاصل کر سکیں گے۔
ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز (آسیان) میں انفارمیشن، کمیونیکیشن اور ٹیکنالوجی کی صنعت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ انرجی تھنک ٹینک “Ember” کی جانب سے جاری کردہ نئی رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح یہ تیز رفتار ترقی خطے میں توانائی کی طلب بڑھا رہی ہے، اور چونکہ زیادہ تر بجلی اب بھی فاسل فیولز سے پیدا ہو رہی ہے، اس لیے کاربن اخراج میں اضافے کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق آسیان کی چھ بڑی معیشتیں — انڈونیشیا، ملائیشیا، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویتنام — عالمی سطح پر ڈیٹا سینٹرز کے نئے مراکز کے طور پر ابھر رہی ہیں، جہاں اس وقت 2.9 گیگا واٹ کی نئی ڈیٹا سینٹر کی گنجائش زیر تعمیر یا منصوبہ بندی کے مراحل میں ہے۔
تاہم، توانائی کے شعبے کا سست رفتاری سے کاربن سے پاک ہونا ان کوششوں کے لیے ایک رکاوٹ بن رہا ہے۔ مثال کے طور پر، ملائیشیا میں ڈیٹا سینٹرز کی بجلی کی کھپت میں سب سے تیزی سے اضافہ متوقع ہے — 2024 میں 9 ٹیرا واٹ آور کی طلب 2030 تک بڑھ کر 68 ٹیرا واٹ آور ہو سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں، ملائیشیا 2030 تک خطے کا سب سے زیادہ کاربن خارج کرنے والا ملک بن جائے گا، جس کا اخراج 7 گنا بڑھ کر 40 میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ ایکوئیولنٹ تک پہنچ سکتا ہے۔ فلپائن میں یہ اضافہ 14 فیصد اور انڈونیشیا میں چار گنا تک متوقع ہے۔
رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ ڈیٹا سینٹرز کو ماحول دوست بنانا ممکن ہے۔ اگر درست پالیسی سازی، مارکیٹ تک رسائی اور جدید انفراسٹرکچر کی منصوبہ بندی کی جائے تو ڈیٹا سینٹرز کی توانائی ضروریات کا ایک بڑا حصہ قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل کیا جا سکتا ہے — وہ بھی بیٹری اسٹوریج جیسے مہنگے اور تکنیکی طور پر پیچیدہ نظام کے بغیر۔
اگر آسیان ممالک نے بروقت اقدامات کیے، تو وہ ڈیٹا سینٹرز کی اس تیز تر ترقی کو کاربن اخراج میں اضافہ کیے بغیر جاری رکھ سکتے ہیں۔