نام نہاد اہلِ قرآن

مسلم دنیا میں ایک طبقہ ایسا بھی پایا جاتاہے جو خود کو اہلِ قرآن کہلواتا ہے۔ بظاہر یہ ایک اچھا اورپرکشش نام ہے۔ اہل قرآن کے نام سے بھلا کون مرعوب نہیںہوگا؟ اگر کوئی اہل اللہ ہوسکتا ہے، اہل ِصفا ہوسکتا ہے ،اہل حدیث ہوسکتاہے، تو اہلِ قرآن کیوں نہیں ہوسکتا؟لیکن فی الاصل یہ نام ایک دھوکا ہے،ایک جعل سازی ہے۔قارئین کو اس وضاحت سے کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔

”اہلِ قرآن” ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ لوگ قرآن پر باقاعدہ عمل کرتے اور اس کے نفاذ کی جدوجہد کرتے ہیںبلکہ یہ ہے کہ و ہ اس نام کو استعمال کرکے خود قرآن کے خلاف ہی عمل کرتے ہیں۔ صاف بات یہ ہے کہ اگر کسی کو دھوکا دینا ہو تو اسے اپنا نام اور حلیہ بھی اسی فرد کی مانند بنانا ہوگا۔ بالکل اسی طرح جیسے لارنس آف عریبیہ نے جبے ، داڑھی اور عمامے کے ظاہری حلیے کے ساتھ عربوںکو ترکوں سے بیزارکرنے کا”کارنامہ” انجام دیا تھا۔

”اہل قرآن ”کے دعووں، مزعومات اور دعوت کا حاصل یہ ہے کہ احادیث شریعت نہیں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افعال و اقوال تو بس ان کے اپنے دور تک کیلئے ہی تھے۔ ان میںسے بھی بعض احکام کا تعلق تو بلکہ محض اس دور تک کے قبائل ہی سے تھا۔ محمد ۖ بس ایک پیغام بر تھے جواللہ کا قرآن پہنچا کر واپس چلے گئے۔ صحابہ کرام قابل ِ اتباع نہیں۔ دنیا اب نئے دور میں داخل ہوگئی ہے۔مسائل وہ نہیں رہے جو اس دور کے تھے۔ پردہ آج اس اہتمام کے ساتھ کیسے کیا جاسکتا ہے جیسا ہمارے ہاں رائج ہے۔ سود کو بالکلیہ حرام قرار نہیں دیاجاسکتا۔ پھر تو عالمی اقتصادیات ہی خطرے میں پڑ جائیں گی۔ نماز کا مطلب وہ ہرگز نہیں ہے جو عام طورپر لوگوں نے اخذ کرلیا ہے ۔وہ تو بس سادہ سی دعائیں مانگنے کا نام ہے۔ نہ قبلہ رخ ہونا، نہ خاص شکل میں ڈھلنا اورنہ مسجد میں پہنچنا۔ جو روزے ہیں ، ا س دور میںان کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں سابقہ دور تک تو ان کا رواج ضرور ہی تھا لیکن اب اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ عام لوگ قرآ ن کو جس طرح احادیث اور فقہ کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، قرآن کا وہ منشاہی نہیںہے۔ اسے کسی اور مواد سے سمجھنے کی بجائے خود قرآن ہی سے سمجھنا چاہیے کیونکہ وہ اپنی وضاحت خودہی کرتاہے۔ اگر ایک آیت میں کسی بات کامطلب سمجھ میں نہیں آتا تو آگے کسی اور مقام پر اس کی مزید وضاحت مل جائے گی۔ وغیرہ،وغیرہ ۔

ان کے عقائد کی چند مثالیں انہی کے شائع کردہ ایک کتابچے سے پیش کی جاتی ہیں۔
قرآنی علم ِتجوید ایک بے کار بات ہے۔۔قرآن کی سات قراتیں محض جھوٹ ہیںاور قرآن کی تحریف کیلئے ایجاد کی گئی ہیں۔ قرآن کی تفسیر لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دشمنانِ اسلام نے قرآن حکیم کو امت سے چھیننے کیلئے رسول للہ ۖ کے نام کی طرف منسوب کرکے علم حدیث ایجاد کیا جس کے اصل بنانے اور گھڑنے والے وضاعین خود کو امام کہتے ہیں۔امام زہری حضرت عائشہ کے واقعہ افک کی روایت کے خالق ہیں۔ دشمنانِ اسلام نے اس قسم کی جعلی حدیثیں بنائیں کہ حضور ِ اکرم ۖ ان پڑھ تھے۔ سامراج نے سوچا کہ قرآن تو ہماری جان نہیں چھوڑے گا ۔کیوں نہ ہم اپنے بزرگوں کے کئے ہوئے کام (بناوٹی حدیثوں)کی پٹاری کھول لیںکہ رسول اللہ کا داماد بڑا دولت مند تھا۔اس کا لقب غنی تھا ۔ صوم کے شروع کرنے کیلئے سارے قرآن میں سحری کے وقت کا کہیںبھی ذکر نہیں ہے اور اختتام کیلئے مغرب کے وقت کا بھی کہیں ذکر نہیں کیا گیا ہے۔(حوالہ کتاب ” قرآنِ مظلوم کی فریاد”،از عزیزاللہ بوہیو۔ شائع شدہ نوشہرو فیروز،سندھ)

مصنف موصوف سے راقم کی ایک ملاقات بھی اتفاقاہو گئی تھی اورانہی نے یہ کتابچہ مجھے دیا تھا۔فیس بک پر بھی آج کل” آئیے قرآن کو قرآن سے سمجھیں”کے نام سے ایک سلسلہ چلایا گیا ہے۔ ناظرین کی خدمت میں عرض ہے کہ اس طرح کی خرافات کو سننے سے پرہیز کریں کہ اس کی آڑ میں ایمان سلب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ لوگ عید ِ قرباں کو بھی نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ جانور ذبح کرنا محض دولت کا زیاں ہے۔ یہی لوگ ہیںجو ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی نوعمری میں شادی کو بھی ایک احمقانہ خیال تصو ر کرتے ہیں۔

احادیث کو یہ لوگ اس لئے نہیں مانتے کہ اس سے وہ بے حساب شرعی بندھنوں میں بندھتے ہیں اورکسی شرعی نظام میں بندھنا انہیں راس ہی نہیں آتا۔ وہ بس جانوروں ہی کی سی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ دینی اور الہامی قواعد و قوانین کو تسلیم کرنے سے ا نکار کرتے ہیں،بلکہ ان کا مذا ق اڑاتے ہیں لیکن دنیاوی قوانین پر ان میںکوئی بے بھی چینی نہیں پائی جاتی۔ تھانے کے قواعد و ضوابط کوبھی وہ مملکت کے نظم و ضبط کیلئے لازمی سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں ان لوگوں کے نام اہلِ قرآن، پرویزی، احمدی اورمنکرین سنت ہیںفی زمانہ جن کے سرخیل جاوید احمد غامدی ہیں۔ان کے فلسفے ایلیٹ کلاسز کو بہت پسند آتے ہیں ۔مجبورا تو یہ طبقہ اسلام کو پسند کرتاہے لیکن اندر سے اسے اس کے ضوابط پر عمل کرنے میں شرم و حیا محسوس کرتا ہے۔دنیا کیا کہے گی؟یہ جملہ ان کی زبانوں پر ہمیشہ چڑھا رہتا ہے جسے غامدی صاحب کی تحریر و تقریر آگ دیتی رہتی ہے۔ وہ دین کے اندر بھی رہنا چاہتے ہیں اور دین سے باہر بھی رہنا چاہتے ہیں۔صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں کی سی کیفیت میںگھر ے رہتے ہیں۔

سو ان نام نہاد اہل القرآن کے فلسفے پر اگر کوئی چلے اوران کی ساحرانہ گفتگو کے جال میں پھنس جائے تو یقین کرلینا چاہیے کہ اس نے اپنا موجودہ کمزور سا ایمان بھی گنوادیا ہے۔ محض قرآ ن پر عمل کرنے کے نظریے کا مطلب اس کے سوا اور کیاہے کہ ہم نے لاکھوںکی تعداد میں موجود ذخیرہ احادیث کو دریا برد اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین سے تعلق توڑ لیا ہے۔ اس کا دوسر ا مطلب یہ بھی ہے کہ آخرت میں ہم اللہ تعالی کے پاس بالکل خالی ہاتھ جائیں گے۔

آج کے د ور کے یہ فتنے سب کے سب سراب ہیں۔ قادیانیت، پرویزیت، وطنیت، انکارِ حدیث وغیرہ وغیرہ۔ ساری مسلم دنیا سے زیادہ پاکستان ہی ان تمام فسادات کی آماجگاہ بنا ہوا ہے جہاں نہ کوئی قانون ہے، نہ آئین ہے، اور نہ امن و امان ہے۔ ایک چراگاہ ہے جہاں جس کا دل چاہے ریوڑ لئے اندر تک گھس آتاہے اور کلہ گاڑ کر بیٹھ جاتاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں واضح طورپر فرمایا تھا کہ میری امت میں سے کچھ لو گ ہوں گے جو قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتاہے ۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا تھا کہ میری امت میں سے کچھ لوگ ہوںگے جو قرآن کی تلاوت کریں گے ۔لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتاہے۔اللہ کی مخلوق میں وہ سب سے بدترین ہوں گے ۔