خان یونس/نیویارک/لندن/تل ابیب:اسرائیل کی غزہ میں وحشیانہ بربریت جاری ہے اور گزشتہ 24گھنٹوں کے دوران مزید23فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔عرب میڈیارپورٹس کے مطابق اسرائیل نے دیرالبلاح میں پناہ گزین کیمپ پرحملہ کر دیا جس کے باعث 4فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔
خان یونس میں اسرائیلی فضائی حملے کے نتیجے میں کم از کم 8فلسطینی شہید ہو گئے جن میں چار کمسن بچے اور دو خواتین شامل ہیں۔ یہ حملہ ان خیموں پر کیا گیا جہاں نقل مکانی کرنے والے بے گھر افراد پناہ لیے ہوئے تھے۔غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود بصال کے مطابق اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے رات گئے تین خیموں کو نشانہ بنایا جن میں درجنوں بے گھر افراد موجود تھے۔
جاں بحق ہونے والے بچوں کی عمریں دو سے پانچ سال کے درمیان تھیں۔حملے کے بعد کی ویڈیوز میں امدادی کارکنوں کو اندھیرے میں لاشیں نکالتے اور ایمبولینس میں منتقل کرتے دیکھا گیا جن میں ایک بچے کی لاش سفید پلاسٹک بیگ اور دوسری کمبل میں لپٹی ہوئی تھی۔
ایک زخمی شیر خوار بچے کو بھی طبی امداد دی گئی۔اس کے علاوہ اسرائیلی فوج نے غزہ شہر کے مشرق میں پانچ مکانات کو دھماکا خیز مواد سے تباہ کر دیا اور خان یونس کے مشرقی علاقے عباسیہ پر توپ خانے سے گولہ باری کی تاہم ان حملوں میں مزید ہلاکتوں کی اطلاع نہیں ملی۔
دوسری جانب حماس کے مسلح ونگ عزالدین القسام بریگیڈز نے دو اسرائیلی یرغمالیوں کی ویڈیو جاری کردی جس میں دونوں افراد کو زندہ حالت میں دکھایا گیا ہے۔ ان میں سے ایک شخص نے اسرائیل سے 19ماہ سے جاری جنگ کو ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔
یہ دونوں افراد36سالہ الکانہ بوہبوت اور24سالہ یوسف حییم اوہانا کو اسرائیلی گروپ نے شناخت کیا، جنہیں 7اکتوبر 2023ء کے حماس کے حملے کے دوران اغوا کیا گیا تھا۔ویڈیو میں بوہبوت کو کمزور حالت میں زمین پر کمبل میں لپٹا ہوا دیکھا جا سکتا ہے جبکہ اوہانا عبرانی زبان میں اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ غزہ میں جاری فوجی کارروائی بند کرے اور باقی تمام یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنائے۔
دریں اثناء یورومیڈ مرصد برائے انسانی حقوق نے انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج اکتوبر 2023ء سے غزہ کی پٹی پر جاری جارحیت کے دوران روزانہ اوسطاً 21.3 فلسطینی خواتین کو قتل کر رہی ہے یعنی تقریباً ہر گھنٹے میں ایک فلسطینی خاتون شہید کی جا رہی ہے۔
یہ اعداد و شمار براہِ راست بمباری کا نتیجہ ہیں جب کہ محاصرے، بھوک اور طبی سہولیات سے محرومی کے باعث شہید ہونے والی خواتین ان میں شامل نہیں۔اتوار کو جاری بیان میں یورومیڈ نے بتایا کہ خواتین کا غیر معمولی پیمانے پر قتل نہ صرف اسرائیل کی نسلی تطہیر کی پالیسی کا حصہ ہے بلکہ یہ فلسطینی معاشرے کو منظم انداز میں تباہ کرنے کی ایک دانستہ کوشش ہے۔
متاثرہ خواتین میں مائیں، حاملہ خواتین اور وہ خواتین شامل ہیں جو اپنے بچوں کو بچانے کی کوشش میں شہید ہوئیں۔ہیومن رائٹس آبزر ویٹری نے اس امر پر زور دیا کہ غزہ میں روزانہ کی بنیاد پر خواتین کا ہدف بننا قابض فاشسٹ اسرائیل کی ایک واضح اور منظم پالیسی ہے جس کا مقصد بین الاقوامی قانون کے تحت فلسطینیوں کی نسلی صفائی ہے۔
مرصد کے مطابق زمینی مشاہدات سے پتا چلتا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں حاملہ خواتین اور کم عمر بچوں کی مائیں خصوصی ہدف ہیں جو یا تو گھروں میں یا خیمہ بستیوں اور پناہ گاہوں میں اپنی فیملی کے ساتھ رہ رہی تھیں۔مرصد کی ٹیم نے ہزاروں خواتین کی شہادت کی تصدیق کی ہے جن میں بڑی تعداد نسل افزائی کی عمر کی خواتین کی ہے۔
ان میں وہ مائیں بھی شامل ہیں جو اپنے بچوں کے ساتھ ایک ہی حملے میں شہید ہوئیں۔سرکاری طبی اعداد و شمار کے مطابق 582 دنوں میں 12,400 فلسطینی خواتین شہید ہو چکی ہیں۔بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اسرائیلی بمباری سے مائیں، حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی خواتین سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گذشتہ ہفتے غزہ میں بھوک، غذائی قلت اور طبی سہولیات کے فقدان کے باعث کم از کم 14 بزرگ فلسطینی دم توڑ چکے ہیں۔ ان اموات کی براہِ راست ذمہ داری قابض صہیونی فاشسٹ ریاست پر عائد ہوتی ہے جس نے 2 مارچ سے غزہ کی گزرگاہوں کو مکمل طور پر بند کر رکھا ہے اور اشیائے خورونوش و انسانی امداد کی ترسیل کو روک رکھا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ اموات غزہ کے مختلف علاقوں میں ہوئیں جہاں خوراک، پانی اور دوا کی شدید قلت ہے۔ قحط کی فضا چھائی ہوئی ہے، صحت کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے اور مریض بنیادی علاج سے بھی محروم ہیں۔ یہ صورتحال خاص طور پر بزرگوں اور بیماروں کو موت کے دہانے پر لے آئی ہے جو دنیا سے مکمل طور پر کٹے ہوئے اور تنہائی میں اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔
علاوہ ازیں اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون ساعر نے اتوار کو کہا ہے کہ ان کا ملک غزہ کی پٹی میں امداد کی تقسیم کے لیے امریکی منصوبے کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ اس منصوبے کے مطابق امداد کی تقسیم میں اسرائیل شامل نہیں ہوگا۔
ساعر نے اپنے جرمن ہم منصب یوہان فادیفول کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اسرائیل غزہ میں امریکی سفیر مائیک ہکابی کی جانب سے پیش کردہ ٹرمپ انتظامیہ کے منصوبے کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ٹرمپ نے حال ہی میں غزہ میں فلسطینیوں تک غذا پر مشتمل امداد پہنچانے میں مدد کرنے کے امریکی عزم کی تجدید کی ہے۔
واشنگٹن کے اسرائیل میں مندوب نے یہ بھی کہا کہ غزہ میں امداد داخل کرنے کے لیے امریکا کے حمایت یافتہ ایک میکانزم کو جلد ہی عمل میں لایا جائے گا۔ایک اور تناظر میں اسرائیلی وزیر خارجہ نے خبردار کیا کہ ان کا ملک کسی بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے جواب میں ”یک طرفہ اقدامات”کرے گا۔
یہ بیان فرانسیسی صدر میکرون کے گزشتہ ماہ اس حوالے سے فلسطین کو تسلیم کرنے کے ممکنہ اقدامات کے بارے میں بیانات کے بعد سامنے آیا ہے۔ ساعر نے مزید کہا کہ یک طرفہ طور پر تسلیم کرنے کی کوئی بھی کوشش صرف دو طرفہ عمل کے مستقبل کے امکانات کو نقصان پہنچائے گی اور ہمیں اس کے جواب میں یک طرفہ اقدامات کرنے پر مجبور کرے گی۔
دوسری طرف جرمن وزیر خارجہ نے کہا کہ غزہ میں تنازع فوجی ذرائع سے حل نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ سیاسی حل کو توجہ کا مرکز ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جرمنی اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا ملک اسرائیلی حکومت کے انداز پر تنقید نہیں کر سکتا۔
فادیفول نے زور دیا کہ برلن حکومت کی ترجیح غزہ میں یرغمال بنائے گئے افراد کی واپسی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ غزہ میں فوجی کارروائی اسرائیل کی سلامتی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی۔ جرمن وزیر خارجہ نے زور دیا کہ یہ واضح ہے کہ غزہ فلسطینی علاقوں کا حصہ ہے۔