حماس کی مزاحمت تیز،صہیونی فوج شجاعیہ سے پسپا،بمباری میں19شہید

غزہ/جنیوا/نیویارک:قابض اسرائیل کی میڈیا رپورٹس کے مطابق ہفتے کی صبح غزہ کے مشرقی علاقے الشجاعیہ میں فلسطینی مزاحمت کاروں کی کارروائی میں اسرائیلی فوج کے کئی اہلکار شدید زخمی ہو گئے۔عبرانی نیوز ویب سائٹ ”حدشوت بزمان” نے اطلاع دی ہے کہ الشجاعیہ میں علی الصبح ایک سنگین سیکورٹی واقعہ پیش آیا جس کے بعد اسرائیلی فوجیوں کو فوجی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے علاقے سے نکالا گیا۔

رپورٹ کے مطابق مزاحمتی حملے میں ایک اسرائیلی بکتر بند گاڑی کو اینٹی ٹینک میزائل سے براہ راست نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں کئی فوجی اور افسران زخمی ہوئے۔ تمام زخمیوں کو فوری طور پر ہسپتال تل ہاشومیر منتقل کیا گیا۔واقعے کے فوری بعد قابض اسرائیل نے الشجاعیہ میں توپ خانے کی شدید بمباری کی اور مزید فوجی ہیلی کاپٹرز تعینات کر دیے۔

مختلف ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ صبح کے وقت الشجاعیہ کے علاقے میں زخمی اسرائیلی فوجیوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے نکالا جا رہا ہے۔فلسطینی مزاحمتی تنظیمیں مسلسل قابض افواج کو نشانہ بنا رہی ہیں جس سے اسرائیلی نقصانات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

یہ حملے غزہ کے معصوم شہریوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم کے جواب میں جاری ہیں۔دریں اثناء غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیلی فورسز کی وحشیانہ بربریت، جاری ہے، 24 گھنٹے میں مزید 19 فلسطینیوں کو شہید، متعدد کو زخمی کر دیا گیا۔

خوراک کی بندش کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے زمینی اور فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، شہدا کی مجموعی تعداد 52 ہزار 80 سے تجاوز کر گئی۔فلسطینی حکام کے مطابق 1 لاکھ 19 ہزار 349 زخمی ہو چکے، سیکڑوں شہری تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے میں پھنسے ہوئے ہیں، ایندھن کی کمی کی وجہ سے امدادی کارروائیوں میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

جنوبی غزہ کے شہر رفح میں قابض اسرائیلی بحریہ کی فائرنگ سے محمد سعید البردویل شہید ہو گئے۔ ان کی لاش ناصر ہسپتال خان یونس منتقل کردی گئی ہے۔ہفتے کی علی الصبح قابض اسرائیل نے غزہ شہر کے مشرقی علاقے الشجاعیہ میں شدید بمباری کی اور رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنا کر منہدم کر دیا۔

نصیرات کیمپ کے مشرقی علاقے پر بھی توپ خانے سے بمباری کی گئی جب کہ شمالی غزہ میں بیت لاہیا کے شمال مغرب میں بھی قابض فورسز کی بکتر بند گاڑیوں نے شدید فائرنگ کی۔طبی ذرائع کے مطابق ہفتے کی صبح غزہ کے جنوبی علاقے الصبرہ میں مسجد عبد اللہ عزام کے قریب ایک خیمے پر بمباری کے نتیجے میں طلیب خاندان کے 5 افراد شہید ہو گئے جن میں دو بچے اور ایک خاتون شامل ہیں جب کہ دیگر کئی زخمی ہوئے۔

اسرائیلی بمباری نے الشجاعیہ کے قریب شارع الثلاثینی میں پناہ گزینوں کے خیمے کو بھی نشانہ بنایا، ساتھ ہی التفاح محلے میں بھی فضائی حملے کیے گئے۔اس کے علاوہ، قابض اسرائیل نے مشرقی التفاح، الزیتون اور الشجاعیہ کے علاقوں پر کواڈ کاپٹر ڈرونز اور توپ خانے سے بھی شدید فائرنگ کی۔

وسطی غزہ کے البریج کیمپ، جنوبی خان یونس کے مشرقی علاقے عبسان الکبیرہ اور قیزان النجار پر بھی شدید بمباری کی گئی۔ خان یونس میں واقع کالج آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اطراف بھی توپ خانے سے حملے کیے گئے۔

ادھراقوامِ متحدہ کی نسل پرستی کے خاتمے کے لیے قائم کمیٹی نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں خوراک کے ذخائر کے خاتمے، بنیادی ڈھانچے کی وسیع تباہی اور پانی و بجلی کی سہولیات کو پہنچنے والے شدید نقصان نے عام شہریوں خصوصاً بچوں، خواتین، بزرگوں اور معذور افراد جیسے کمزور طبقات کو قحط، بیماری اور فوری موت کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔

یہ بیان کمیٹی کی 115ویں نشست کے اختتام پر جاری کیا گیا جو 22 اپریل سے 9 مئی تک سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں جاری رہی۔کمیٹی نے فوری طور پر انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے اور مستقل جنگ بندی کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔

کمیٹی نے خبردار کیا کہ موجودہ صورتحال عام شہریوں کے لیے تباہ کن نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ پورے مقبوضہ فلسطینی علاقے بشمول مشرقی بیت المقدس اور مغربی کنارے میں حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔

غزہ میں نظر آنے والے جبری نقل مکانی اور آبادکاروں کے پرتشدد حملوں جیسے مناظر اب ان علاقوں میں بھی نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔کمیٹی نے قابض اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ انسانی امداد کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں فوری طور پر ختم کرے، امدادی سامان کی بلاتاخیر اور آزادانہ رسائی کو ممکن بنائے اور عام شہریوں کو بنیادی خدمات کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے والے تمام اقدامات فوری طور پر بند کرے۔

بیان میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ تمام ممالک جو نسل پرستی کے خاتمے سے متعلق بین الاقوامی معاہدے کے فریق ہیں، اپنی عالمی ذمہ داریوں کو نبھائیں اور دشمنی کے پھیلاؤ کو روکنے، شہریوں کا تحفظ یقینی بنانے اور فوری و مؤثر اقدامات کے ذریعے انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور کی ترجمان اولگا چیرفکو نے غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کے لیے راستے کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق انھوں نے زور دیا کہ اقوامِ متحدہ، غزہ کے شہریوں کی جبری بے دخلی کے کسی منصوبے کی حمایت نہیں کرتی۔

غزہ میں انسانی امداد کی تقسیم کے لیے نئے امریکی منصوبے پر تبصرہ کرتے ہوئے اولگا چیرفکو نے کہا کہ انسانی امداد کی ترسیل سے متعلق تمام منصوبے انسانی اصولوں، غیر جانب داری اور منصفانہ تقسیم کے تقاضوں کے مطابق ہونے چاہئیں تاکہ یہ امداد ان لوگوں تک پہنچے جو واقعی اس کے مستحق ہیں، بغیر اس کے کہ ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو۔

انھوں نے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے اور شہریوں کو امداد تک رسائی دینے کا مطالبہ بھی کیا۔ترجمان کا کہنا تھا کہ غزہ میں انسانی ضروریات سنگین حد تک بڑھ چکی ہیں اور واضح کیا کہ پورے غزہ کے باشندے خوراک کے محتاج ہیں اور غذائی قلت کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

علاوہ ازیں اقوام متحدہ کی مختلف ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں انسانی امداد کو زبردستی کی نقل مکانی کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ ان اداروں کا کہنا ہے کہ قابض اسرائیل کی جانب سے جاری محاصرہ، اجتماعی نسل کشی اور بگڑتی انسانی صورتحال کے دوران امداد کو ایک ”چال” کے طور پر استعمال کرنا انسانی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال ”یونیسف” کے ترجمان جیمز ایلڈر نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل کی طرف سے انسانی برادری کو پیش کی جانے والی منصوبہ بندی بچوں اور خاندانوں کی تکالیف میں مزید اضافہ کرے گی۔

انہوں نے اس منصوبے کو بنیادی انسانی اقدار کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ چہرے کی شناخت جیسی ٹیکنالوجی کو امداد حاصل کرنے کی شرط بنانا اخلاقی زوال کی عکاسی ہے۔ایلڈر کا کہنا تھا کہ اس وقت غزہ میں صرف بم گرائے جا رہے ہیں جبکہ وہ تمام اشیاء جن سے ایک بچہ زندہ رہ سکتا ہے ان پر مکمل پابندی عائد ہے۔

انہوں نے اس صورتحال کو ”گہری اخلاقی گراوٹ” قرار دیا اور خبردار کیا کہ دنیا اس بے حسی کی بھاری قیمت ادا کرے گی۔انہوں نے کہا کہ اسرائیلی منصوبہ ان کمزور طبقات کو مکمل طور پر نظرانداز کرتا ہے جو فوجی علاقوں تک پہنچنے کی سکت نہیں رکھتے۔

یوں یہ منصوبہ لوگوں کو نقل مکانی اور موت کے درمیان ایک ناقابل قبول انتخاب کے دہانے پر لے آتا ہے۔ایلڈر کے مطابق اسرائیل کی اس منصوبہ بندی کے تحت یومیہ صرف 60 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی جا رہی ہے جو جنگ بندی کے دوران داخل ہونے والی امداد کا صرف 10 فیصد ہے۔

یہ مقدار دو ملین سے زائد کی آبادی، جن میں نصف سے زیادہ بچے ہیں کے لیے بالکل ناکافی ہے۔انہوں نے چہرے کی شناخت جیسی ٹیکنالوجی کے استعمال پر شدید تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد سیکورٹی نہیں بلکہ جاسوسی اور عسکری اہداف حاصل کرنا ہے جو کہ انسانی اصولوں سے صریح انحراف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بجائے سب سے مؤثر اور عملی حل یہ ہے کہ محاصرہ ختم کیا جائے، امداد کی راہ میں رکاوٹیں دور کی جائیں اور جانیں بچائی جائیں۔اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی ”انروا” کی میڈیا ڈائریکٹر جولیٹ توما نے کہا کہ غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں، جہاں فلسطینی باشندے جا سکیں۔

انہوں نے موجودہ حالات کو ”انسانیت سے محرومی کا منظم عمل” قرار دیا اور کہا کہ دنیا کے سامنے کھلی آنکھوں سے نشر ہونے والے ان جرائم کو دانستہ نظرانداز کیا جا رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ غزہ میں خوراک ختم ہو چکی ہے اور راشن کے لیے قطاریں اب ناپید ہو چکی ہیں خود اقوام متحدہ کے عملے کے افراد بھی وزن کم کر رہے ہیں کیونکہ وہ بھی فاقہ کشی کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔

توما نے واضح کیا کہ انروا کو غزہ میں کسی بھی دوسرے ادارے سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ادارہ 10,000 سے زائد مقامی اہلکاروں پر مشتمل ہے جو خطرات کے باوجود بچی کھچی امداد کی ترسیل اور پناہ گاہوں کے انتظام میں مصروف ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اونروا کے پاس 3ہزار سے زائد امدادی ٹرک غزہ کے باہر موجود ہیں جن کی بروقت ترسیل نہ ہونے کی صورت میں یہ قیمتی امداد ضائع ہو سکتی ہے۔ انہوں نے گزرگاہیں کھولنے اور محاصرہ فوری ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ترجمان ڈاکٹر مارگریٹ ہیرس نے اس تاثر کی نفی کی کہ غزہ میں داخل ہونے والی امداد کو کہیں اور منتقل کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امداد کو داخل ہی نہیں ہونے دیا جا رہا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ طبی سامان تیزی سے ختم ہو رہا ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق غزہ میں 10,500 مریض ایسے ہیں جنہیں فوری طور پر ہسپتالوں سے باہر منتقل کرنا ضروری ہے جن میں 4,000 بچے بھی شامل ہیں مگر 18 مارچ سے اب تک صرف 122 مریضوں کو ہی نکالا جا سکا ہے۔

دوسری جانب اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے مغربی کنارے میں قابض اسرائیل کی جانب سے فلسطینی مزاحمت کاروں کے قتل اور فلسطینی عوام کو مسلسل نشانہ بنانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تمام اقدامات ایک ناکام کوشش ہے جن کا مقصد مغربی کنارے میں بڑھتی ہوئی مزاحمتی لہر کو دبانا ہے۔

تحریک نے جنین اور نابلس کے دو مزاحمت کار شہداء نور عبد الکریم البیطاوی اور حکمت غیث عبد النبی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی قربانیوں کو فلسطینی تحریک آزادی کے لیے ایک مہمیز قرار دیا۔ یہ دونوں نوجوان مشرقی نابلس کے علاقے میں ایک گھر پر صہیونی فوج کے محاصرے کے دوران بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔

حماس نے واضح کیا کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے مغربی کنارے میں مزاحمتی نوجوانوں کا قتل ان کے حوصلے پست کرنے کے بجائے ان میں آزادی اور جدوجہد کی آگ کو مزید بھڑکائے گا۔ فلسطینی نوجوان پہلے سے زیادہ عزم اور جذبے کے ساتھ قابض اسرائیل کے خلاف میدان میں آئیں گے۔

بیان میں حماس نے مغربی کنارے کے باشندوں سے اپیل کی کہ وہ مزاحمت کاروں کا بھرپور ساتھ دیں اور ان کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کریں۔ حماس نے نوجوانوں کو پیغام دیا کہ وہ قابض اسرائیل اور اس کے غاصب آبادکاروں کے خلاف اپنی کارروائیوں میں مزید شدت لائیں تاکہ فاشسٹ نیتن یاہو کی حکومت کو اس کے جرائم کی بھاری قیمت چکانا پڑے، خاص طور پر غزہ میں جاری قتل عام کے پس منظر میں۔

ادھرجامعہ کولمبیا نے فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے والے 65 طلبہ کی تعلیمی سرگرمیاں معطل کر دی ہیں۔ یہ فیصلہ جامعہ کی مرکزی لائبریری میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں شرکت کرنے والے طلبہ کے خلاف کیا گیا جو غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔

امریکی اخبار ”وال اسٹریٹ جرنل” نے جامعہ کے ایک عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ معطل کیے گئے طلبہ اب نہ تو تعلیمی سال کے اختتامی امتحانات دے سکیں گے اور نہ ہی جامعہ کی حدود میں داخل ہو سکیں گے۔

البتہ انہیں ہاسٹل تک رسائی کی اجازت ہوگی سالِ آخر کے طلبہ کو بھی گریجویشن کی تقریب میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔جامعہ کولمبیا نے مزید 33 افراد کو جامعہ میں داخلے سے روک دیا ہے جن میں دیگر جامعات کے طلبہ اور ماضی میں کولمبیا سے فارغ التحصیل افراد شامل ہیں جو احتجاج میں شریک ہوئے تھے۔

اخبار کے مطابق یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب جامعہ کولمبیا اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے درمیان وفاقی فنڈنگ اور جامعہ کی خودمختاری سے متعلق مذاکرات جاری تھے۔