غزہ/نیویارک/دی ہیگ/تل ابیب/دوحا/قاہرہ/واشنگٹن/صنعائ:غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ جار ی ہے گزشتہ 24 گھنٹوں میں مزید 50 فلسطینی شہید جبکہ 113 زخمی ہوگئے۔عرب میڈیا کے مطابق غزہ میں صبح سے جاری حملوں میں50 فلسطینی شہید ہوگئے، اسرائیلی ڈرون حملے کے نتیجے میں بھی 5 بچوں کو شہید کردیا گیا۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023ء سے جاری اسرائیلی بربریت میں شہدا کی تعداد 52 ہزار 365 ہوگئی جبکہ 1 لاکھ 17 ہزار 905 افراد زخمی بھی ہوچکے ہیں۔ادھر سربراہ حزب اللہ نعیم قاسم نے بھی لبنانی حکومت سے امریکا کے ذریعے اسرائیل کو لگام دلوانے کا مطالبہ کیا ہے۔علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے یمن میں امریکی حملوں میں شہریوں کی اموات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
دوسری جانب اشتعال انگیز بیانات دینے والے انتہا پسند اسرائیلی وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کے غزہ سے نکلنے کے بعد ہی اسرائیل جنگ بند کرے گا۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل جنگ صرف اس وقت روکے گا جب ملک شام کو ”منتشر” کر دیا جائے گا، حزب اللہ کو ”بدترین شکست” دی جائے گی۔
ایران سے اس کا جوہری پروگرام چھین لیا جائے گا اور غزہ کے لاکھوں فلسطینی پٹی سے نکل جائیں گے اور اسرائیلی قیدیوں کو واپس کر دیا جائے گا۔ٹائمز آف اسرائیل نے اسموٹریچ کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ پالیسی منصوبوں کے بارے میں ہم آپس میں بحث کرتے رہیں گے۔
بھرتی کے مسائل کے بارے میں شناخت کے مسائل کے بارے میں اور اقتصادی مسائل کے بارے میں اور دشمن کی تباہی کے بارے میںاس پر کوئی تنازعہ نہیں ہو سکتا۔انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو کے پاس اس موقع پر کھلنے والی کھڑکی سے محروم ہونے کا اختیار نہیں ہے ۔
اسرائیل کے وزیر اعظم کی اہلیہ سارہ نیتن یاہو کی جانب سے کیے گئے ایک تبصرے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ غزہ میں اب بھی 24 سے کم اسیران زندہ ہیں۔ اس بیان سے اسرائیل میں کشیدگی بڑھ گئی ہے اور اسیران کے خاندانوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر کی طرف سے شائع ہونے والی ایک ویڈیو میں سارہ نیتن یاہو کو اپنے شوہر سے ”کم” سرگوشی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جب انہوں نے کہا کہ 24 قیدی ہی زندہ ہیں۔
وزیر اعظم کے دفتر کی طرف سے شائع کردہ ایک ویڈیو میں وزیر اعظم کی اہلیہ سارہ نیتن یاہو کو سرگوشی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ غزہ میں 24 سے کم یرغمالی زندہ ہیں۔ایسی معلومات جو عوامی طور پر معلوم نہیں ہیں۔
یہ تبصرہ پیر کو وزیر اعظم بنجمن نیتن کی ایک ملاقات میں کیا گیا۔ نیتن یاہو نے ویڈیو میں غزہ میں باقی 59 یرغمالیوں کی واپسی کی کوششوں کا ذکر کیا۔سارہ ان کے پاس بیٹھی تھیں جنہوں نے سرگوشی کی کہ ”کم ،نیتن یاہو نے ایک مختصر توقف کے بعد کہا کہ اور باقی لوگ بدقسمتی سے زندہ نہیں ہیں اور ہم انہیں واپس کردیں گے۔
دریں اثناء انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کو براہ راست نشر کر رہا ہے جبکہ فلسطینیوں کا صفایا کرنے کے مخصوص ارادے کے ساتھ غیر قانونی اقدامات کر رہا ہے۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا کہ غزہ میں اسرائیلی فورسز نے اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کی، بین الاقوامی برادری اور بین الاقوامی عدالت انصاف کی وارننگ کے باوجود اسرائیل نے غزہ تک انسانی امداد کی رسائی کو روکا اور جنوبی شہر رفح پر حملہ کیا۔
انسانی حقوق کی تنظیم نے کہا کہ اسرائیلی فضائی حملوں میں عام شہریوں کو بھی نشانہ بنایا گیا جو انخلا کے احکامات پر عمل کر رہے تھے، اسرائیلی فورسز نے فلسطینیوں کو زبردستی حراست میں لینا اور ان کو غائب کرنے کا عمل جاری رکھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکریٹری جنرل اگنیس کالمارڈ نے رپورٹ میں کہا کہ 7 اکتوبر 2023ء کو فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے حملے کے بعد سے اسرائیل نے دنیا کو غزہ میں براہ راست نشر ہونے والی نسل کشی کا سامع بنایا ہے۔
اسرائیل نے ہزاروں فلسطینیوں کو مار ڈالا، کئی خاندانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا، گھروں، اسپتالوں اور اسکولوں کو تباہ کر دیا۔ ایسے میں دیگر ممالک کمزور دکھائی دیتے ہیں۔اگنیس کالمارڈ نے کہا کہ اسرائیل اور اس کے طاقتور اتحادیوں بشمول امریکا نے ایسا ظاہر کیا جیسے ان پر بین الاقوامی قانون کا نفاذ نہیں ہوتا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت دیگر قوتوں کے بارے میں بھی خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے کہا کہ یہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کیلئے خطرہ ہیں۔
علاوہ ازیںاسرائیل کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ 15 جون کو اپنے عہدے سے استعفا دے دیں گے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ‘شِن بیٹ’ کے سربراہ رونن بار نے کہا کہ وہ 15 جون 2025ء کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گے۔
رپورٹ کے مطابق یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے چھ ہفتے قبل انہیں برطرف کرنے کی کوشش کی تھی۔سیکورٹی سروس کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں رونن بار نے کہا کہ ادارے کیلئے 35 سالہ خدمات کی ادائیگی کے بعد ایک منظم اور پیشہ ورانہ طریقے سے 15 جون کو عہدے سے سبکدوش ہوجاؤں گا۔
قبل ازیںفلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) نے ایک بار پھر غزہ میں صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جنگ زدہ علاقے میں فوری امداد اور خوراک کی فراہمی پرزور دیا ہے۔
انروا کی طرف سے جاری ایک پریس بیان میں کہا گیا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں داخلے کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی سامان کو تباہ کیا جا رہا ہے جب کہ کراسنگ کی مسلسل بندش کی وجہ سے آبادی میں بھوک بڑھ رہی ہے۔
غزہ کے اندر لوگ بھوک سے جانے دے رہے ہیں اور ان کے لیے دنیا بھر سے لائی گئی خوراک اور امداد غزہ کی گزرگاہوں پر پڑی خراب ہو رہی ہے۔انروانے مزید کہا کہ اب ضروری سامان سے لدے تقریباً 3,000 ٹرک غزہ کی پٹی میں داخل ہونے کی اجازت کے منتظر ہیں۔
ایجنسی نے متنبہ کیا کہ یہ سپلائز ضرورت مندوں کے لیے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ خراب ہو سکتی ہیں۔انروا نے اسرائیلی ناکہ بندی کو فوری طور پر ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے زور دیا کہ جاری جارحیت، خوراک اور پانی کی کمی کی وجہ سے غزہ میں انسانی مصائب روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔
غزہ کی پٹی کو 18 ماہ سے زائد عرصے میں بدترین انسانی بحران کا سامنا ہے۔ قابض اسرائیل کی جانب سے جاری تباہ کن جنگ اور سخت ناکہ بندی کے نتیجے میں عام شہریوں اور بالخصوص خواتین اور بچوں کی صحت اور زندگی کی حالت ابتر ہو گئی ہے۔
غذائی قلت، اسقاط حمل اور انکیوبیٹرز کی ضرورت کے معاملات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ادھراسرائیل نے جنوبی لبنان کے قصبے عیترون پر ایک ڈرون حملہ کیاہے۔ اس دوران اسرائیلی طیارے البقاع میں ہرمل کی فضائی حدود میں پرواز کرتے رہے۔
یہ بات لبنانی میڈیا نے ذرائع کے حوالے سے بتائی۔ایسے میں جب کہ اسرائیل کی جانب سے لبنانی فضائی حدود کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، لبنانی صدر جوزف عون نے اعلان کیا ہے کہ ہتھیاروں کو صرف ریاست کے ہاتھ میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
انھوں نے زور دیا کہ جنگ کی زبان کی طرف واپسی کی اجازت نہیں دی جائے گی جبکہ قطری وزیراعظم نے کہا ہے کہ خوراک اور ادویات ہتھیار بن چکے ہیں۔دوحا میں گلوبل سیکورٹی فورم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم الثانی نے کہاکہ غزہ کی صورتحال ”پوری دنیا کے ضمیر پر داغ” ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھوک اور سردی سے بچوں کی موت کو تنگ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، پوری آبادی کا محاصرہ کیا گیا ہے اور بغیر کسی جوابدہی کے امداد حاصل کرنے کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قطر مصر، امریکا اور دیگر علاقائی شراکت داروں کے ساتھ مل کر غزہ میں جنگ بندی اور فلسطینیوں تک انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش جاری رکھے گا۔ادھرمصر نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں ایک زبانی دلیل جمع کرائی ہے جس میں فلسطینی علاقوں میں قابض طاقت کے طور پر اسرائیل کی ذمہ داریوں کے بارے میں بات کی گئی ہے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق اپنی استدعا کے دوران مصری وفد نے عدالت کے لیے اس بات پر زور دیا کہ وہ یہ اعلان کرے کہ فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت میں یہ حق بھی شامل ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر اپنی معاشی، سماجی اور ثقافتی ترقی کو آگے بڑھا سکیں۔
اسی طرح فلسطینی عوام کو جلد بحالی اور تعمیر نو کے لیے ترقیاتی امداد حاصل کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔ اسی طرح ان کا یہ حق بھی ہے کہ انہیں بے گھر یا بے دخل نہ کیا جائے۔مصری وفد نے کہا کہ مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی انسانی قانون اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی سنگین خلاف ورزیاں ایک وسیع، منظم اور جامع پالیسی کا حصہ ہیں اس پالیسی کا مقصد فلسطینی سرزمین کے حقیقی الحاق کو حاصل کرنا ہے۔
اسرائیلی کنیسٹ قانون سازی کرکے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کے کردار کو کمزور کر رہی ہے۔مصری وفد نے مزید کہا کہ اسرائیلی خلاف ورزیوں کا مقصد فلسطینی عوام کی واپسی کے حق کو روکنا ہے۔
واپسی کا حق بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت ضمانت یافتہ ان کے حق خودارادیت کا بنیادی ستون ہے۔ اسرائیل کی جانب سے جبری بے دخلی اور بار بار نقل مکانی کرائی جارہی ہے۔ فلسطینیوں کو ان علاقوں میں بھیجا جارہا ہے جہاں زندگی کی بنیادی ضروریات میسر نہیں ہیں۔
مصری وفد نے انکشاف کیا کہ اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ ایسے حالات پیدا کرنے کی ایک منظم پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد غزہ کو ناقابل رہائش بنانا ہے۔اپنی استدعا کے دوران مصری وفد نے نشاندہی کی کہ اکتوبر 2023 ء سے اسرائیل بھوک سے موت اور غزہ کی مکمل ناکہ بندی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے وہ جان بوجھ کر اور من مانے طریقے سے غزہ کے تمام راستوں کو بند کر کے غزہ کو بنیادی ضروریات سے محروم رکھ رہا ہے۔
مصری وفد نے کہا کہ سات اکتوبر 2023 ء سے اب تک غزہ کی پٹی میں 52000 فلسطینیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ ان مرنے والوں میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ مصری درخواست میں ان قانونی دلائل کا جائزہ لینے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اقوام متحدہ کے ایک رکن ریاست کے طور پر اسرائیل پر عائد ذمہ داریوں کو پورا کرنے کویقینی بنائیں۔
مصری وفد نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل نے بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ ایسا عام شہریوں اور امدادی تنظیموں کے نمائندوں کو نشانہ بنانے کی اپنی منظم پالیسی کے ذریعے یا انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے والی قانونی اور انتظامی رکاوٹوں کو مسلط کرنے کے ذریعے کیا گیا۔
اسی طرح سرحد پار سے براہ راست حملوں کی ہدایت کر کے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر قائم مراکز پر بمباری کرکے بھی ایسا کیا گیا۔ مصری وفد نے اپنی استدعا میں کہا کہ عدالت اپنی مشاورتی رائے میں یہ اعلان کرے کہ فلسطینی علاقوں پر طویل اسرائیلی قبضہ بین الاقوامی قوانین کی مسلسل خلاف ورزی ہے۔
امریکا نے یمن میں حوثیوں پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں کیونکہ واشنگٹن بحیرہ احمر میں ایوی ایشن پر حملوں پر ایران سے منسلک گروپ پر دبائو ڈال رہا ہے۔ پابندیوں کا اعلان امریکی محکمہ خزانہ کی ویب سائٹ پر کیا گیا۔
میڈیارپورٹس کے مطابق امریکی ٹریژری کے دفتر برائے غیر ملکی اثاثہ جات کنٹرول نے یمن میں حوثیوں کے زیر کنٹرول بندرگاہوں تک ریفائنڈ پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی کے لیے تین بحری جہازوں اور ان کی مالک کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی ہیں۔
اس سے حوثی عسکری سرگرمیوں میں مالی مدد کی گئی تھی،ان بحری جہازوں کی مالک کمپنیوںکو بھی حوثیوں کی مالی مدد کے الزام میں نامزد کردیا گیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے حوثیوں کو ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد کر رکھا ہے۔
پابندیوں میں ان اداروں اور بحری جہازوں کے تمام امریکی متعلقہ اثاثوں کو منجمد کرنا اور ان کے ساتھ لین دین کرنے والوں کو سخت پابندیوں یا ثانوی پابندیوں سے دوچار کرنا شامل ہے۔بحری جہاز وں ٹیولپ بی زیڈ پر سان مرینو پرچم تھا۔ میسان پر پاناما کا جھنڈا تھا اور وائٹ وہیل پر پاناما کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔
کمپنیوں میں زاس شپنگ کمپنی مارشل جزائر میں رجسٹرڈ ہے۔ باگ سیف شپنگ انک ماریشش میں رجسٹرڈ ہے اور گریٹ سکسس شپنگ کمپنی مارشل جزائر میں رجسٹرڈ ہے۔امریکا یمن کے حوثیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں ہتھیاروں کی سمگلنگ اور اسلحے کی سپلائی کے سودوں پر بات چیت کے لیے 7 سینئر حوثی شخصیات پر پابندیاں عائد کر رہا ہے۔
امریکا نے ایک حوثی کارکن اور اس کی کمپنی پر بھی پابندی عائد کی ہے۔ اس کارکن نے یمنی شہریوں کو یوکرین میں روس کے لیے لڑنے کے لیے بھرتی کیا تھا۔حوثی میڈیا نے کو بتایا ہے کہ شمالی یمن میں باغیوں کے گڑھ صعدہ میں افریقی پناہ گزینوں کی پناہ گاہ پر امریکا سے منسوب فضائی حملے میں کم از کم 68 افراد جاں بحق ہوگئے ۔
اس سے قبل اموات کی تعداد 35 بتائی گئی تھی۔ واشنگٹن ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کو نشانہ بنانے کے لیے تقریباً روزانہ بمباری کی مہم چلا رہا ہے۔دوسری جانب اسرائیلی فوج نے رفح کے جنوبی غزہ سے جڑے ہوئے اس حصے کو ایک بار پھر بمباری سے تباہ کر کے ہموار میدان میں بدلنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔
میڈیارپورٹس کے مطابق مقامی لوگوں کا اس شدید بمباری پر کہنا تھا کہ یہ اسرائیل کے اسی منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت وہ غزہ کے رہنے والوں کو بمباری سے خوفزدہ کر کے بعض علاقوں تک محدود کر دینا چاہتا ہے تاکہ تباہ حال شہر کے ملبے کے اس ڈھیر پر ایک بڑا پناہ گزینوں کا کیمپ بن سکے۔
ایک اعلی فلسطینی عہدیدار نے بین الاقوامی عدالت انصاف کے سامنے یہ موقف رکھا ہے کہ اسرائیل کا غزہ کو زیر محاصرہ رکھنا اور مسلسل ناکہ بندی کیے رکھنا نہ صرف غیر انسانی ہے بلکہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف جنگی ہتھیار کے طور پر ناکہ بندی کو استعمال کر رہا ہے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق فلسطینی عہدیدار نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں یہ بیان ایک ہفتے کے لیے شروع ہونے والی عدالتی سماعت کے دوران دیا ۔شروع ہونے والی اس سماعت کے دوران اسرائیل نے کارروائی میں ایک فریق کے طور پر حصہ نہیں لیا۔
تاہم فلسطینی عہدیدار کے اس موقف پر فوری طور پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اس عدالتی کارروائی کو اپنے خلاف ایک منظم ناانصافی، ظلم اور غیرقانونی اقدام سمجھتا ہے۔عدالتی سماعت کا آغاز ہونے پر فلسطین کے اعلی عہدیدار عمار حجازی نے کہا غزہ میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام کام کرنے والی تمام بیکریوں کو بھی اسرائیلی فوج نے طاقت سے روک دیا ہے کہ وہ اپنے کام کو بند کریں تاکہ اہل غزہ کو بیکریوں کے ذریعے سے بھی خوراک فراہمی کا سلسلہ روکا جا سکے۔
فلسطینی نمائندے کا عدالت انصاف کے سامنے کہنا تھا کہ صاف پانی کی فراہمی کا غزہ میں یہ حال ہے کہ ہر 10 فلسطینیوں میں سے نو کی صاف پانی تک رسائی کی کوئی صورت نہیں ہے۔فلسطینی نمائندے نے اس تناظر میں کہا غزہ میں کام کرنے والی امدادی تنظیموں کے اپنے ذخیرے بھی ختم ہو چکے ہیں جیسا کہ ورلڈ پروگرام برائے خوراک نے پچھلے دنوں اعلان کیا ہے۔
نمائندے کے مطابق بھوک سر پر ہے لیکن اسرائیل دوسرے ملکوں اور بین الاقوامی برادری سے آنے والی امداد و خوراک کو فلسطینیوں تک پہنچنے میں رکاوٹ بنے کھڑا ہے نہ صرف یہ بلکہ وہ اسے ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
ادھر بیت المقدس میں اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے کہا بین الاقوامی عدالت انصاف میں اس کیس کا زیر سماعت آنا اسرائیل کے خلاف ایک منظم ناانصافی ، ظلم اور غیرقانونی اقدام ہے۔اسرائیلی وزیر خارجہ نے کہاعدالتی کٹہرے میں اسرائیل کو نہیں لانا چاہیے بلکہ اقوام متحدہ اور اس کے ادارے ‘انروا’ کو عدالتی کٹہرے میں لانا چاہیے۔