ٹیکساس میں غیر ملکی طلبہ کی ویزا منسوخی کی لہر تیز، 122طلبہ متاثر

ٹیکساس: امریکا میں تعلیمی ویزا رکھنے والے بین الاقوامی طلبہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے، اور اس ضمن میں سب سے زیادہ متاثرہ ریاست ٹیکساس ہے، جہاں پر 122 سے زائد غیر ملکی طلبہ کے ویزے منسوخ یا ان کی امیگریشن حیثیت ختم کر دی گئی ہے۔

یہ تبدیلیاں ”اسٹوڈنٹ اینڈ ایکسچینج وزیٹر انفارمیشن سسٹم” (SEVIS) میں کی گئی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ان طلبہ کی قانونی حیثیت شدید خطرے میں ہے۔حکام کی طرف سے اب تک اس اچانک تبدیلی کی کوئی باضابطہ وضاحت سامنے نہیں آئی، تاہم امیگریشن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ممکنہ طور پر امیگریشن پالیسیوں میں سختی، سوشل میڈیا کی نگرانی، اور بعض سیاسی عوامل کے تحت کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب یونیورسٹی آف ٹیکساس، آسٹن اور یونیورسٹی آف ہیوسٹن نے بھی کچھ طلبہ کی امیگریشن حیثیت میں تبدیلی کی تصدیق کی ہے، تاہم تعداد نہیں بتائی گئی۔ یونیورسٹی آف نارتھ ٹیکساس کے فیکلٹی سینٹ کے ایک نائب چیئرمین نے امریکی میڈیا کو بتایا کہ ابتدائی طور پر 16 طلبہ کی SEVIS حیثیت ختم کی گئی تھی، جو بعد میں بڑھ کر 27 تک جا پہنچی۔ متاثرہ طلبہ کی اکثریت گریجویٹ لیول کی ہے، یونیورسٹی کے مطابق وہ اس معاملے پر متاثرہ طلبہ سے رابطے میں ہیں۔

ڈیلس میں امیگریشن امور کے ماہر اٹارنی نعیم سکھیا کا کہنا ہے کہ ”SEVIS سے ہٹانا اس طالب علم کے قانونی دفاع کے حق کو متاثر کرتا ہے، یہ عمل بغیر کسی وضاحت کے طالب علم کو امیگریشن نظام سے باہر نکال دیتا ہے۔

یہی رجحان رہا تو امریکا میں طلبہ کیلئے دروازے بند ہوجائیں گے،نعیم سکھیا کے مطابق SEVIS سے اخراج کا مطلب ہے کہ متاثرہ طالب علم نہ صرف تعلیم جاری نہیں رکھ سکتا بلکہ اس کے ساتھ موجود شریک حیات یا بچوں کی قانونی حیثیت بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔