اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلانِ نبوت اور جناب علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا اعلانِ ایمان ہم عمر ہیں۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی سیرت مبارکہ کو افراط و تفریط کے ترازو میں بانٹنے کی بجائے اگر اعتدال سے لکھا اور بیان کیا جائے تودور حاضر میں پروان چڑھتی فرقہ واریت اور تشدد کافی حد تک کنٹرول ہو سکتا ہے۔
ولادت
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ’الاصابہ فی تمییز الصحابہ‘ میں لکھا ہے کہ آپ کی ولادت مکة المکرمہ کی مشہور وادی شعب بنی ہاشم میں ہوئی۔ آپ کے والد گرامی جناب ابو طالب گھر میں موجود نہیں تھے بلکہ کسی سفر پر تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ فاطمہ بنت اسد نے آپ کا نام اپنے والد کے نام پر اسد رکھا۔ جب خواجہ ابو طالب واپس تشریف لائے تو انہوں نے آپ کا نام ”علی“ رکھا۔
نام و نسب اور القاب
نام :علی بن ابی طالب، کنیت:ابو الحسن ، ابو تراب۔ القاب : اسد اللہ ، حیدر اور المرتضیٰ۔
خاندانی تعارف
والد: عبدمناف کنیت ابو طالب۔ والدہ:فاطمہ بنت اسد برادران : طالب، عقیل اور جعفر طیار۔ ہمشیرگان: اُم ہانی ، جمانہ۔
ازدواجی زندگی
1:حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ان سے حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت زینب الکبریٰ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہم پیدا ہوئیں۔ بعض روایات میں تیسرے صاحبزادے حضرت محسن رضی اللہ عنہ کا نام بھی ملتا ہے۔
دیگر ازواج اور اولاد
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے حضرت فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے علاوہ مختلف اوقات میں کئی نکاح فرمائے اور ان سے کئی اولادیں بھی ہوئیں۔
قبولِ اسلام
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ و النہایہ میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے :آزاد مردوں میں سیدنا ابو بکر صدیق ، خواتین میں اُم المومنین زوجہ رسول سیدہ خدیجہ الکبریٰ ، غلاموں میں زید بن حارثہ اور نوجوانوں میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم سب سے پہلے ایمان لائے۔
مکی زندگی
اس دور میں اہلِ اسلام کے حالات سخت ناموافق تھے۔مشرکین مکہ دعوت اسلام کے پھیلاو¿ سے بری طرح خائف تھے۔ قریش اپنی مخالفانہ کوششوں کے سلسلے میں آپس میں مشورہ کر رہے تھے کہ آپ علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کو قید کر دیا جائے، یا دیس سے نکالا دیا جائے اور بعض کا مشورہ یہ بھی تھا کہ سارے قبائل مل کر یکبارگی حملہ کر کے آپ کو قتل کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سازشوں کی اطلاع فرما دی اورآپ علیہ السلام نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سفر کے انتظامات کرنے کاحکم دیا اور جناب علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا: آپ میرے بستر پر لیٹ جانا اور کچھ وقت کے لیے مکہ میں ہی ٹھہرنا اور لوگوں کی امانتیں ان تک پہنچا دینا، اس کے بعد مدینہ طیبہ پہنچ جانا۔ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق لوگوں کی امانتیں حوالے کرکے 13 بعثت نبوی ربیع الاول کے وسط میں مدینہ طیبہ تشریف لے گئے اور مقام قباءپر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
مدینہ طیبہ میں
مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہاں ہر لمحہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے۔
غزوہ بدر میں
2 ہجری 17 رمضان المبارک کو بدر کے مقام پر کفر و اسلام کا پہلا معرکہ لڑا گیا، جس میںآپ بھر پور طریقے سے شامل حال رہے۔2 ہجری غزوہ بدر کے بعد ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا تھا۔
غزوہ احزاب میں
5 ہجری شوال میں غزوہ احزاب جسے غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے، پیش آیا۔ دشمن کی فوج میں عمرو بن عبدود نامی ایک بہادر سپاہی بھی تھا،جس کے بارے مشہور تھا کہ وہ تنہا ایک ہزار شہسواروں سے لڑ سکتا ہے ۔ اس نے اہل اسلام کو لڑنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا: کوئی ہے تم میں جو مجھ سے لڑنے کی ہمت رکھتا ہو؟ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: پھر میں تمہیں مقابلہ آرائی کی دعوت دیتا ہوں۔کچھ ہی لمحوں میں حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے عمرو جیسے دیوہیکل انسان کو خاک و خون میں ڈھیر کر دیا۔
صلح حدیبیہ میں
6 ہجری ذوالقعدہ میں صلح حدیبیہ کا اہم واقعہ پیش آیا۔کفار کا معاندانہ رویہ اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا ، مسلمانوں کا حرم کی حدود میں داخلہ بند کر دیا گیا ، قریش نے سہیل بن عمرو کو بھیجا۔ سہیل نے کہا کہ ہمارے درمیان معاہدہ تحریری طور پر آجائے تو اچھا ہے۔ اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کو بلایا اور فرمایا کہ لکھو: بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ سہیل نے کہا کہ رحمن کیا ہے؟ میں نہیں جانتا۔ اس نے کہا کہ عربوں کے دستور کے مطابق باسمک اللھم لکھا جائے۔ آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔ علی!یہی لکھ دو۔پھر آپ علیہ السلام نے لکھوایا: یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول اللہ کی طرف سے ہے۔ اس پر سہیل نے کہا یہی تو جھگڑا ہے۔ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے تو بیت اللہ آنے سے کیوں روکتے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: اگرچہ تم جھٹلاتے رہو، لیکن صحیح بات یہی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ سہیل نے کہا کہ محمد بن عبداللہ لکھا جائے۔ آپ نے فرمایا: علی! پہلا لکھا ہوا مٹا دو۔ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے نہایت مو¿دبانہ لہجے میں عرض کی: بھلا میں کیسے مٹاسکتا ہوں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے وہ جگہ بتاو جہاں رسول اللہ لکھا ہے میں خود مٹا دیتا ہوں۔
خلفاء ثلاثہ سے محبت و معاونت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اور بالخصوص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے اپنے سے پیشرو خلفاءثلاثہ کے ساتھ برادرانہ برتاو اور مذہبی و سیاسی اُمور میں محبت و معاونت کے ایسے نقوش چھوڑے ہیں جو اہلِ اسلام کے لیے مشعل راہ ہیں۔
بطور خلیفہ پہلا خطبہ
35 ہجری 24 ذوالحجہ جمعہ کے دن حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ بطور خلیفہ جو سب سے پہلا خطبہ دیا، وہ یہ تھا: بعد حمد و صلوٰة، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو ہدایت دینے والی بنا کر بھیجا ہے، جو خیر اور شر کو وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ اس لیے خیر کو لے لیجیے اور شر کو چھوڑ دیجیے ۔ اللہ تعالیٰ نے بہت ساری چیزوں کو حرمت کا درجہ دیا ہے۔ ان میں سے سب سے زیادہ حرمت مسلمان کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے توحید و اخلاص کے ذریعہ مسلمانوں کے حقوق کو مضبوطی سے باہمی ربط دیا ہے ، مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے تمام مسلمان محفوظ رہیں۔
مرکز خلافت کی کوفہ منتقلی
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ حکمت و تدبر اور شجاعت و عزیمت کے حسین امتزاج کے ساتھ چلاتے رہے۔جب مدینہ طیبہ میں سیاسی و عسکری ، انتظامی و تربیتی نظام کا چلانا بہت مشکل ہو گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے مرکز خلافت کوفہ منتقل کر دیا، تاکہ مدینہ طیبہ کی حرمت اور تقدس کو پامال کرنے والوں کو اس کا موقع ہی نہ ملے۔ مزید یہ کہ جغرافیائی طور پر انتظامی و ثقافتی مصلحت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ مرکز خلافت کوفہ کو بنایا جائے کیونکہ کوفہ ایسی جگہ پر تھا جو عرب، فارس، یمن، ہند، عراق اور شام کے لوگوں کی باہمی تجارتی گزرگاہ تھی۔ مزید یہ جگہ علم و ادب، زبان وبیان، داستان و تاریخ نویسی، شعر و سخن اور علم انساب کے حوالے سے بھی مرکزیت رکھتی تھی۔
اُسوہ مرتضوی
دشمنِ اسلام خواہ کسی بھی روپ میں ہو،حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے ان کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ آپ کرم اللہ وجہہ اپنی حکمت و بصیرت اور معاملہ فہمی اور دانائی کی ایسی مثالیں چھوڑ گئے کہ اگر اُمت مرحومہ کو کبھی باہمی انتشار کا سامنا کرنا پڑجائے تو وہ کیا کرے؟ جنگ جمل و صفین کے حالات میں آپ کرم اللہ وجہہ کے بصیرت افروز فیصلے، اہل اسلام کے آپسی معاملات کے حل اور باہمی اعزاز و تکریم میں اُمت کی رہنمائی کے لیے کافی و افی ہیں۔
فضائل و مناقب
1: حضرت حبہ عرنی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی‘۔ 2: امام طبرانی نے معجم کبیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیاہے کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کروں۔ 3: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ ”آپ فرما دیں آو ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاو¿“ نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا۔ پھر فرمایا : یا اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔
شہادت باسعادت
امام ابن کثیرؒ نے البدایہ میں لکھا ہے کہ تین خارجی عبدالرحمن ابن ملجم الکندی ، برک بن عبداللہ تمیمی اور عمرو بن بکر تمیمی نے حرم کعبہ میں بالترتیب حضرت علی ؓ، امیر معاویہ ؓاور عمرو بن عاص ؓکے قتل کا منصوبہ بنایا اور 17 رمضان 40 ہجری کی تاریخ متعین کی۔ مقرر کردہ تاریخ کے مطابق ابن ملجم کوفہ آیا اور حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے راستے پر بیٹھ گیا۔ آپ صبح کی نماز کے لیے گھر سے نکلے اور لوگ بھی نماز کے لیے نکل کر آ رہے تھے۔ اسی دوران اس بدبخت نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سر مبارک کے اگلے حصے پر وار کیا، خون کی ایک دھار داڑھی مبارک تک آ پہنچی۔ اس بدبخت انسان نے وار کرتے وقت یہ نعرہ بھی لگایا: اے علی!حکومت صرف اللہ کی ہے، تمہاری یا تمہارے ساتھیوں کی نہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آواز دی کہ اس کو پکڑو ، ابن ملجم کو دھر لیا گیا۔ جعدہ بن ہبیرہ بن ابی وہب نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کو گھر لایا گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر میں اسی وار کی وجہ سے قتل ہو جاو¿ں تو بدلے میں اسے بھی قتل کر دینا اور اگر میں زندہ بچ گیا تو مجھے معلوم ہے کہ اس کے ساتھ کیا کرنا ہے اور اس کا مثلہ نہ کرنا۔ بالآخر حملے کے کاری وار سے آپ جاںبر نہ ہوسکے اور 21 رمضان کو شہادت کا جام نوش کر گئے۔
آپ رضی اللہ عنہ نے کل چار سال نو ماہ تک خلافت کے امور سرانجام دیے اور 21 رمضان المبارک کو جان جان آفریں کے سپرد کی۔ امام ابن کثیر ؒنے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے آخری وقت اپنے صاحبزادوں حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو خوف خدا اور حسن عمل کی وصیت کی۔ رضی اللہ عنہ!
