سولردرآمد میں ڈمی کمپنی ملوث ،رقم کی غیر قانونی منتقلی کا انکشاف

اسلام آباد:سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں سولر کی امپورٹ میں ایک ڈمی کمپنی کے ملوث ہونے اور رقم کی بیرون ملک غیر قانونی منتقلی کا انکشاف ہوا ہے۔ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنوینیر محسن عزیز کی زیر صدارت ہوا جس میں 700 ارب روپے کی تجارتی منی لانڈرنگ کے معاملے کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں سولر پینل سے متعلق مسائل کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ایف بی آر حکام نے بریفنگ دی کہ سولر کی امپورٹ میں ہم نے 80 مشکوک کمپنیوں کو شارٹ لسٹ کیا، 80 میں سے 63 کمپنیاں اوور انوائسنگ میں ملوث نکلیں اور 63 کمپنیوں کی سولر امپورٹ کے لیے 69 ارب کی ٹرانزیکشن مشکوک تھیں۔ اوور انوائسنگ کے خلاف ہم نے 13 ایف آئی آرز درج کرائی ہیں۔

ایف بی آر نے سولر کی امپورٹ میں ایک ڈمی کمپنی کے بھی ملوث ہونے کا انکشاف کیا۔حکام ایف بی آر نے بتایا کہ کمپنی نے مالک کے کاغذات میں خود کو تنخواہ دار ظاہر کیا تھا، تنخواہ دار نے 2 ارب 29 کروڑ روپے کی سولر کی امپورٹ کیں اور اس ڈمی کمپنی نے سولر کی 2 ارب 58 کروڑ سے زائد کی فروخت ظاہر کی، کمپنیوں نے سولر امپورٹ کیلئے 117 ارب روپے باہر بھیجے، سولر امپورٹ میں 54 ارب روپے کی اوور انوائسنگ پکڑی گئی ہے۔

ایف بی آر حکام نے بریفنگ میں بتایا کہ سولر چین سے امپورٹ ہوئے لیکن رقم دس دیگر ممالک میں بھیجی گئی، دیگر ممالک میں 18 ارب روپے سے زائد رقم بھیجی گئی تھی اور چین کے بجائے دیگر ممالک کو پیمنٹ بھیجنا غیر قانونی ہے۔سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ایک بار آئل امپورٹ کی ٹرانزیکشن ایران کے ذریعے کی گئی تھی، آئل امپورٹ پر تھرڈ کنٹری ٹرانزیکشن پکڑی گئی تھی، دو گھنٹوں میں بینک کے منیجر اور دیگر ملوث لوگ فارغ ہوگئے تھے۔

کنوینئر محسن عزیز نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے ابھی کمیٹی کو رپورٹ نہیں دی فی الحال ایف بی آر کی طرف سے رپورٹ آئی ہے، گزشتہ اجلاس میں بینکوں نے مکمل تفصیلات فراہم کی تھیں۔ ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک عنایت حسین نے کہا کہ بینکوں سے تفصیلات منگوائی ہیں جیسے ہی موصول ہوں گی کمیٹی کو پیش کریں گے۔بینک الفلاح کے صدر نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ برائٹ اسٹار کمپنی 2016ء میں پشاور سے ایس ای سی پی کے ساتھ رجسٹر ہوئی۔

کنوینئر محسن عزیز نے کہا کہ ہمارے پاس جو معلومات ہیں اس کے تحت انکا پیڈ اَپ کیپٹل 10 ہزار روپے ہے، آپ خیال رکھیں جو معلومات کمیٹی کو فراہم کریں وہ درست ہونی چاہیے ہیں۔بینک کے صدر نے بریفنگ میں بتایا کہ 2018ء میں اس کمپنی کا کیش فلو 4 کروڑ روپے تھا اور اس کمپنی نے ہمارے ساتھ کوئی سولر درآمدات نہیں کیں، مون لائٹ نے سولر درآمدات کیں۔

کمپنی نے پہلا اکائونٹ 2018ء میں بینک کے ساتھ کھولا اور اس سال 56 ملین ڈالر کی درآمدات کیں، مون لائٹ نے پانچ سال میں 46 کروڑ روپے کی نقد رقم جمع کروائی۔محسن عزیز نے سوال کیا کہ کیا یہ معلومات درست ہیں؟ جس پر ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک کے پاس ابھی مکمل معلومات نہیں آئیں۔

محسن عزیز نے کہا کہ اس سے تو ثابت ہوا ہے کہ بینک سولر درآمدات میں شامل نہیں ہے، ہمارے پاس جو رپورٹ ہے اس میں بینک کا نام لکھا ہوا تھا۔ایف بی آر حکام نے بتایا کہ ہمیں یہ معلومات بینکوں سے ہی آڈٹ کے دوران ملی ہیں، برائٹ اسٹار نے ساری ادائیگی ہی سولر پینلز کے لیے کی ہیں۔

ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ بینک کا موقف ہے کہ کمپنی کا اکائونٹ ان کے پاس تھا مگر اس نے بینک کے ذریعے سولر کی درآمد نہیں کیں۔محسن عزیز نے سوال کیا کہ بینک اکائونٹ میں 27 ارب روپے ہیں یہ کہاں سے آئے؟ بینک کے صدر نے بتایا کہ یہ رقم مختلف مقامی ذرائع سے آئی ہے، ہم نے 2019ء میں ان کی ایس ٹی آرز ایف ایم یو کو بھیجیں تھی۔ڈی جی ایف ایم یو نے بتایا کہ ہم نے یہ ایس ٹی آر ایف بی آر اور ایف آئی اے کو تحقیقات کے لیے بھیجیں۔