سپریم کورٹ میں6 مستقل ججزتعینات ،وکلاء کا احتجاج،پولیس سے جھڑپیں

اسلام آباد:جوڈیشل کمیشن نے سپریم کورٹ کیلئے 6 مستقل ججز کے ناموں کی منظوری دے دی۔چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہوا جس میں سپریم کورٹ میں 8 نئے ججوں کے تقرر پر غور کیا گیا۔

ذرائع نے بتایاکہ اجلاس میں 26 ویں آئینی ترمیم پر فیصلے تک اجلاس مؤخر کرنے کا مطالبہ کیا گیا تاہم اس اعتراض پر ووٹنگ ہوئی اور اکثریت سے فیصلہ ہوا کہ اجلاس جاری رکھا جائے گا۔جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے جوڈیشل کمیشن اجلاس کی کارروائی نہ روکنے پر اجلاس کابائیکاٹ کیا جبکہ بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر علی ظفر بھی اجلاس کا بائیکاٹ کرگئے۔

بعدازاں ذرائع کے مطابق جوڈیشل کمیشن نے بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ہاشم خان کاکڑ، چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اشتیاق ابراہیم، سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس شفیع صدیقی اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کے نام کی منظوری دی۔ذرائع نے بتایاکہ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس صلاح الدین پنہور اور پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس شکیل احمد کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کی بھی منظوری دی گئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو بطور ایکٹنگ جج سپریم کورٹ تعینات کرنے کی منظوری دی گئی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی بطورایکٹنگ جج سپریم کورٹ تقرری آرٹیکل181کے تحت کی گئی۔ ذرائع نے بتایاکہ لاہور ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ میں جج تعینات کرنے کا معاملہ مؤخر کردیا گیا۔بعدازاںسپریم کورٹ نے جوڈیشل کمیشن اجلاس کا اعلامیہ بھی جاری کر دیا۔

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین اور رکن جوڈیشل کمیشن بیرسٹر گوہر نے کہا کہ تحریک انصاف نے 26 ویں ترمیم کے خلاف درخواستیں دائر کی ہیں جو التواء میں ہیں، جب تک 26ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک جوڈیشل کمیشن اجلاس مؤخرہونا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ، منیب اختر نے خط میں کمیشن اجلاس مؤخر کرنے کاکہا جبکہ بیرسٹر علی ظفر نے بھی خط لکھ کر جس میں اجلاس مؤخر کرنے کی استدعا کی گئی، اجلاس مؤخر نہیں ہوا اور جاری ہے جس کے باعث ہم نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف مستقبل کا لائحہ عمل دے چکی ہے، وکلاء کے احتجاج کو سپورٹ کرتے ہیں۔

دوسری جانب جوڈیشل کمیشن اجلاس کے موقع پر وکلا ء کے ایک گروپ نیاحتجاج کیا، وکلا کی 6نمائندہ تنظیموں نے جوڈیشل کمیشن اجلاس کی حمایت کی تھی۔اسلام آباد میں وکلاء ایکشن کمیٹی کے اراکین نجی ہوٹل کے قریب جمع ہوئے، پلے کارڈ اٹھائے اور نعرے بازی کی۔منیر اے ملک اورعلی احمد کرد سمیت دیگرکی قیادت میں وکلاء نے ریڈ زون کی جانب مارچ کیا، جناح انڈرپاس کے قریب وکلاء کوپولیس کی جانب سے پہلی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، پولیس اوروکلاء میں ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ریڈ زون میں داخل نہ ہونے پروکلاء نے سری نگر ہائی وے پردھرنا دیا جو کچھ دیر بعد ختم کردیا گیا۔

ایکشن کمیٹی کی کال پروکلاء ایکسپریس چوک پرپہنچے جہاں پولیس کی بھاری نفری پہلے سے ہی تعینات تھی۔ایکسپریس چوک پروکلاء نے حکومت اور 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف نعرے بازی کی، صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ڈی چوک پر پہنچے اور احتجاج موخر کرنے کا اعلان کردیا۔

ریاست علی نے کہا کہ قیادت نے فیصلہ کیا ہے 26 ویں آئینی ترمیم کی سماعت کے دوران لانگ مارچ ہوگا۔قبل ازیں وکلا ججز تعیناتیوں اور 26 ویں ترمیم کے خلاف احتجاج کیلئے سپریم کورٹ کا رخ کرتے ہوئے ریڈ زون میں داخل ہوگئے، شاہراہ دستور پر سیکورٹی انتظامات بھی تھے۔وکلاء نے سری نگرہائی وے سرینہ چوک کو بھی بند کردیا تھا جسے خالی کر الیا گیا جس کے بعد وکلا ڈی چوک پہنچ گئے۔ سپریم کورٹ جانے والے راستے بند ہونے کے باعث عدالت عظمیٰ میں شیڈول سویلین ٹرائل کیس کی سماعت بھی ملتوی کردی گئی تھی۔

اس دوران سپریم کورٹ پولیس نے وکلا کیلئے مختص داخلی دروازہ بند کردیا اور وکلا سے گفتگو میں کہا کہ ہمیں آرڈر ہے اندر نہیں جانے دینا جس پر وکلا نے کہا کہ سپریم کورٹ ہمارا گھر ہے دروازہ کھولا جائے۔پولیس نے فاروق ایچ نائیک کو خصوصی طور پر سپریم کورٹ میں داخلے کی اجازت دے دی، جس پر انہوں نے کہا کہ وکلا سمیت سب کو داخلے کی اجازت ہونی چاہیے، وکلا کو عدالت میں داخلے سے نہیں روکنا چاہیے۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ کراچی اور سندھ سے وکلا کل رات ہی اسلام آباد پہنچے تھے، مگر انہیں احتجاج سے روکنے کے لیے تمام راستے بند کر دیے گئے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا احتجاج جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے خلاف ہے اور ہم اس معاملے کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ عدلیہ اور ریاست پاکستان پر حملے کے مترادف ہے۔

علی احمد کرد نے کہا کہ پاکستان میں اس طرح کے حالات پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ انہوں نے 26 ویں آئینی ترمیم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں نے یہ ترمیم منظور کی، انہیں شرم آنی چاہیے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن میں من پسند ججز لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، مگر وکلا اس فیصلے کو قبول نہیں کریں گے۔

انہوں نے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس فوری طور پر موخر کرنے کا مطالبہ کیا۔ادھر کراچی بار کے سیکرٹری جنرل غلام رحمان نے کہا کہ ہمارا احتجاج آئین کی بحالی کے لیے ہے، کیونکہ آج ججز سیاسی حمایت حاصل کر کے فیصلے کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم آزادی صحافت کے لیے بھی آواز بلند کر رہے ہیں اور پیکا ایکٹ جیسے کالے قوانین کا خاتمہ چاہتے ہیں۔رابعہ باجوہ نے کہا کہ وکلا آئین اور قانون کے دفاع کے لیے سڑکوں پر نکلے ہیں اور یہ جدوجہد جاری رہے گی۔