بنگلہ دیش میں بابائے بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمٰن کے گھر کو مظاہرین نے “فاشزم کی زیارت گاہ” قرار دے کر تباہ کر دیا، جو عبرت کا ایک باب ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ڈھاکہ میں طلبہ تحریک کے کنوینر حسنات عبداللہ نے سوشل میڈیا پر اس حملے کا عندیہ دیا تھا، جس کے بعد ایک بڑے ہجوم نے عمارت کو نشانہ بنایا، توڑ پھوڑ کی اور عوامی لیگ کے خلاف نعرے لگائے۔
شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد جو اس وقت بھارت میں پناہ لیے ہوئے ہیں، نے اس حملے کی مذمت کی اور کہا کہ عمارت گرائی جا سکتی ہے مگر تاریخ کو مٹایا نہیں جا سکتا۔
یہ عمارت جسے “دھان منڈی 32” کہا جاتا ہے، 1956 میں شیخ مجیب کے لیے مخصوص کی گئی تھی۔ 1961 میں یہاں دو کمروں کا مکان تعمیر کیا گیا، جو بعد میں ایک سیاسی مرکز میں تبدیل ہو گیا۔
یہیں 25 مارچ 1971 کی رات شیخ مجیب نے بنگلہ دیش کی “آزادی” کا اعلان کیا تھا۔ 1975 میں فوجی بغاوت کے دوران اسی جگہ پر شیخ مجیب اور ان کے خاندان کے بیشتر افراد کو قتل کر دیا گیا، ان کی دو بیٹیاں شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ، اس وقت بیرون ملک ہونے کے باعث زندہ بچ گئیں، باقی پورا خاندان مار دیا گیا۔
شیخ حسینہ نے 1981 میں اس گھر کی ملکیت حاصل کی اور بعد میں اسے ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا۔ 1994 میں باضابطہ طور پر بنگابندھو میموریل ٹرسٹ کے تحت اسے محفوظ کیا گیا۔
اس میوزیم میں شیخ مجیب کی ذاتی اشیاء، تاریخی دستاویزات اور ایک تحقیقی مرکز بھی شامل تھا۔ تاہم، اس میوزیم پر پہلے بھی حملے ہو چکے ہیں، جیسے 1989 میں جب شیخ حسینہ وہاں رہائش پذیر تھیں۔
موجودہ حملہ جو حکومت کی تبدیلی کے بعد ہوا، اس شدید اقتدار کی کشمکش کی عکاسی کرتا ہے جس نے بنگلہ دیش کی سیاست کو ہمیشہ سے گھیر رکھا ہے۔
شیخ حسینہ کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے اور ان کے ناقدین انہیں آمریت کے طرز حکمرانی کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ اس دوران بنگلہ دیش کی تاریخ میں ایک اہم یادگار تباہی کے دہانے پر ہے، جسے مستقبل کی سیاست اور عوامی ردعمل مزید پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔