”پیکا”دی پریوینشن آف الیکٹرنک کرائمز 2025ئ میں ترامیم دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد صدر مملکت آصف زرداری کے دستخط کے بعد قانون بن کر نافذ ہوگیا۔ ایکٹ میں غیرقانونی مواد کی 16 اقسام کی فہرست ہے۔ گستاخانہ مواد، تشدد، فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینا۔ کاپی رائٹ کی خلاف ورزی یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کے خلاف بھی ایکشن ہوگا۔ غیرقانونی مواد میں جعلی یا جھوٹی رپورٹس، آئینی اداروں اور ان کے افسران بشمول عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف الزام تراشی، بلیک میلنگ اور ہتک عزت کا معاملہ بھی شامل ہے۔ پیکا قانون کے سیکشن 37میں موجودہ غیرقانونی آن لائن مواد کی تعریف میں اسلام مخالف، پاکستان کی سلامتی یا دفاع کے خلاف مواد کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ بل میں ایک نئی شق، سیکشن 6اے شامل ہے جس میں آن لائن فیک نیوز پھیلانا، جعلی خبریں سوشل میڈیا پر شیئر کرنا، ناقابل ضمانت جرم ٹھہرایا، 5 سال قید اور10 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ قانون کے مثبت اور منفی دونوں پہلوں کا جائزہ ضروری ہے۔ کیونکہ
ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں
حکومتی موقف ہے کہ ”پیکا” الیکٹرونک ڈیوائسز سے پھیلائے جانے والے جرائم کی بیخ کنی کرے گا۔ معاشرے اور سوسائٹی میں اقدار کے تحفظ اور بہتری یاانسانیت کے نقصانات کا باعث بننے والے امورکی سزا یابی اور تحدید کے لیے ہی قانون سازی کی گئی ہے۔ قانون کا پس منظر گزشتہ 10,11سال سے جاری مخصوص ریاست مخالف سوشل میڈیا مہم ہے۔ اس لیے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام، تفتیش مثلاً سائبر دہشت گردی، ہیکنگ، آن لائن ہراسانی، قومی سلامتی کا تحفظ اور قانون کے نفاذ کے اداروں کو قومی سلامتی کے متعلق جرائم کی تحقیقات اور چارہ جوئی کا فریم ورک مہیا کرنا ضروری تھا۔ یہ قانون حکومت کو آن لائن مواد منظم کرنے کی اجازت دیتا ہے جس میں قابل اعتراض مواد ہٹانا شامل ہے۔
گھر کو گھر بنانے میں نئی ترکیب لازم ہے
مرے پیکر میں تری ذاتِ کی تنصیب لازم ہے
اس کے مقابلے میں ناقدین اور میڈیا نمائندوں کا خیال ہے کہ یہ ایکٹ آزادیٔ تقریر، تحریر اور اظہار خیال کو محدود کرتا ہے۔ ایکٹ میں فیک نیوز کی مبہم وضاحت اور بعض دفعات کی حد سے زیادہ وسعت، من مانے نفاذ اور طاقت کے غلط استعمال اور شہریوں کی آزادی پر ضرب لگا سکتی ہے۔ اعلی عدالتوں میں بھی بنیادی حقوق کے منافی قرار دے کر اسے چیلنج کیا گیا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت میڈیا نمائندوں کے خدشات دور کرے اور ایسی ترامیم کرے جس سے معاملات اطمینان بخش ہوں۔ دوسری جانب ایک ذمہ دار پاکستانی کی حیثیت سے قانون کے پس منظر اور محرکات کا بھی احساس ہونا چاہیے کہ پاکستان ایک عشرے سے کن حالات کا شکار ہے۔ اس میں افراد اور اداروں کے ارباب بست و کشاد کا کردار، قومی سلامتی کے اداروں کے ذمہ داران اور اعلی عدلیہ کے بعض ججوں کے ماوراء آئین فیصلے سوالیہ نشان ہیں۔ کچھ ججوں کی جانب سے تحریک انصاف کی پشت پناہی اب کوئی صیغۂ راز نہیں۔ ان حالات میں پاکستان کی قومی سلامتی کو پہنچنے والے نقصانات کے تدارک کے لیے ایک متوازن، مضبوط وموثر قانون سازی ضروری تھی۔ یہ سچ ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز اورسوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا تیزی سے ارتقا پاکستان میں معلومات پھیلانے کا باعث بنا۔ اس پیش رفت سے اظہار اور رابطے کی اگر نئی راہیں کھلیں، تو قومی سلامتی، معاشرتی ہم آہنگی اور انفرادی رازداری کو بھی اہم چیلنجز در پیش ہوئے۔ حالیہ برسوں کی، آن لائن جارحانہ اور نفرت انگیز مہم جوئی نے ملک کے معاشرتی، معاشی، دفاعی، سماجی تانے بانے کو غیر مستحکم کیا۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو اس امر کا یقین دلائے کہ قانون کا نفاذ انتقامانہ نہیں بلکہ منصفانہ ہوگا۔
”پیکا” پاکستان میں 2016میں سائبر کرائم کے عنوان سے متعارف ہوا، جب دھڑادھڑ سائبر کرائم رپورٹ ہو رہے تھے۔ اس کے ذیل میں بینکنگ کی غیر قانونی سرگرمیاں، کرنسی چوری، کمپیوٹر ڈیٹا چوری، اکانٹس کی ہیکنگ، انٹرنیٹ دہشت گردی، فیس بک پر ہراسانی، شہرت کو داغ دار کرنا، جعلی شناخت ظاہر کرنا، حساس معلومات تک رسائی، انتہا پسند تنظیموں کی معاونت، فرقہ پرستی، نفرت انگیز اور گستاخانہ مواد، مذہبی منافرت پھیلانا، غیر قانونی سم کارڈ کا اجرا شامل تھے۔ آج تحریک انصاف اور اس کے لیڈر عمر ایوب اور سینیٹر شبلی فراز ”پیکا” کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ کیا وہ اس امر سے ناواقف ہیں کہ فروری 2022میں عمران حکومت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے پیکا میں ترامیم کی تھیں جن میں فوج، عدلیہ اور دیگر سرکاری اداروں پر تنقید پر5 سال قید کی سزا تجویز کی گئی اور سوشل میڈیا پر لوگوں کی عزت اچھالنا قابلِ تعزیر جرم قرار دیا گیا۔ ابتدائی قانون سازی کے وقت بھی، پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی و سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں اور قانون سازی کے عمل میں بھی حمایت میں ووٹ دیا۔ آج وہی پی ٹی آئی اسی پیکا قانون کی مخالفت کر رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا ایک عذاب بن گیا ہے۔ دنیا نے جدیدیت سے فائدہ اٹھا کر ترقی کا راستہ اختیار کیا۔ مگر ہمارے ہاں اسے نامناسب کاموں کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ معلوم ہونے پر کہ یہ خبر یا ویڈیو فیک ہے۔ سوشل میڈیا یوزرز اس عمل کے حصہ دار بنتے ہیں۔ کچھ بہادر ایک ٹچ سے اس جھوٹ کو بے ضرر سمجھ کر پھیلانے میں قباحت محسوس نہیں کرتے۔ ہمارے معاشر ے میں اسلامی اقدار تو ایک طرف، اخلاقی معیار بھی ختم ہو رہے ہیں۔ عوام سے خواص تک کسی کی عزت محفوظ نہیں۔ شہدا کی تضحیک آمیز پوسٹ شئیر کرتے وقت اتنے گر جاتے ہیں کہ پستی کو بھی شرم آتی ہے۔ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ ان والدین ک دل پرکیا گزرتی ہوگی جو اپنے جگر گوشے وطن پر قربان کر رہے ہیں۔
میڈیا نمائندوں کا کہنا ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں مواد کی نگرانی کے ذمہ دار موجود ہوتے ہیں۔ اخبار کی اشاعت کے لیے ڈیکلریشن اور چینلز کے لیے لائسنس ضروری ہے۔ چھپنے اور نشر ہونے والا مواد بھی قانون کی پکڑ میں ہوتا ہے۔ پریس کونسل اور پیمرا میں شکایات کی جا سکتی ہیں۔ ہتک عزت کے قوانین کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے لیکن سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز، ایکس فیس بک یوٹیوب اور ٹک ٹاک کسی بھی پاکستانی ادارے یا عدالت کی پہنچ سے باہر ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے والے کسی شخص کا پاکستان میں مقیم ہونا ضروری نہیں۔ وہ کہیں بھی بیٹھ کر پاکستانی ناظرین یا قارئین کے لیے کوئی بھی پوسٹ یا ویڈیو اپ لوڈ کرسکتا ہے۔ ایسے لوگوں کی گرفت کے لیے کوئی آلہ یا ہتھیار ہمارے ادارے تاحال ایجاد نہیں کر سکے۔ صرف الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بار بار نشانہ بنتے ہیں۔
اور تو بس نہیں چلتا ہے رقیبوں کا مگر
سوز کے نام کو لکھ لکھ کے مٹا دیتے ہیں
چین نے تو اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم بناکر، غیر ملکی اداروں پر اپنی حدود بند کر دی ہیں کیا ہم ایسا کر سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب حکومت یا کسی ادارے کے پاس نہیں۔ سوشل میڈیا کو جوابدہ بنانے کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ اسے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے الگ کیا جائے ورنہ اسے جس پیمانے پر قانون کے تابع بنایا جا سکتا ہے وہ بھی ممکن نہیں ہو سکے گا۔
