یہ ایک خوشگوار صبح تھی، سموگ جا کر واپس آ چکی تھی اور سورج کچھ دن کے لیے روٹھ گیا تھا۔ میں لاہور کے ایک پارک میں چہل قدمی کر رہا تھا، ایک ادھیڑ عمر بابا جی بڑی مستعدی سے جاگنگ کرتے ہوئے گزرے۔ سفید شلوار قمیض، جوگرز اور چہرے پر تازگی کے آثار نمایاں تھے۔ کچھ دیر بعد وہ ایک بینچ پر بیٹھ گئے، میں بھی تھک چکا تھا لہٰذا میں ان کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔
گفتگو ہوئی تو معلوم ہوا وہ ایک معروف کاروباری شخصیت ہیں اور گزشتہ 15سال سے روزانہ صبح کی سیر کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنائے ہوئے ہیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو بولے: ”اگر دن کی شروعات تازہ ہوا اور حرکت سے ہو تو دن بھر جسم چاک و چوبند اور دماغ پرسکون رہتا ہے۔” میں نے مزید تفصیل جاننا چاہی تو وہ گویا ہوئے: ”میں نے جو بات کہی ہے یہ محض میرا تجربہ نہیں بلکہ ایک سائنسی حقیقت ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق روزانہ30منٹ کی واک ہائی بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں کا خطرہ 35فیصد کم کر دیتی ہے جبکہ پاکستان کارڈیک سوسائٹی کے مطابق چہل قدمی وزن کو متوازن رکھنے اور ذہنی دباؤ کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ پاکستان میں صرف 10فیصد لوگ باقاعدگی سے ورزش یا واک کرتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ تناسب 60فیصد سے زائد ہے۔ جاپان میں کمپنیوں کے سی ای اوز تک باقاعدگی سے سیر اور ورزش کرتے اور اس اپنی کارکردگی بہتر بناتے ہیں۔
ہارورڈ میڈیکل اسکول کی رپورٹ کے مطابق صبح کی واک دماغی کارکردگی کو بڑھاتی اور ڈپریشن کے امکانات کو 26فیصد تک کم کر دیتی ہے جبکہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ صبح کی تازہ ہوا دماغ کی استعداد بڑھانے میں مدد دیتی ہے۔” بابا جی کی یادداشت حیران کن تھی اوران کے بتائے گئے فیکٹس اور فیگرز جان کر میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ میری حیرت میں مزید اضافہ کرتے ہوئے بولے: ”پنجاب یونیورسٹی لاہور کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے، اس یونیورسٹی کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد ہاسٹلز میں رہائش پذیر ہے مگر ان میں سے اکثر صبح جلدی اٹھنے اور واک کرنے کے عادی نہیں ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے نوجوانوں میں صبح جلدی اٹھنے کا رجحان 25ـ30فیصد سے بھی کم ہے جبکہ 70فیصد سے زائد نوجوان سونے میں تاخیر کرتے اور صبح دیر سے اٹھتے ہیں۔ پاکستان کے تقریبا 40ـ50فیصد طلبہ فزیکل فٹنس کے مسائل کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ زیادہ تر طلبہ یا تو واک نہیں کرتے یا ان کے روزمرہ معمولات میں ورزش شامل نہیں ہے۔ رات دیر تک جاگنے سے نیند کی کمی کا سامنا ہوتا ہے جو دن میں سستی اور کمزور توجہ کا باعث بنتی ہے۔ نیند کی کمی سے دماغی صلاحیت کمزور ہوتی ہے جس کا براہ راست اثر طلبہ کے سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت پر پڑتا ہے۔ نیند کی کمی سے ذہنی تناؤ اور انگزائٹی میں اضافہ ہوتا ہے جو نوجوانوں میں ڈپریشن کا باعث بن سکتی ہے۔” میری آنکھوں میں حیرت کے پھیلتے ہوئے سمندر کو دیکھ کر وہ خود ہی گویا ہوئے: ”میں ایک عرصہ تک پنجاب یونیورسٹی کے اطراف میں رہاہوں، میں روزانہ صبح واک کے لیے یونیورسٹی چلا جاتا تھا اور میری کوشش ہوتی تھی کہ میں نہر کے اس پار ہاسٹلز کی طرف جا کر چہل قدمی کروں۔ میری خواہش ہوتی تھی کہ ہزاروں طلبہ میں سے چند ہی مجھے واک کرتے نظر آ جائیں مگر مجھے ہر روز مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔”
ان کی وضاحت سے میری حیرت میں کچھ کمی آئی لیکن بابا جی کے انکشافات اور نصیحتیں جاری تھی، وو بولے: ”یونیورسٹی ہاسٹلز میں رہائش پذیر طلبہ کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے معمولات میں تبدیلی لائیں اور صبح جلدی اٹھنے کی عادت اپنائیں۔ طلبہ کو چاہیے کہ رات دس گیارہ بجے سونے کی عادت اپنائیں تاکہ وہ فجر کے وقت آسانی سے بیدار ہو سکیں۔ صبح جلدی اٹھنے اور فجر کے بعد واک کرنے کے بے شمار فوائد ہیں، صبح کی تازہ ہوا میں واک کرنے سے جسم میں آکسیجن کی فراہمی بہتر ہوتی ہے جس سے ذہنی و جسمانی صحت میں بہتری آتی ہے۔ صبح کی واک ذہنی سکون فراہم کرتی ہے جو طلبہ کے لیے خاص طور پر مفید ہے۔ صبح جلدی اٹھنے والے طلبہ کا حافظہ بہتر ہوتا ہے جس سے ان کی تعلیمی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔
دوسری طرف رات دیر تک جاگنے اور صبح دیر سے اٹھنے سے موٹاپا، دل کی بیماریاں اور ذہنی تناؤ جیسی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ طلبہ کا مستقبل ہمارے ملک کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کی صحت اور تعلیمی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحت مند معمولات اپنائیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ، اساتذہ اور طلبہ کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا کرنا چاہیے اورطلبہ کو صبح جلدی اٹھنے کی عادت اور اس کو فروغ دینے کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہییں۔ یونیورسٹی انتظامیہ کو چاہیے کہ طلبہ کے لیے صبح کی واک کو لازم قرار دیں۔ ہاسٹلز میں صحت مند طرز زندگی کے حوالے سے آگاہی مہم شروع کر یں تاکہ طلبہ میں صبح کی واک اور ورزش کے فوائد کے بارے میں شعور اجاگر ہو۔ واک کی عادت اپنانے کے لیے یونیورسٹی ہاسٹلز کے آس پاس مخصوص ٹریک بنائے جا سکتے ہیں جہاں طلباء آسانی سے چہل قدمی کر سکیں۔ ان راستوں پر درخت، پھول اور سبزہ لگانے سے واک کومزید خوشگوار بنایا جا سکتاہے۔
ایک تحقیق کے مطابق سبزہ زار اور کھلے ماحول میں چہل قدمی کرنے سے ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے اور تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ ”صبح سویرے جاگیں” کے نام سے ایک مہم شروع کر سکتی ہے جس میں طلبہ کو صبح جلدی اٹھنے اور واک کرنے کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے۔ اس مہم کے ذریعے پوسٹرز، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے طلبہ میں شعور اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ طلبہ میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے ”صبح کی واک” کے حوالے سے مقابلے اور چیلنجز بھی متعارف کروائے جا سکتے ہیں۔ مثلاً ہفتے میں زیادہ سے زیادہ واک کرنے والے طلبہ کو انعام دیا جا سکتا ہے یا ”واکنگ گروپس” کے درمیان مقابلے کروائے جا سکتے ہیں۔ اس قسم کی سرگرمیاں طلبہ میںصحت مند مقابلے کی فضاء قائم کریں گی اور واک کا رجحان فروغ پائے گا۔
اساتذہ اور والدین کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو وقت پر سونے اور صبح جلدی اٹھنے کی عادت ڈالیں۔ اساتذہ بھی کلاس روم میں صبح کی ورزش اور واک کے فوائد پر بات کریں تاکہ طلبہ کو اس کی اہمیت کا ادراک ہو۔ اساتذہ اگر کلاس میں اس موضوع پر گفتگو کریں گے تو طلبہ پر اس کا مثبت اثر پڑے گا اور ان میں صحت مند طرزِ زندگی کی عادتیں پروان چڑھیں گی۔” وہ بات کر کے خاموش ہوئے تو سورج کی پہلی کرن سبزے پر پڑی شبنم سے ٹکرا کر چاندی کی طرح چمک رہی تھی۔ بابا جی یکسو ہو کر سورج کی طرف متوجہ ہوگئے اور میں دوبارہ واک کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ میں سوچ رہا تھا جس ملک کے 70فیصد نوجوان بے مقصدیت کے تحت صبح دیر تک سونے کے عادی ہوں وہاں بہار کیسے آئے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ساتھ یا بعد میں آزاد ہونے والے ممالک دنیا کے لیے رول ماڈل بن چکے ہیں اور ہم بہار دیکھنے سے قبل ہی خزاں کی طرف رواں دواں ہیں۔

