ادارہ علوم اسلامی، ایک ادارہ ایک تحریک!

دارالحکومت اسلام آباد سے مری جاتے ہوئے سترہ میل کے مقام پر علم کی ایک وادی آتی ہے۔ یہ علم کی وادی ادارہ علوم اسلامی ہے جس نے قدیم وجدید علوم کو جمع کرکے علم وفن کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ گرزتے وقت کے ساتھ اس ادارے  کی انقلاب آفریں کرنیں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کو روشن کررہی ہیں۔
ادارہ علوم اسلامی کے پس منظر کی بات کی جائے تو یہ ایک ایسے مخلص شخص کا خواب تھا جو بظاہر تو درویش صفت بزرگ معلوم ہوتے  تھے مگر ان کا دل ہر دم  جواں رہتا تھا۔ یہ دل سسکتی انسانیت، بہترین نظام تعلیم کے فقدان اور قدیم  و جدید علوم کے بے جا فاصلوں پر کڑھتا تھا  اور آخر یہی کڑھن ، ٹرپ اور احساس ایک ایسے ادارے کی بنیاد بنا جو اب ایک ادارہ ہی نہیں بلکہ تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ادارہ علوم اسلامی کے نام سے خاموش تحریک اپنے مقاصد کے حصول کی طرف گامزن ہے اور رب تعالیٰ کی منشا ہوئی تو ادارے کے بانی و موسس مولانا فیض الرحمن عثمانی رحمہ اللہ کا اخلاص اس تحریک کو ضرور کامیاب کرے گا۔
اگرچہ مولانا رحمہ اللہ  کی اپنی زبانی تو ادارے کے قیام کی اصل وجہ ایک عجیب و حیرت انگیز واقعہ ہے، مگر ادارہ کے قیام کا مقصد طلبائے دین کو نہ صرف روحانی علوم نبوت سے فیض یاب کرنا بلکہ جدید تعلیم سے بھی ہم آہنگ کرکے زمانے سے زمانے کی زبان میں بات کرنے کا فن سکھانا ہے۔ مزید یہ کہ ایک عرصے سے رائج ملا و مسٹر کے خلیج کو کم کرکے معاشرے کو ایک کامیاب عالم دین مہیا کرنا ہے، جو معاشرے کی ہر طرح سے راہنمائی کرسکے۔
بندہ چوں ادارہ علوم اسلامی میں تعلیم حاصل کرچکا اس لیے بندہ کو مولانا کی زبانی یہ واقعہ بارہا سننے کو ملا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک بار مولانا سے مذاہبِ اربعہ اور ائمہ کے اختلاف سے متعلق سوال کیا گیا، چوں کہ مولانا اس وقت تک عصری تعلیم ہی حاصل کررہے تو جواب نہ دے سکے مگر ارادہ کیا کے خود ہی اس کا جواب تلاش کریں گے۔ یہی لگن مولانا کے راسخ العلم عالم دین بننے کی وجہ بنائی اور بعد ازاں ادارہ علوم اسلامی کی بنیاد کی وجہ بھی۔ مولانا  مرحوم نہ صرف علوم و فنون میں رسوخ رکھنے والی علمی شخصیت تھے  بلکہ علم العروض و القوافی میں تو اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ اس فن میں نہ صرف ملکی سطح پر تسلیم کیے گئے بلکہ عرب و عجم کے بڑے بڑے علماء علم العروض کے میدان میں مولانا رحمہ اللہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرتے تھے۔

سنہ 2000ء سے 2025ء تک ادارہ فیڈرل بورڈ میں میٹرک اور ایف اے کی سطح پر 60 پوزیشنز حاصل کرچکا ہے

بہرحال، ایک سوال کی کھوج اتنے بڑے ادارے کے قیام کی صورت کیونکر اختیار کرگئی؟ یقینا اس کی وجہ مولانا کا اخلاص اور دین اسلام سے محبت وعقیدت ہی تھی۔ مزید یہ ہے کہ اکابر کی سرپرستی میں تعلیمی میدان میں نئے انداز سے کام کرنے کی لگن تھی جس نے ادارہ علوم اسلامی کے خواب کو تعبیر عطا کی اور آج تمام عالم ادارہ ہذا کے گن گا رہا ہے۔
ادارہ علوم اسلامی کی بنیاد ویسے تو 1986ء میں مین اسلام آباد میں رکھی گئی تھی، مگر بعد ازاں  1996ء میں اسلام آباد کے ایک طرف سترہ میل کے مقام پر باقاعدہ اس چمن کی بنیاد رکھی گئی۔ اس وقت سے آج تک یہ چمن مسلسل چمکتے دمکتے پھول، کھلکھلاتے گلاب معاشرے کو دے رہا ہے، جن کی خوشبو سے ایک دنیا معطر ہے۔ ادارہ ہذا میں درس نظامی؛ اولی تا دورہ حدیث جبکہ چھٹی تا بی اے مکمل پڑھائے جاتے ہیں، جبکہ شعبہ حفظ بھی ہے جس میں غیر رہائشی طلبا کو داخلہ دیا جاتا ہے۔ سال بھر میں ادارہ میں 700 کے لگ بھگ طلبا علوم نبویہ سے مستفید ہوتے ہیں جبکہ اساتذہ اور خدّام کو ملاکر کل 800 کے قریب افراد بنتے ہیں۔ یوں اسلام آباد کی وادی علم میں آٹھ سو افراد عالمِ اسلام کے لیے ایسے جوہر تراشنے میں مصروف ہیں جو دنیا کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم کی روشنی عطاء کریں۔
اِن تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ غیر نصابی مفید سرگرمیاں جنہیں یہاں’ ہم نصابی سرگرمیاں‘ کہا جاتا ہے، کا مکمل اہتمام کیا جاتا ہے اور گزرتے وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ نصابی اور مفید غیر نصابی سرگرمیوں کے اختلا ط سے ایسے علماء تیار ہورہے ہیں جو متقی عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ  نہ صرف درس نظامی اور فنون کی دنیا میں بہترین مدرس ہیں بلکہ شاعر، ادیب، پرفیسرز، تعلیمی ماہرین اور بحری، ہوائی اور برّی افواج میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مزید یہ کہ جن جن اداروں سے ادارہ علوم اسلامی کے علماء و فضلا منسلک ہیں وہ ادارے بھی ادارہ کی کارکردگی سے نہ صرف مطمئن بلکہ حد درجہ متاثر بھی ہیں۔
اس میں دورائے نہیں کہ پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں نہ صرف قدیم و جدید علوم فراہم کررہے ہیں بلکہ ان میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی دی جارہی ہے، مگر شاید ایسا کوئی ادارہ نہیں جس میں عصری و دینی تعلیم کا ایسا حسین امتزاج ہو کہ اگر پہلا گھنٹہ ترجمہ و تفسیر کا ہے تو دوسرا ریاضی و انگریزی کا، تیسرا مثلاً فقہ کا ہے تو چوتھا معاشیات یا سائنس وغیرہ کا۔ اس احسن انداز میں بہترین امتزاج کے ساتھ شاید ہی پاکستان میں کوئی ادارہ ہو جو دینی و عصری تعلیم کو یکجا کررہا ہو۔ اس اعتبار سے تعلیم کی دنیا میں ادارہ علوم اسلامی بالکل امتیازی مقام رکھتا ہے۔
درسِ نظامی کے نتائج کی بات کی جائے تو راسب کی تعداد تو نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ طلبا کی ایک بڑی تعداد ہر سال امتیازی درجے میں وفاق کہ امتحانات پاس کرتی ہے۔
سال 1440ھ  کے وفاق کے سالانہ امتحانات میں صوبائی سطح پر ادارہ نے پوزیشن بھی حاصل کی ہے اور مستقبل میں اس حوالے سے مزید بہترین نتائج کی امید ہے۔ جبکہ عصری تعلیم میں تو کوئی بھی عصری ادارہ ادارہ علوم اسلامی کے قریب سے بھی نہیں گزرتا۔  بظاہر چٹائیوں میں بیٹھنے والے ”سادہ ملاوں“ نے پاکستان کے جدید سے جدید تعلیمی اداروں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ادارہ علوم اسلامی اسلام آباد سے وابستہ افراد ہی جانتے ہیں کہ ہرسال عصری تعلیمی امتحانات کے نتائج آنے کے بعد، باہر کے بڑے چھوٹے عصری اداروں سے منسلک افراد کا تانتا بندھ جاتا ہے اور وہ لوگ نہ صرف مسلسل ادارے  کا وزٹ کرتے ہیں بلکہ ادارے کے نظام تعلیم کو تمام تعلیمی اداروں میں رائج کرنے کی تجویز بھی دیتے ہیں۔ اس سب کے بعد یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہاں کے مہتمم مولانا فیض الرحمن عثمانی رحمہ اللہ  کا وژن’ خواب سے تعبیر تک‘ اب واقعی عملی صورت اختیار کررہا ہے۔

تعلیم میں بہترین کارکردگی کے لیے سال بھر غیرنصابی مفید سرگرمیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے

سنہ 2000ء سے 2025ء تک ادارہ علوم اسلامی فیڈرل بورڈ میں میٹرک اور ایف اے کی سطح پر60 پوزیشنز حاصل کرچکا ہے جبکہ سونا، چاندی اور کانسی کے میڈلز اور مختلف مضامین میں طلبہ کو ملنے والے اختصاصی انعامات الگ ہیں۔ سنہ 2005ء میں میٹرک کی سطح پر فیڈریل بورڈ کی پہلی 14 پوزیشنز حاصل کرکے اس ادارے نے ملک بھر کی تاریخ میں ریکارڈ قائم کرلیا ہے۔ اسی طرح ہر سال میٹرک اور ایف اے میں کئی پوزیشنیں ادارے  کے نام رہتی ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ادارہ علوم اسلامی تعلیم کی دنیا میں دن دگنی رات چگنی ترقی کررہا ہے اور کوئی بھی ادارہ بالخصوص عصری و دینی تعلیم کے امتزاج کے ساتھ  اس کے ہم پلہ معلوم نہیں ہوتا۔  اللہ رب العزت اس ادارے کو ہمیشہ شاد باد رکھے اور یہاں کے فضلا و علماء کو دین اسلام اور وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کی خدمت کے لیے قبول فرمائیں۔  آمین! (خلیل الرحمن ربانی)