غزہ سے فلسطینیوں کے مکمل انخلا کی احمقانہ خواہش کا اظہار دراصل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان عزائم کا اظہار ہے جو کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مفادات کے تحفظ کے حوالے سے رکھتے ہیں۔ طاقت کے بے لگا م استعمال سے دنیا کو اپنے قدموں میں جھکائے رکھنے کی اسی خواہش نے انسانوں کے لیے امن وسلامتی کے بے شمار مسائل کو جنم دیا ہے۔ امریکی صدر نے طاقت کے بل پر کمزوروں کو جھکانے کی خواہش کا اظہار غاصب ریاست اسرائیل کو دو ہزار پاؤنڈ وزنی بموں کی فراہمی کی اجازت دے کر کیا ہے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ خوف ناک بموں کے اس ڈھیر سے کسے ڈرانا مقصود ہے!! جبکہ غزہ کی چھوٹی سے پٹی میں محصور مسلمانوں نے پندرہ ماہ کی خوف ناک بمباری اور آتش و آہن کے برسات میں بھی تکبیر کے نعروں کے ساتھ مزاحمت جاری رکھ کر بتا دیا ہے کہ مظلوموں کو خاکستر تو کیا جا سکتا ہے لیکن ان سے ایمان، وطن کی محبت اور ان کا نظریہ نہیں چھینا جا سکتا۔ اسرائیل کو خوف ناک اسلحے کی فراہمی کی اجازت دے کر امریکا نے مصر، اردن اور سعودی عرب کو بھی دھمکانے کی کوشش کی ہے لیکن اس اوچھے اقدام کا انجام سبکی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا کیوں کہ اردن کی جانب سے صاف جواب دے دیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی مہاجرین کو اپنے یہاں پناہ دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
دنیا کی سب سے بڑی عسکری قوت اور اقوامِ عالم پر سیاسی و تہذیبی اثر ورسوخ رکھنے والے ملک کا سربراہ بالادستی کے زعم میں غزہ میں قیامِ امن، فلسطینیوں کے جبری انخلا یا نسل کشی اور اسرائیل کو بھاری اسلحے کی فراہمی کے اعلانات ایک ہی وقت میں کرکے ثابت کر رہا ہے کہ طاقت کسی قانون و ضابطے، سفارتی آداب، عقل و منطق، انصاف اور انسانی حقوق کو تسلیم نہیں کرتی۔ امریکی صدر مشرقِ وسطیٰ میں جنگل کے قانون کے مطابق اپنی خواہشات کو نافذ کرنے کے آرزومند ہیں لیکن جبر اور بالادستی کی یہ کوشش دراصل عرب ممالک کو امریکا کے مقابلے میں مشترکہ مفاد کے تحفظ کے لیے متفقہ سوچ اختیار کرنے پر مجبور کر سکتی ہے جیسا کہ مصر نے بھی اردن کی حمایت میں بیان دیتے ہوئے امریکا پر واضح کیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے لیے انہی کی سرزمین پر رہنا ضروری سمجھتا ہے، اس لیے مصر فلسطینی مہاجرین کے لیے اپنی سرحدیں نہیں کھولے گا۔ عرب لیگ نے بھی اردن اور مصر کے موقف کی تائید کی ہے جبکہ فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کی جانب سے اس فیصلے کی ستائش کی گئی ہے۔ یہ منظر دراصل بیان کر رہا ہے کہ پندرہ ماہ کی مسلسل بمباری، آتش و آہن کی برسات، تمام عالمی طاقتوں کا دباؤ اور قابض فوج کے جملہ مظالم اہلِ غزہ کے نظریات میں شگاف نہیں ڈال سکے۔ فلسطینی مزاحمت کاروں کا جذبہ روزِ اول کی مانند سر اٹھائے مضبوط و مستحکم ہے اور ان کے عوام آج بھی مزاحمتی قوت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان حقائق کی موجودگی میںعقل و دانش کا تقاضا تھا کہ امریکی صدر فلسطین کے سلگتے ہوئے مسئلے کو مزید ہوا دینے اور آگ بھڑکانے والے بیانات دینے سے گریز کرتے اور فلسطینی عوام کو برابری کی سطح پر انسان سمجھتے ہوئے ان کے جذبات و احساسات، ان کی حب الوطنی اور ان کے مسائل کے درست ادراک پر توجہ دیتے لیکن مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ جڑے عالمی طاقتوں کے مفادات اور غلبے اور بالادستی کی شدید خواہش سے مغلوب ہونے کی بنا پر احمقانہ نوعیت کے بیانات جاری کرنا شاید امریکی صدر کی مجبوری ہے لہٰذا اس بات کا امکان موجود ہے کہ آنے والے دنوں پر امریکی صدر مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے اپنی احمقانہ سوچ کو مزید تقویت دینے اور فلسطینی قضیے کے درست حل کی جانب بڑھنے کی بجائے طاقت کے استعمال سے اس معاملے کو مزید پیچیدہ، سنگین، دردناک اور مخدوش کرنے کی سعی کریں گے۔ اردن اور مصر کی جانب سے صاف انکار ٹرمپ انتظامیہ کے لیے غیر متوقع ہو سکتا ہے۔
امریکی صدر نے جس قسم کے نابغے اپنی کابینہ میں بھرتی کیے ہیں، انھیں دیکھتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی طاقت سمجھے جانے والی ریاستہائے متحدہ سے کسی سنجیدگی کی توقع کم ہی دکھائی دیتی ہے، ممکن ہے کہ ٹرمپ کی حماقت کا عملی وجود دیکھنے کی کوشش میں امریکی کانگریس مصر اور اردن کی امداد بند کرنے یا ان پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے جیسا روایتی ہتھیار استعمال کرے۔ دعا کرنی چاہیے کہ امریکی کانگریس یہ قدم ضرور اٹھائے کیوں کہ اس قسم کے اقدامات عربوں اور ترکوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب لے آئیں گے، اسرائیل کے خلاف عالمِ عرب میں نفرت کی ایک نئی اور شدید لہر اٹھے گی اور امریکی صدر کا مزعومہ ابراہیمی معاہدہ نفرت کی اس آگ میں آسانی سے جل کر رکھ ہو جائے گا۔ امریکا نے اب تک مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے لیے جو کچھ کیا ہے دراصل وہ اس کے اپنے مفادات کے مطابق ہی ہے۔ اس منافقت کے ساتھ فلسطینیوں کے مسائل کا حل نہیں کیا جا سکتا اور حالیہ جنگ نے بتا دیا ہے کہ اب فلسطینیوں کو بھی اس سے کوئی غرض نہیں کہ امریکا انھیں امن فراہم کرنے کے لیے کتنی کوششیں کر رہا ہے؟ البتہ انھوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کی مزاحمت اب اس درجے تک پہنچ چکی ہے کہ اسے طاقت کے بل پر نہیں دبایا جا سکتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی کوششیں کرکے دیکھ لیں۔ طاقت کے بل پر مظلوموں کو جھکانے اور دبانے کی خواہش عام طورپر حسرت ہی میں بدل جاتی ہے۔
گمراہ کن خبروں کو روکنے کی کوششیں
حکومت من گھڑت اور گمراہ کن خبروں کی روک تھام کے لیے مجوزہ قانون کی منظوری قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کی سطح پر حاصل کر چکی ہے۔ مختلف سیاسی دھڑوں اور صحافتی تنظیموں کی طرف سے اس قانون کو آزادیٔ اظہار کی راہ میں ایک رکاوٹ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ فی الواقع گمراہ کم خبروں، افواہوں اور جعلی صحافت کا راستہ روکنا ملک میں انتشار کے خاتمے کے لیے ضروری ہے، اس لیے کوئی ایسا قانون ضرور ہونا چاہیے جسے اس کی روح کے مطابق نافذ کیا جائے اور قانون شکنی کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا بھی ملے البتہ اس اہم کام کو محض سادہ اکثریت کے بل بوتے پر نافذ کرنا دانائی نہ ہوگی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے قانون کے الفاظ، اس کے مندرجات اور اس کے اطلاقات کے حوالے سے شکو ک وشبہات کا ازالہ کیا جائے۔ اسے منصفانہ، عادلانہ اور ممکن العمل بنایا جائے اور تمام قومی حلقوں کے ساتھ اس بارے میں تبادلہ خیال کیا جائے تاکہ یہ قانون قومی یکجہتی کا تاثر حاصل کر سکے۔ گمراہ کن خبروں اور انتشار پھیلانے والے ذرائع، وسائل اور افراد پر قابو پانے کے لیے جو مؤثر حکمتِ عملی اختیار کی جا سکتی ہے اس میں قومی اتفاقِ رائے بہرحال اہم ہے۔
