شام کے مشرقی صوبوں میں سرگرم کُرد ڈیموکریٹک فورسز نے دمشق کی نئی عبوری حکومت کے ساتھ مذاکرات میں سخت شرائط رکھ کر نیشنل آرمی میں ضم ہونے کی تجویز مسترد کردی ہے ، جس کے بعد شام کے سربراہ اور ملٹری آپریشنز مینجمنٹ کے کمانڈر ان چیف احمد الشرع نے جرمنی ، فرانس اور امریکا کو اطلاع کردی ہے کہ دمشق انتظامیہ کو کرد ڈیموکریٹک فورسز کے خلاف آپریشن کرنا ہوگا۔
شامی ٹیلی ویژن کے مطابق دمشق حکومت اور کُرد ڈیموکریٹک فورسز سمیت سیرین کرد کونسل کے درمیان مذاکرات میں کردوں کی جانب سے سخت شرائط کے باعث مذاکرات ناکامی سے دوچار ہوگئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کرد ڈیموکریٹک فورسز نے دمشق حکومت کو شرط رکھی ہے کہ کرد فورسز تحلیل ہوکر انفرادی طور پر شامی نیشنل آرمی میں ضم نہیں ہوں گے۔ وہ گروہ اور یونٹ کی شکل میں شامی فوج کا حصہ بنیں گے۔ شمال مشرقی علاقوں میں کُردوں کے تمام یونٹس کی عسکری باڈیاں بدستور اپنی موجودہ شکل میں رہ کر کام کریں گی ۔ کرد علاقوں کے انتظامات اور سیکورٹی کرد یونٹس کے پاس ہوگی جبکہ دیرالزور اور الحسکہ کے تیل پیداوار کی آدھی آمدنی معاہدے کے مطابق ان کے حصے میں آئے گی۔ ان شرائط کو دمشق انتظامیہ نے مسترد کردیا ہے۔ دمشق حکومت کی وزارتِ دفاع نے کُردوں پر واضح کردیا ہے کہ شامی وزارتِ دفاع میں کرد ذمہ داروں کو حصہ دیا جائے گا، تاہم کردوں کے تمام عسکری گروپوں کو تحلیل کیا جائے گا اور ان بھرتیاں شخصی بنیاد پر ہوں گی جس کی نگرانی دمشق حکومت کرے گی۔ کُرد عام شامی باشندوں کی حیثیت سے فورسز میں بھرتی ہوں گے جس پر دمشق اور کرد سیلف مینجمنٹ کے درمیان مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں۔

شامی وزیرخارجہ محمد اسعد الشیبانی نے ترک دارالحکومت انقرہ کے دورے کے دوران کہاہے کہ شام میں کرد ڈیموکریٹک فورسز (قسد) کے شامی حکومت میں مکمل طور پر ضم ہونے کے سوا کوئی دوسری تجویز قبول نہیں کی جائے گی۔ ملٹری آپریشنز مینجمنٹ پورے شام پر بہرصورت کنٹرول قائم کریں گی۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن قبول نہیں کیا جا ہے گا۔ رپورٹ کے مطابق شامی وزیر خارجہ اسعد الشیبانی کا دورہ ترکی بھی اسی سلسلے میں تھا۔ شمالی اور مشرقی شام میں اس وقت ترک حمایت یافتہ سیرین نیشنل آرمی کرد ڈیموکریٹک فورسز کے خلاف آپریشن کررہی ہے اور منبج میں دونوں گروپوں کے درمیان جھڑپیں ہورہی ہیں ۔ شام کے بعض ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کرد گروپوں کی جانب سے انکار کے بعد احمد الشرع کی جانب سے مغربی ممالک کو آگاہ کردیا گیا ہے کہ ملٹری آپریشنز مینجمنٹ ہر صورت ملک میں حکومتی رٹ برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کرے گی۔
دوسری جانب عراقی نیم خودمختار صوبہ کردستان کی کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ مسعود بارزانی نے دمشق انتظامیہ اور شامی کرد ڈیموکریٹک فورسز کے درمیان ثالثی کررہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے مسعود بارزانی نے شمالی شام میں اپنے نمائندے کو بھیجا ہے جس نے کرد ڈیموکریٹک فورسز (قسد) کے ساتھ بات چیت کی ہے جبکہ خود شامی کرد کونسل کے ساتھ مسعود بارزانی کی بات چیت ہوئی ہے۔ نیشنل سیرین کرد کونسل کے ذرائع نے کہاہے کہ کرد ڈیموکریٹک فورسز کی جانب سے اب تک بہت سخت رویے کا مظاہرہ ہوا ہے جس سے دمشق انتظامیہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اب کرد ڈیموکریٹک فورسز کو حکومتی چھتری میں لانے کے لیے ملٹری آپریشن کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں رہا ہے۔
مسعود بارزانی نے کرد ڈیموکریٹک فورسز کو اس سے بچنے کی تاکید کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مسعود بارزانی اور ان کی کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کا کہناہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شام میں مزید کسی لڑائی اور تنازع کے حق میں نہیں ہیں۔ امریکی انتظامیہ اس وقت ترکی کے ساتھ کسی بھی طرح تعلقات خراب کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی جس کے باعث کردوں کے ساتھ امریکا کی ہمدردی اگر ہوگی تو اسے ترکی کے آپریشن سے بچانے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ ترکی شمال مشرقی شام میں کرد ڈیموکریٹک فورسز کی سرگرمیوں کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قراردے رہا ہے اور کرد فورسز کے خلاف پہلے بھی ترکی ڈونلڈ ٹرمپ دور میں آپریشنز کرچکا ہے۔
مسعود بارزانی کی کرد ڈیموکریٹک پارٹی شامی کرد ڈیموکریٹک فورسز کے ایران کے ساتھ تعلقات سے بھی ناخوش ہے۔ کرد ڈیموکریٹک فورسز اپنے علاقائی تعلقات کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے سرگرم ہیں جس کے لیے ، ان کے ایک جانب اسرائیل اور دوسری جانب ایران کے ساتھ رابطے اور تعلقات ہیں۔ شامی کرد ڈیموکریٹک فورسز کے اہلکاروں کو ایرانی پاسداران انقلاب عراقی صوبہ سلیمانیہ میں عسکری تربیت دے رہی ہے جبکہ مسعود بارزانی کے مقابلے میں کردستان میں سرگرم ان کی حریف پیٹریاٹک یونین آف کردستان پارٹی کے ایران کے ساتھ رابطے ہے، جس کی آڑ میں ایران شامی کرد ڈیموکریٹک فورسز کو تربیت فراہم کررہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق شام کے کرد گروپوں کی ہٹ دھرمی اور نامناسب رویے سے دمشق کی نئی انتظامیہ کے چیلنجوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ ملک میں بشار الاسد کی باقیات کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ القنیطرہ اور درعا میں اسرائیلی پیش قدمی جاری ہے جبکہ ملک میں بشار الاسد کی باقیات کو بھی متعدد ممالک کی جانب سے خفیہ سپورٹ ملنے کی رپورٹیں سامنے آئی ہیں۔ ایسے میں کردوں کے خلاف آپریشن سے دمشق انتظامیہ کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شامی کرد دمشق سے زیادہ ترکی کے لیے خطرہ ہیں اور ترکی ہر صورت ان کے خلاف آپریشن کرے گا۔ماضی میں بھی امریکی فورسز کی موجودی کے باوجود بھی ترکی نے کردوں کے خلاف آپریشن کیا ہے ، جس پر کرد امریکا سے ناراض ہوئے۔
عراقی کردستان کے مسعود بارزانی کو اب بھی یہ اندازہ ہے کہ اگر شامی کردوں نے دمشق انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات نہیں کئے تو ترکی شام میں موثر عسکری آپریشن کرکے کرد گروپوں کو بہت نقصان پہنچا سکتا ہے۔