190 ملین پائونڈ کے عنوان سے معروفِ زمانہ مقدمے کا فیصلہ آگیا۔ اِس طلسمِ ہوش ربا کا پہلا باب سندھ سے طلوع ہوتا ہے جہاں ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور بحریہ ٹائون کے درمیان وسیع وعریض زمین کا تبادلہ ہوا۔ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو اِس ڈیل کو خلافِ قانون اور ناجائز قرار دیتے ہوئے بحریہ ٹائون پر 460ارب روپے کا جرمانہ عائد کر دیا گیا۔ ساڑھے سات برس میں یہ رقم ادا کرنے کیلئے قسط بندی کر دی گئی اور اس مقصد کیلئے سپریم کورٹ کے زیر نگرانی نیشنل بینک میں ایک خصوصی اکائونٹ کھول دیا گیا۔
دوسرا باب دسمبر 2018ء میں کھلا جب برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے کچھ کھاتوں میں بے قاعدگی کا سراغ لگایا، تحقیقات کیں اور انہیں جرم سے نتھی کرتے ہوئے منجمد کر دیا۔ باہمی سمجھوتے کے تحت مزید کسی قسم کی عدالتی کارروائی کے بغیر 190ملین پائونڈ کی رقم ریاستِ پاکستان کو منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ برطانوی کرائم ایجنسی (NCA) نے باضابطہ طور پر پاکستان کو مطلع کردیا۔ یہاں سے کہانی کا تیسرا بابِ تحیر کھلتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے مشیرِ احتساب اور اثاثہ جات بازیابی یونٹ (ARU) کے سربراہ شہزاد اکبر بھاگم بھاگ لندن پہنچے۔ کرائم ایجنسی کی انتظامیہ اور بحریہ ٹائون کے ملک ریاض سے ملاقاتیں کیں۔ یہاں برطانیہ اور پاکستان کے درمیان ایک اور معاہدہ طے پایا۔ شہزاد اکبر ڈھول پیٹتے ہوئے وطن واپس آئے کہ تاریخ کی سب سے بڑی رقم بازیاب کر لی گئی جو ریاستِ پاکستان کو واپس مل رہی ہے۔ انتہائی مجرمانہ واردات یہ ہوئی کہ شہزاد اکبر نے برطانوی ایجنسی کو رقم جمع کرانے کیلئے ریاستِ پاکستان کے اکائونٹ کی بجائے پراپرٹی ٹائیکون کے اس کھاتے کا نمبر دے دیا جو بحریہ ٹائون کے جرمانے کی ادائی کیلئے کھلا تھا۔ سادہ الفاظ میں یہ کہ جس فرد سے برطانوی ایجنسی نے بھاری رقم وصول کرکے ریاست پاکستان کو بھیجنا تھی، پاکستان کے برسراقتدار طاقتور گروہ نے اسی فرد کو واپس کردی۔ سو ٹیکس کاٹ کر 171 ملین پائونڈ سے زائد رقم پاکستان تو آ گئی لیکن پاکستان کے عوام اس سے محروم کردیے گئے۔ ایسا کیوں کیا گیا؟ ایسا کرنے والوں کو کیا ملا؟ کیا یہ واقعی سنگین کرپشن کی واردات تھی؟ کہانی کے مختلف ابواب اِن سوالوں کا نہایت واضح جواب دیتے ہیں۔
اقتدار کے ایوانوں کی نیم تاریک راہداریوں اور اسلام آباد کے کچھ پرتعیش گھروں میں معاملات طے پائے۔ مفادِ باہمی کی خفیہ مفاہمتی یادداشت کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ایک عجوبہِ روزگار واردات دسمبر کے اوائل میں ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت کابینہ کا اجلاس رسمی ایجنڈے کی تکمیل کے بعد ختم ہونے کو تھا کہ شہزاد اکبر نے ایک سیل بند لفافہ لہراتے ہوئے کہا کہ ایک ایجنڈا آئٹم اور بھی ہے۔ کم وبیش نصف درجن وزرا نے سوال اٹھایا کہ ہمیں کیا معلوم اس بند لفافے میں کیا ہے؟ ہم کیسے آنکھیں بند کرکے اس کی منظوری دیدیں۔ وزیراعظم نے اعتراض مسترد کردیا۔ وزرا خاموش ہوگئے۔ اس خاموشی کو ایجنڈا آئٹم کی توثیق قرار دے دیا گیا۔
دو تین ہفتوں بعد جنوری 2020میں، تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم میں بحریہ ٹائون نے 485کنال، 4مرلہ اور 58مربع فٹ زمین وزیراعظم عمران خان کے رفیقِ خاص اور دستِ راست ذلفی بخاری کے نام کر دی گئی۔ راتوں رات القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ٹرسٹ بھی رجسٹر کرا دیاگیا۔ جنوری 2021میں یہ ساری زمین چار ٹرسٹیوں (عمران خان، بشری بی بی، بابر اعوان اور زلفی بخاری) پر مشتمل ٹرسٹ کے نام منتقل ہوگئی۔
چار ماہ بعد ٹرسٹ کے چیئرمین عمران خان متعلقہ اتھارٹی کو خط لکھ کر بابراعوان اور زلفی بخاری کو ٹرسٹ سے خارج کر دیتے ہیں۔ یوں زمین سمیت ٹرسٹ کے سارے اثاثے میاں بیوی کی ملکیت بن گئے۔ پی ٹی آئی کی ریاست مدینہ میں رقم ہونیوالی اس پراسرار داستان نے امانت ودیانت کی ایک صوفیانہ کروٹ اس وقت لی جب 137سال پرانے ٹرسٹ ایکٹ 1882میں ترمیم کرتے ہوئے اسلام آباد ٹرسٹ ایکٹ 2020نافذ العمل ہوگیا۔ قرار دیاگیا کہ اسلام آباد کی حدود میں واقع تمام ٹرسٹ نئے قانون کے تحت خود کو رجسٹر کرائیں ورنہ ان کی رجسٹریشن منسوخ ہوجائے گی۔ کوئی باور کرسکتا ہے کہ خود القادر ٹرسٹ نے اپنے آپ کو نئے قانون کے تحت رجسٹر نہ کرایا اور یوں صرف آٹھ ماہ بعد قانون کی نظر میں القادر ٹرسٹ دم توڑ گیا۔ اِس کی ساری زمین اور تمام اثاثے عمران خان اور بشری بی بی کے ذاتی تصرف میں آ گئے۔
عدالتی فیصلے میں ایک اور حیرت فزا کہانی کی تفصیلات سامنے آئی ہیں کہ جن دِنوں 171 ملین پائونڈ ایک مخصوص کھاتے میں گئے اور القادر یونیورسٹی کا بابِ فضیلت کھلا، عین انہی دِنوں جولائی اور اکتوبر 2021میں، بحریہ ٹائون مالکان کی طرف سے دو قسطوں میں بنی گالہ کے قرب وجوار میں 245 کنال نہایت قیمتی اراضی بشری بی بی کی قریبی دوست فرح شہزادی کے نام منتقل کی گئی۔ بحریہ ٹائون انتظامیہ اور بشری بی بی کے دستخطوں سے ایک اور معاہدہ بھی سامنے آیا ہے جس کے تحت القادر یونیورسٹی کی تعمیر، فرنیچر، ہرنوع کے ساز وسامان اور عملے کی تنخواہوں سمیت تمام اخراجاتِ جاریہ کی ذمہ داری بحریہ ٹائون نے اٹھا لی۔
حسین شہید سہروردی سے شہبازشریف تک متعدد وزرائے اعظم اور سیاستدانوں پر کرپشن سمیت کیسے کیسے الزامات نہیں لگے۔ کسی ایک پر بھی ایسے ٹھوس، ناقابلِ تردید اور واضح شواہد کے ساتھ مقدمہ نہیں بن پایا۔ 190ملین پائونڈ تو دیدہ دلیری، بدعنوانی اور لوٹ مار کی ایسی کہانی ہے جس میں کوئی جھول ہے نہ کمی کجی۔ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے لیکر 171ملین پائونڈ ایک مخصوص کھاتے میں ڈالنے اور اس کھاتہ دار سے اربوں روپے رشوت اور کک بیکس کے طورپر وصول کرنے کی کہانی کی تمام چولیں مضبوطی سے ایک دوسرے میں پیوست ہیں اور زنجیر کی ہرکڑی، دوسری کڑی سے جڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیانیہ سازی کے ہنر میں طاق قبیلہ بھی ہکلانے لگا ہے اور اس کے لئے کارِموشگافی مشکل ہوگیا ہے۔
چھبیس برس تک دوسروں کو چور، ڈاکو، لٹیرے، منی لانڈر، کرپٹ اور عوام دشمن قرار دینے والا کردار، صرف ایک مقدمے نے پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ سونے کی انگوٹھیوں اور پسِ چلمن کے مفاد باہمی کی داستانوں کو جانے دیجیے۔ لائق فکر بات یہ ہے کہ یہ سب کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ ممکن ہے یہ محبوب سبحانی حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ کے روحانی تصرفات کا کوئی معجز نما پہلو ہو جن کا مبارک نام کھلی کرپشن، بدعنوانی اور لوٹ مار سے جڑی ایک متعفن واردات سے جوڑ دیا گیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اب تاویلات کا حیاباختہ سلسلہ اِس شرمناک دلیل کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ سرکارِِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے فروغ کیلئے کیا جا رہا تھا۔ کرپشن کی یہ واردات درجنوں سوالات اٹھا رہی ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان اور ان کے شریکِ جرم ساتھیوں نے بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا تو پھر سینکڑوں ایکڑ اراضی، نقد رقوم، ہیرے جواہرات اور لاتعداد دوسری عنایات کی برکھا عمران خان، بشری بی بی اور ان کے حاشیہ نشینوں پر کیوں برستی رہی؟ کیا کوئی کاروباری شخص اس قسم کے سودے کا تصور بھی کر سکتا ہے چاہے اس کے سینے میں حاتم طائی کا دِل ہی کیوں نہ دھڑکتا ہو؟
