دہکتے انگارے، جھلسی لاشیں، سلگتی گاڑیاں، لاس اینجلس کا آنکھوں دیکھا احوال

کیلی فورنیا(اسلام ڈیجیٹل)لاس اینجلس کے جنگلات میں لگی آگ کے باعث خالی کرائے گئے گھروں میں لوٹ مار اور چوریاں ہونے لگیں۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق لاس اینجلس کاؤنٹی کے شیرف رابرٹ لونا نے تصدیق کی ہے کہ آگ کے باعث خالی کرائی گئی املاک میں لوٹ مار اور چوریوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ گھروں میں چوریاں اور لوٹ مار کرنے کے الزام میں 20 افراد کو گرفتار کیا گیا۔لاس اینجلس کاؤنٹی میں تقریباً ایک لاکھ 80 ہزار رہائشیوں کو آگ کے باعث انخلا پر مجبور ہونا پڑا۔ ان میں سے بہت سے افراد بس ضروری سامنا لے کر گھروں کو چھوڑ گئے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے مزید 2 لاکھ رہائشیوں کو گھر چھوڑنے کے احکامات جاری کیے جا سکتے ہیں۔

انشورنس انڈسٹری کو خدشہ ہے کہ لاس اینجلس کے جنگلات سے نکل کر مہنگے ترین رہائشی علاقوں کو خاکستر کرنے والی آتشزدگی امریکی تاریخ کی سب سے مہنگی آگ ثابت ہو سکتی ہے جس میں بیمہ شدہ نقصانات آٹھ بلین ڈالر سے زیادہ ہونے کی توقع ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ لاس اینجلس میں امریکا کے مہنگے ترین گھر بنے ہوئے ہیں۔ آگ کے نتیجے میں اپنے گھروں سے محروم ہونے والی مشہور شخصیات میں لیٹن میسٹر اور ایڈم بروڈی اور پیرس ہلٹن شامل ہیں۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق آگ سے ہونے والی تباہی کے بعد لاس اینجلس کا پیسیفک پیلیسیڈ کا علاقہ ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے بعد کا منظر پیش کرنے لگا ہے۔لاس اینجلس کے کاؤنٹی شیرف رابرٹ لونا نے نقصانات کے بارے میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے جیسے یہاں ایٹم بم گرا ہو۔لاس اینجلس میں لگنے والی اس خوفناک آگ کو اب امریکی تاریخ کی سب سے مہنگی آفت قرار دیا جا رہا ہے جس میں آگ سے نقصان کا ابتدائی تخمینہ 150 ارب ڈالر تک لگایا گیا ہے، آگ سے 6 ہزار سے زائد گھر اور عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں جبکہ 4 سے 5 ہزار مکانات کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔

امریکی میڈیا کے مطابق منگل سے لگی آگ نے 36 ہزار ایکڑ سے زائد رقبے کو لپیٹ میں لے رکھا ہے، آگ لگنے سے اب تک ہلاکتوں کی تعداد 10 ہو چکی ہے اوراس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے جبکہ درجنوں افراد زخمی ہیں جبکہ5 روز سے لگی خوفناک نے لاس اینجلس کے آس پاس تقریباً 38,000 ایکڑ اراضی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ فائر بریگیڈز کی ٹیمیں لاس اینجلس کے مختلف حصوں میں لگی آگ کو بجھانے میں لگے ہوئے ہیں، 5 روز سے جاری اس تباہی کی وجہ سے ہزاروں افراد گھر اور بجلی سے محروم ہیں۔آتشزدگی کی یہ لہر لاس اینجلس کے شہر سانتا مونیکا اور مالیبو کے درمیان 21,500 ایکڑ سے زیادہ کے رقبے پر پھیل چکی ہے۔

لاس اینجلس کی آگ بجھانے کے لیے سپرپاور کی پاور کم پڑگئی، ساری ٹیکنالوجی دھری رہ گئی، آگ بجھانے والا واٹر سسٹم بھی ناکام ہوگیا، فائر فائٹرز کم پڑگئے، لوگ اپنے گھر جلتے دیکھتے رہ گئے، امریکی انتظامیہ مدد کرنے سے قاصر ہے۔متاثرہ علاقوں میں رات کے وقت کرفیو نافذ کر دیا گیاہے۔حکام کے مطابق کیلیفورنیا کے جنگلات میں لگی آگ پر 8 فیصد تک قابو پالیا گیاجبکہ اس کام کے لیے قیدیوں کی مدد بھی لی جا رہی ہے۔

ریاست کے گورنر نیوسم نے استعفے کا مطالبہ کرنے والے نومنتخب صدر ٹرمپ کو متاثرہ علاقے میں آکر خود جائزہ لینے کی دعوت دے دی۔ترجمان پینٹاگون کے مطابق 500 اہلکار اور10 نیوی ہیلی کاپٹر آگ بجھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔علاوہ ازیںلاس اینجلس میں لگی آگ پر قابو پانے اور اس کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔امریکی میڈیا کے مطابق پولیس اس بات کی تحقیقات کررہی ہے کہ لاس اینجلس کے جنگلات میں آگ کہیں جان بوجھ کر تو نہیں لگائی گئی۔ آگ لگانے کے شبے میں ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔ فائرفائٹرز کی کوششوں کے باوجود آگ اب تک بے قابو ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے باعث چلنے والی ہواؤں سے آگ شعلوں کے مزید بھڑکنے کا خدشہ ہے۔رپورٹس کے مطابق متعدد اسکولز اور یونیورسٹی کیلیفورنیا کو بند کردیا گیا ہے۔ کچھ فائر فائٹرز کے پاس پانی ختم ہونے کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صورتحال پر شدید تنقید کی ہے۔ حکام نے فائر فائٹرز کے پاس پانی ختم ہونے کی تردید کی ہے۔