مقبوضہ کشمیر کی درگاہ حضرت بل کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کیلئے ہی نہیں دنیا بھر کے اہل اسلام کیلئے اہمیت کا مرکز ہے۔ یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منسوب موئے مبارک موجود ہے، جس کی زیارت کی جاتی ہے، کیا آپ کو معلوم ہے اس موئے مبارک کو چرائے جانے پر کشمیری مسلمانوں نے انڈیا کو ہلاکر رکھ دیا تھا؟
آئیے ہم آپ کو موئے مبارک کی چوری، کشمیری مسلمانوں کے شدید ترین ردعمل اور اس کے نتیجے میں انڈین ایجنسیوں کی جانب سے اس کی تلاش اور بازیابی کے آپریشن کی کہانی سناتے ہیں۔ یہ کہانی برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی اردو) نے مرتب کی ہے۔
پورا کشمیر اُس وقت شدید سردی اور برف کی نہایت موٹی تہہ میں لپٹا ہوا تھا، جب 27 دسمبر 1963 کی صُبح ایک خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے خطے میں پھیل گئی۔
سرینگر کی عالمی شہرت یافتہ جھیل ’ڈل‘ کے کنارے واقع ایک درگارہ ’آثارِ شریف حضرت بل‘ کے ’حُجرہ خاص‘ کا دروازہ ٹوٹا ہوا پایا گیا تھا اور وہاں موجود پیغمبر اسلام سے منسوب بال (موئے مقدس) کو کسی نے چُرا لیا تھا۔
یہ کوئی معمولی چوری کا واقعہ نہیں تھا۔ یہ موئے مقدس سنہ 1700 میں مدینہ سے مشرق وسطیٰ اور انڈیا سے ہوتا ہوا ایک کشمیری تاجر کے ذریعے سرینگر پہنچا تھا اور اُس وقت کے مغل گورنر صادق خان نے ڈل جھیل کے قریب ’باغِ صادق خان‘ میں ایک مغل عمارت کو اس ’موئے مقدس‘ کے لیے وقف کر دیا تھا اور اگلے 263 برس، یعنی چوری ہونے کے روز تک، سے یہ سرینگر میں موجود تھا۔
یہ بھی پڑھیں:
شدید سردی اور برف سے منجمد زندگی کے باوجود چوری کی یہ خبر سامنے آنے کے بعد سے پورے کشمیر میں مظاہرے اور احتجاجی دھرنے شروع ہو گئے۔ مظاہرین پوری پوری سرد راتیں سڑکوں پر گزارتے اور ماتم کرتے اور صورتحال اس حد تک کشیدہ ہوئی کہ اُس وقت کے انڈین وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے یہ تک کہہ دیا کہ ’کشمیر ہمارے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔‘
انڈین حکومت نے حالات پر قابو پانے کے لیے اُس وقت کے انٹیلیجنس ایجنسی (آئی بی) چیف بی این ملک کو آئی بی افسران کی ٹیم کے ساتھ سرینگر روانہ کیا اور صرف ایک ہفتے کے اندر انڈین حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آیا کہ موئے مقدس کو برآمد کر لیا گیا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ 61 سال گزرنے کے باوجود آج تک اُس ’چور‘ کی شناخت نہیں ہو سکی جس نے یہ کارروائی کی تھی اس سے قطع نظر کہ تفتیش کی غرض سے درجنوں افراد کو برسوں تک جیل میں رکھا گیا اور ہزاروں مبینہ مشتبہ افراد کو تھانوں میں اذیتیں دی گئیں۔
اس واقعے کو مسلمانوں نے ’توہین مذہب‘ قرار دیا تھا اور اُس کے خلاف ہونے والا احتجاج کشمیر میں رائے شماری کے مطالبے پر منتج ہوا جس کے دوران انڈیا اور پاکستان کے درمیان سنہ 1965 میں باقاعدہ جنگ بھی ہوئی۔
کشمیر کے ایک سابق سرکاری افسر اور معروف مؤرخ خالد بشیر نے اس واقعے کے پس منظر اور پیش منظر پر مشتمل اپنی کتاب ’کشمیر: شاک، فُیوری، ٹرمائل‘ میں اس تاریخی چوری سے جُڑی بہت ساری کڑیاں جوڑنے کی کوشش کی ہیں۔
حضرت بل کی مذہبی اور سیاسی اہمیت
تصویر گیٹی امیجز
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں۔
صدیوں سے درگاہ حضرت بل میں پیغمبر اسلام کے یوم پیدائش اور دوسرے بڑے صحابہ کے عرس پر ہزاروں لوگوں کو موئے مقدس کا دیدار کروایا جاتا رہا ہے۔ پورے جموں کشمیر میں مسلمانوں کے لیے یہ ایک مرکزی درگاہ ہے۔ یہ درگاہ طویل عرصے تک میر واعظ عمر فاروق کے خاندان کے زیر انتظام رہی ہے۔
خالد بشیر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 1939 میں جب اُس وقت کے میر واعظ مولوی محمد یوسف شاہ اور یہاں کے سیاسی رہنما شیخ محمد عبداللہ کے درمیان ’مسلم کانفرنس‘ کو ’نیشنل کانفرنس‘ میں تبدیل کرنے پر اختلاف ہوا تو شیخ عبداللہ نے اسی درگاہ کو اپنا سیاسی مرکز بنانے کا فیصلہ کیا۔
سنہ 1943 میں شیخ عبداللہ نے سینکڑوں کارکنوں کے ہمراہ حضرت بل پر ’چڑھائی‘ کر دی اور میر واعظ یوسف کو درگاہ سے بے دخل کر کے خود ہر جمعہ یہاں مذہبی خطبہ اور سیاسی خطاب کرنا شروع کر دیا۔
تقسیم ہند کے بعد سنہ 1948 میں کشمیر کے تنازع پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان چھڑی جنگ کے بعد شیخ عبداللہ کی مدد سے جب انڈین وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے اُس وقت کے ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کو انڈو، کشمیر الحاق پر آمادہ کیا تو شیخ عبداللہ کو پہلے ’ایمرجنسی ایڈمنسٹریٹر‘ اور بعد میں خود مختار کشمیر کا پہلا وزیر اعظم بنایا گیا۔
لیکن وزیراعظم بنائے جانے کے محض پانچ سال بعد یعنی 1953 میں شیخ عبداللہ کو انڈیا مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے معزول کر دیا گیا اور پھر جیل بھیج دیا گیا اور اُن کے ہی ایک ساتھی بخشی غلام محمد کو نیا وزیراعظم بنا دیا گیا۔
مصنف خالد بشیر نے اِن سیاسی واقعات کے چشم دید گواہوں اور دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اگلے دس سال تک کشمیر میں سیاحت کی دھوم اور سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر کے بیچ رائے شماری کے حامیوں کی پکڑ دھکڑ اور انسانیت سوز تشدد اور کرپشن کی لہر بھی جاری رہی۔ مگر مجموعی طور پر کشمیر میں حالات پُرسکون ہی رہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ دسمبر 1963 میں موئے مقدس کی چوری نے کشمیر کی ’مردہ سیاست کو ایسے زندہ کیا جیسے اسرافیل نے صور پھونک دیا ہو۔‘
موئے مقدس کی بازیابی کے لیے اُٹھنے والی تحریک، اِس کی بازیابی کے باوجود برسوں تک جاری رہی کیونکہ اب یہ تحریک کشمیر میں رائے شماری کے مطالبے میں بدل گئی تھی۔
مگر موئے مقدس کس نے چُرایا تھا؟

یہ سوال 61 برس سے ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ ہڑتال اور مظاہروں کے بیچ چار جنوری 1964 کی سہ پہر کو ریڈیو کشمیر سرینگر سے موئے مقدس کی بازیابی کا اعلان کیا گیا تھا۔ احتجاجی مظاہرے جشن میں بدل گئے اور لوگوں کو سڑکوں پر آتش بازی کرتے اور خوشیاں مناتے دیکھا گیا۔
لیکن ساتھ ہی مظاہرین نے ’اصلی مجرم کو پیش کرو‘ کے نعرے کے تحت نیا احتجاج شروع کیا۔
یہ بھی پڑھیں:
چینی کمپنی کا الیکٹرک وہیکلز کیلیے پاکستان میں 350 ملین ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان
حکومت نے موئے مقدس کی بازیابی کا اعلان تو کیا لیکن یہ سب کس طرح ممکن ہوا اسے راز ہی رکھا گیا۔
جواہر لعل نہرو کے دست راست اور اُس وقت کے انٹیلجنس چیف بی این ملک کے حوالے سے مصنف خالد بشیر لکھتے ہیں کہ ’یہ ایک خفیہ آپریشن تھا، جس کی تفصیلات شاید کبھی سامنے نہیں آئیں گی۔‘
اور ایسا ہی ہوا بھی حالانکہ درجنوں افراد کو اس الزام میں قید و بند اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
کتاب میں پاکستانی میڈیا کی جانب سے بازیاب کروائے گئے موئے مقدس کے اصلی ہونے پر اُٹھائے گئے سوالات کا بھی حوالہ ہے۔
جنوری 1964 میں اُس وقت کے صدرِ پاکستان ایوب خان نے اپنے ریڈیو خطاب میں کہا کہ ’خدا کرے بازیاب کیا گیا موئے مقدس اصلی ہو۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو
اس نوعیت کے بیانات کے بعد کشمیر میں احتجاج اور افواہوں کا طویل سلسلہ چل پڑا۔
مصنف خالد بشیر نے اُس وقت کے سرگرم ٹریڈ یونین لیڈر سمپت پرکاش کے حوالے سے لکھا ہے کہ جواہر لعل نہرو کشمیر کے حکمران بخشی غلام محمد سے جان چھڑوانا چاہتے تھے اور اسی لیے موئے مقدس کو چُرایا گیا۔
اپنی کتاب میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’لیکن پاکستان کو اس کی بِھنک پڑ گئی اور پاکستان کے دو خفیہ اہلکاروں نے کشمیر پہنچ کر اسے بندوق کی نوک پر وہاں سے لے لیا جہاں اسے رکھوایا گیا تھا۔‘
مصنف خالد بشیر نے اپنے کتاب میں سمپت پرکاش کا حوالے لکھا ہے جس میں انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ موئے مقدس کی چوری کے بعد ’کشمیر کے حالات ٹھیک کرنے کے لیے جواہر لعل نہرو نے مصر کے صدر جمال عبدالناصر سے مدد مانگی تو ’ناصر نے مصر کی ایک درگاہ سے دوسرا موئے مقدس بھجوایا جسے حضرت بل میں رکھ کر چرائے گئے تبرک کی بازیابی کا دعویٰ کیا گیا۔‘
اس دوران ایک اور افواہ یہ بھی تھی کہ شیخ محمد عبداللہ کی رہائی کے لیے انڈیا کو مجبور کرنے کے لیے شیخ کے ساتھیوں نے اس بحران کا خوب استعمال کیا۔
خالد بشیر اپنی کتاب میں آخر پر لکھتے ہیں کہ شیخ عبداللہ کی طویل قید سے رہائی کے بعد جب 24 فروری 1975 کے روز انھوں نے انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ساتھ معاہدہ کر کے دوبارہ اقتدار سنبھالا تو اُن کے ساتھی نے موئے مقدس کی چوری کے ملزم کی شناخت اور رائے شماری کے مطالبے کی تحریک کو ’22 سالہ آوارہ گردی‘ قرار دے دیا۔ اور اس طرح یہ راز ہمیشہ کے لیے راز ہی رہ گیا۔‘