آئی ایم ایف کی اہم شرط پوری، قومی مالیاتی معاہدے پر تین صوبوں کا اتفاق، سندھ کا اعتراض

اسلام آباد: وفاقی اور کم از کم 3 صوبائی حکومتوں نے عالمی مالیاتی فنڈ کی اہم شرط پوری کرنے کیلیے نئے قومی مالیاتی معاہدے پر مشروط طور پر اتفاق کیا ہے جبکہ مرکز نے صوبوں کی جانب سے ظاہر کیے گئے خدشات دور کرنے کیلیے معاہدے کو کافی حد تک معتدل کیا ہے۔

وزارت خزانہ نے پیر کی رات تک تصدیق نہیں کی کہ کیا حکومت سندھ بھی اس معاہدے پر رضامند ہے؟ جسے قومی مالیاتی کمیشن کے متبادل کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔ عوامی سیاسی موقف کے برعکس خیبرپختونخوا کی حکومت نے سمجھداری سے کام لیتے ہوئے معاہدے پر کچھ شرائط کے ساتھ رضامندی دی ہے۔ سندھ کے اعتراضات کے باعث معاہدے کے مسودے میں بڑی تبدیلیاں ہوئیں۔

ترجمان وزارت خزانہ قمر عباسی نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ کیا تمام صوبائی حکومتوں نے معاہدے پر دستخط کئے ہیں؟ انھوں نے اس بات کا بھی جواب نہیں دیا کہ آیا اس مفاہمت کی یادداشت کے مسودے میں تبدیلی کی گئی ہے جو جولائی میں صوبوں کے ساتھ صوبائی تحفظات دور کرنے کیلئے طے پایا تھا۔

وزارت خزانہ نے اتفاق رائے تک پہنچنے کیلئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے اخراجات صوبوں کی طرف سے بانٹنے کی شرط شامل نہیں کی۔ اس نے اس طرح کی کسی بھی منتقلی کو قومی اقتصادی کونسل کی رضامندی سے منسلک کرتے ہوئے وفاق سے چلنے والے منصوبوں کی صوبائی نوعیت کو صوبوں کو منتقل کرنے کی شرط میں بھی نرمی کی ہے۔ سندھ کیلئے ایک اور بڑی رعایت میں، وفاقی حکومت کے حجم میں کمی کو مشترکہ مفادات کی کونسل کی سطح پر حاصل کئے جانے والے اتفاق رائے سے منسلک کیا جائے گا جو دونوں کیلئے مضمرات کے حامل فیصلے کرنے کا ذمہ دار آئینی فورم ہے۔

وزارت خزانہ کے حکام نے پیر کو وفاقی ،پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی حکومتوں نے قومی مالیاتی معاہدے پر مشروط طور پر اتفاق کیاجو دستخط کرنے کا آخری دن تھا ۔ سندھ کی جانب سے دستخط کرنے کاسرکاری اعلان سامنے نہیں آیا۔ این ایف سی کے تحت وفاقی ٹیکسوں میں صوبائی حصہ 57.5 فیصد تک بڑھا دیا گیا لیکن وفاقی حکومت نے صوبائی روڈ انفراسٹرکچر، صحت اورتعلیم کے شعبوں میں ذمہ داریوں کو مکمل ختم نہیں کیا۔معاہدے کے تحت صوبائی حکومتیں زرعی امدادی قیمتوں کا تعین نہیں کر سکتیں اور وہ زرعی انکم ٹیکس قوانین میں ترمیم کریں گی تاکہ چھوٹے کسانوں پر وفاقی ذاتی انکم ٹیکس کی شرح کے برابر اور زرعی کارپوریٹ آمدنی کی شرح وفاقی کارپوریٹ انکم ٹیکس کی شرح کے برابر ہو سکے۔

سپر انکم ٹیکس کے سوا وفاقی ذاتی انکم ٹیکس کی شرح 50% تک زیادہ ہے اور کارپوریٹ ریٹ 29% ہیں۔ اخراجات کی کچھ ذمہ داریاں صوبے بھی لیں گے لیکن یہ آئی ایم ایف کی جانب سے شروع میں تصور کئے گئے خطوط کے مطابق نہیں ہیں۔ یہ واضح نہیں کہ آیا آئی ایم ایف معتدل معاہدہ قبول کرے گا جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اوراور ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات کی حد تک مسائل مکمل حل نہیں کرتا۔آئی ایم ایف نے ٹیکس کی تنگ بنیاد بڑھانے اور وفاقی حکومت کے اخراجات کا بوجھ کم کرنے کی کوششوں کے حصے کے طور پر بڑی شرط رکھی ہے کہ پانچوں حکومتیں 30 ستمبر تک قومی مالیاتی معاہدے پر دستخط کریں گی اور آئی ایم ایف ہیڈ کوارٹرکو اسی روز اطلاع دیں۔

این ایف پی ، قومی مالیاتی کمیشن کے بدلے میں ہے، جس میں حکومت، فوجی اسٹیبلشمنٹ اور وفاقی حکومت کے درمیان اتفاق رائے ہونے کے باوجود ترمیم کرنے سے گریزاں ہے کہ موجودہ قومی مالیاتی کمیشن دائمی وفاقی مالیاتی عدم توازن کا ذریعہ ہے۔ حکومت سیاسی فائدے کے واسطے عدلیہ کا رنگ بدلنے کیلئے آئین میں ترمیم پرتُلی ہوئی ہے لیکن پاکستان کی معاشی استحکام کی خاطر این ایف سی کی ازسرنو وضاحت کیلئے ترمیم کرنے کو تیار نہیں۔

وفاقی حکومت کے اسراف سے سب سے زیادہ فائدہ پنجاب اور سندھ حکومتوں کو ہے جبکہ ان دونوں صوبوں نے مالیاتی معاہدے کے اصل مسودے پر اعتراضات اٹھائے۔ذرائع نے بتایا ان کے تحفظات دور کرنے کیلئے وزارت خزانہ نے 25 ستمبر کو مسودے میں بڑی تبدیلیاں کیں – جس دن آئی ایم ایف نے پاکستان کے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کی منظوری دی تھی جو بڑی ڈھانچہ جاتی اصلاحات لانے کے ارد گرد بنایا گیا ہے۔ پنجاب کی صوبائی حکومتیں، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان نے جولائی میں وفاقی حکومت کے ساتھ مالیاتی ذمہ داریوں کے اشتراک کے حوالے سے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کئے تھے۔

آئی ایم ایف چاہتا تھا صوبے اعلیٰ تعلیم، صحت، سماجی تحفظ اور علاقائی پبلک انفراسٹرکچر سرمایہ کاری سکیموں کیلئے اضافی تعاون کریں۔ اس کے ساتھ ہی صوبے خدمات پر سیلز ،پراپرٹی اور زرعی انکم ٹیکس جمع کرنے کی کوششیں بڑھانے کیلئے اقدامات کریں۔تاہم معاہدے میں خاص اہداف کا خاکہ نہیں دیا گیا جو مالیاتی معاہدے کو عام بناتا ہے۔

وزیر اعلیٰ کے پی کے مشیر خزانہ مزمل اسلم نے بتایاصوبائی کابینہ نے ترامیم پر پانچ سے زیادہ سوالات اٹھائے جو وفاقی وزارت خزانہ کے ساتھ شیئر کئے اور انہوں نے ہمیں وضاحت دی۔انہوں نے کہا کے پی حکومت نے اتفاق رائے کے حصول کیلئے فوری طور پر وزارتی کمیٹی بنانے کی درخواست کی ۔ہم ملکی مفاد میں مالیاتی معاہدے کیلئے پرعزم ہیں تاہم فنانس ڈویژن کی طرف سے فراہم کردہ کسی بھی وضاحت سے اگر کوئی انحراف ہوتا ہے تو ہم اصلاحی اقدامات کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ صوبے کی سب سے بڑی تشویش پنجاب سے کے پی میں گندم کی نقل و حرکت پر پابندی تھی۔اس صورت میں کے پی حکومت گندم کی خریداری شروع کر دے گی۔