Ministry of Interior

چین سے 15 ارب ڈالر قرض کی واپسی کی مدت میں توسیع پر گفتگو مثبت رہی، وزیر خزانہ

اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ٹیکسز بڑھانے کے لیے عوام کو سہولیات دینا ہوں گی اور چین سے توانائی قرض کی واپسی میں توسیع پر مثبت گفتگو ہوئی ہے۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اور چین دونوں بلاکس کے ساتھ آگے چلنا ہے، ملکی معیشت کی بہتری کیلئے اقدامات کر رہے ہیں، اگر ٹیکسز بڑھانے ہیں تو حکومت کو بھی عوام کو سہولیات دینا ہوں گی، مقامی سطح پر ٹیکسز کے حوالے سے بات چیت چل رہی ہے۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ تنخواہ دار طبقہ مجھے کہتا ہے آپ نے ہمارے لئے کیا کیا، کوشش کر رہے ہیں نچلے طبقے پر ٹیکس کا بوجھ نہ ڈالا جائے، تاجر دوست اسکیم متعارف کرائی ہے، تاجروں کیلئے ٹیکسیشن کے عمل کو انتہائی آسان کردیا ہے، ٹیکس نادہندگان ملک اور عوام کے ساتھ مخلص نہیں ہیں، ٹیکس واجبات کی ادائیگی سے معیشت مضبوط ہوگی۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ تاجر اور سرمایہ کاروں کیلئے سہولیات کی فراہمی ترجیح ہے، ایف بی آر کی اصلاحات پر ہر ہفتے میٹنگ ہوتی ہے، وزرائے اعلیٰ زرعی شعبے میں ٹیکس کیلئے قانون سازی لائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ نان فائلرز کا پورا لائف اسٹائل کا ڈیٹا موجود ہے، جو سب سے بڑا ثبوت ہوگا، نان فائلرز کو ٹیکس افسران براہ راست نوٹس نہیں بھیج سکیں گے، اس کے نتیجے میں ایف بی آر کی ہراسگی ختم ہوگی، نان فائلز کو سینٹرلائزڈ طریقے سے نوٹس کئے جائیں گے۔

غریب طبقہ پر متعدد ٹیکسز سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ وفاقی حکومت اپنے اخراجات سنجیدگی سے کم کرنے پر غور کر رہی ہے اور رائٹ سائزنگ کیلئے 5 وزارتوں کا جائزہ لے رہے ہیں، پانچ وزارتوں کے بعض شعبوں کا انضمام کر سکتے ہیں، آئی ٹی اور ٹیلی کام کے انضمام پر غور کر رہے ہیں، صحت کا شعبہ صوبوں کی ذمہ داری ہے، کشمیر اور گلگت بلتستان کی وزارتیں ضم کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ توانائی پر تفصیلی بات چیت ہوئی، دورہ چین میں پانڈا بانڈ اور کول پاور پلانٹس کو مقامی کوئلے پر منتقلی کی بات ہوئی، چین کے وزراء نے آئی ایم ایف سے بات چیت کو سراہا، چین نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی حمایت کی ہے، آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری میں چین پاکستان کی حمایت کرے گا۔

وزیر خزانہ نے زور دیا کہ ہمیں ٹیکس کے مراحل کو آسان کرنا ہوگا، بیرون ممالک میں ہر سال ایک سادہ فارم آتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے آپ کا اتنا ٹیکس کٹ چکا ہے، بس شہری کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ اس نے کوئی گاڑی یا گھر خریدا یا فروخت کیا، لیکن یہاں میں دیکھ رہا ہوں کہ ہر سال تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس کی ادائیگی کے لیے وکیل کی ضرورت پڑتی ہے۔

چین کے ساتھ 15 ارب ڈالر کے توانائی قرضوں کی ری شیڈولنگ سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ چین سے 2 چیزوں پر بات ہوئی ہے، برآمدی کوئلے والے پاور پلانٹس کو مقامی کوئلے پر کیسے تبدیل کرنا ہے، دونوں ممالک مشترکہ طور پر اس پر کام کریں گے، بہت ہی نازک معاملہ ہے، معاہدہ تو ہم کل صبح ہی ختم کرسکتے ہیں، ختم کرکے آگے بڑھ جائیں گے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ مقامی یا غیرملکی سرمایہ کار سے یک طرفہ طور پر معاہدہ ختم کردیا جائے تو ہم آگے کیسے چلیں گے، ری پروفائلنگ کے لیے یہ بات ہوئی ہے کہ ہر ہر بینکس اور منصوبوں پر علیحدہ علیحدہ بات چیت کو آگے لے کر چلیں گے، انہوں نے ہماری بات سن لی، جلد ورکنگ گروپس بنیں گے جن کی بنیاد پر اس معاملے کو آگے لے کر چلیں گا، بڑی مثبت بات چیت ہوئی ہے۔

چینی آئی پی پیز سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پاور پلانٹس کو مقامی کوئلے پر چلانے کے بارے میں چین نے کہا ہم آپ کی بات سمجھ رہے ہیں لیکن تین چیزوں پر کام کرنا ہوگا، ری پروفائلنگ کےلیے اسپانسرز سے بات چیت کے لیے ہم آپ کے ساتھ کام کریں گے لیکن قرضوں کے حوالے سے آپ مالیاتی شعبے سے بات کریں، ہماری چین کے مرکزی بینک کے گورنر سے بات ہوئی اور انہیں ری پروفائل والا منصوبہ پیش کیا، سی پیک کے 9 منصوبے اور ایک ترسیلی نظام ہے، سب کا الگ الگ قرضوں کا حساب ہے، ہم ہر ہر منصوبے سے متعلق چینی بینک کے ساتھ مل کر الگ الگ کام کریں گے، ایک مقامی چینی مشیر کا تقرر بھی کریں گے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے فوری نوعیت کے مسائل درپیش ہیں، اسٹرکچرل مسئلہ بھی ہیں، دونوں کو ساتھ ساتھ حل کرنا ہوگا، اعتراف کرتا ہوں کہ مہنگی بجلی، بلند شرح سود اور بھاری ٹیکسز سب مسائل اکٹھے ہوگئے ہیں جس سے ہونے والی تکلیف کا احساس ہے، اگر اسٹرکچرل اصلاحات نہ کیں تو اگلے سال بھی انہی مسائل پر بات ہورہی ہوگی، معیشت کو اس چنگل سے نکالنے کےلیے اسٹرکچرل اصلاحات کرنی ہوں گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ بجلی صارفین کو ریلیف کےلیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، اسٹرکچرل اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے، ہم مختصر مدتی جذباتی فیصلے تو کرسکتے ہیں، معاہدوں کی ساکھ کو یکسر نظرانداز نہیں کرسکتے، مختصر مدتی جذباتی فیصلوں سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔