Islamabad High Court

سائفر گم کرنا ثابت ہوجائے تب بھی سزا دو سال سے زائد نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ سائفر کیس میں سیکشن ون سی (لاپروائی) یا ون ڈی (جان بوجھ کر) دونوں میں بیک وقت سزا نہیں دی جاسکتی فرض کریں الزام درست ہے تب بھی دو سال سے زائد سزا نہیں جاسکتی۔

چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کی۔ بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اور ایف آئی اے اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

سماعت شروع ہوئی تو بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ عمومی طور پر جب کوئی وکیل ہاتھی نکال دے تو دم نکالنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لیکن آپ پر یہ سیکشنز لگی ہوئیں ہیں آپ نے اس حوالے سے عدالت کی معاونت کرنی ہے، جس پر بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ رمضان

میں جب آپ کام کرتے ہیں تو عید سے پہلے عیدی ملنے کا تقاضا ہوتا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ حامد علی شاہ صاحب دلائل کے لیے جتنا وقت چاہیں گے ہم انہیں دیں گے، عید ہونے نا ہونے کا اس میں کوئی

معاملہ نہیں ہم نے قانونی تقاضے پورے کرنے ہیں، آفیشل سیکریٹ ایکٹ فائیو ون سی یا فائیو ون ڈی میں سے ایک میں ہی سزا ہو سکتی ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل میں کہا کہ ون سی تو لاپرواہی ہے اور ون ڈی جان بوجھ کر گم کرنا ہے، میں دونوں کے حوالے سے عدالت کی معاونت کروں گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں ون سی اور ون ڈی دونوں میں سزا ہوئی ہے؟ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ جی بالکل دونوں میں سزا ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ون سی اور ون ڈی دونوں میں تو سزا نہیں ہو سکتی، بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ ون سی اور ون ڈی سے متعلق اعظم خان کے علاوہ کوئی ثبوت ان کے پاس نہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ الزام درست فرض بھی کرلیا جائے تو دو سال بھی سزا زیادہ ہے، قانون میں اس الزام پر دو سال سزا کا مطلب زیادہ سے زیادہ دو سال سزا ہے، سائفر کاپی اعظم خان تک آئی ہے یہ تسلیم شدہ ہے، سیکشن ون سی اور ون ڈی میں تو شاہ محمود قریشی کا تو کوئی کردار ہی نہیں ان پر اور چارج ہے، سائفر ڈی کوڈ ہوا، آٹھ کاپیاں تیار ہو کر مختلف لوگوں کو گئیں، وزیراعظم کا سیکریٹری کہتا ہے کہ میں نے وہ بانی پی ٹی آئی کو دے دی تھی، سیکرٹری کہتا ہے کہ بعد میں جب وہ کاپی دوبارہ مانگی تو گم ہو چکی تھی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ سیکریٹری جب وزیراعظم کو چیزیں شیئر کرتا ہے تو کیا وہ انفارمل ہوتا ہے؟ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ جب سائفر کی کاپی عمومی طور پر ایک سال کے بعد آتی ہے، بانی پی ٹی آئی کو قبل از وقت ہی نوٹس کیوں کر دیا گیا حالانکہ باقی کاپیز 17 ماہ بعد واپس آئیں ہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ ایک سال میں سائفر کاپی واپس کرنا آپ کون سی دستاویز کا سہارا لے رہے ہیں؟ بیرسٹر سلمان صفدر نے جواب دیا کہ شاہ محمود قریشی نے اس حوالے سے عدالت کے سامنے بات کی تھی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ کے مطابق ایک آدھ گواہ نے یہ کہا ہے عمومی پریکٹس یہ ہے کہ کاپی ایک سال تک واپس ہوتی ہے، ایسی کوئی دستاویز ریکارڈ پر نہیں ہے جس سے پتہ چلے کہ کاپی ایک سال میں واپس کرنی ہوتی ہے۔ وکیل بانی پی ٹی آئی سلمان صفدر نے بتایا کہ ہم ایک ایک لفظ سے کیس کو توڑیں گے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ سائفر کاپی بانی پی ٹی آئی کو سپردگی کا واحد گواہ اعظم خان ہے؟ اعظم خان کا بیان نکال دیں تو سپردگی کا کوئی گواہ نہیں، کس قانون میں ہے کہ سائفر ایک سال کے اندر واپس کرنا ہوتا ہے؟

وکیل بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ پراسیکیوشن کا یہ کیس ہے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس میں کہا کہ اگر یہ ایک سال ہے تو ایک سال خصوصی طور پر لکھا جانا چاہیے۔

اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے کہا کہ سلمان صفدر سائفر ورکنگ متعلق سیکیورٹی آف کلاسیفائیڈ میٹرز ان گورنمٹ ڈیپارٹمنٹ بک عدالت کے سامنے پڑھ رہے ہیں، یہ ٹاپ سیکرٹ ہے۔ بیرسٹر سلمان نے کہا کہ ٹرائل جج نے بھی یہ بک نہیں دیکھی نا ہمیں دیکھائی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اس کے کچھ سیکشنز تو ضمانت کے فیصلے میں لکھے گئے تھے۔ سلمان صفدر نے دلائل میں کہا کہ سیکریٹری خارجہ سہیل محمود نے بیان میں کہا کہ وزیراعظم کی سائفر کاپی گم ہوگئی، سہیل محمود کے مطابق اعظم خان نے اُن سے سائفر کی نئی کاپی مانگی، سہیل محمود کہتے ہیں کہ میں نے کہا اپنی کاپی ہی ڈھونڈیں نئی نہیں ملے گی۔

عدالت نے سائفر کیس کی مزید سماعت 16 اپریل تک ملتوی کر دی۔ آئندہ سماعت پر سلمان صفدر دلائل جاری رکھیں گے۔