سندھ کی نگراں حکومت کا عوام کیلیے ہیلتھ انشورنس پالیسی متعارف کرانے کا فیصلہ

کراچی: نگراں صوبائی کابینہ نے سندھ کے عوام کے لیے پہلی بار ہیلتھ انشورنس پالیسی متعارف کروانے کا فیصلہ کرلیا۔

نگراں وزیر صحت سندھ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے سندھ سیکریٹریٹ میں منگل کو صحافیوں سے ملاقات میں غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سندھ بھر کے 50 سے 70 فیصد عوام کو سندھ ہیلتھ انشورنس پالیسی کا تحفہ نئے سال جنوری میں دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 32 فیصد آبادی تو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی ہے،جو بہت غریب طبقےسے تعلق رکھتی ہے،اس پالیسی کے لیے شناختی کارڈ کی ضرورت ہوگی جس کے ذریعے یہ ثابت کیا جاسکے کہ اس فرد کا تعلق اور رہائش سندھ کی ہی ہے۔

وزیرصحت کے مطابق ہیلتھ انشورنس پالیسی کے تحت سالانہ فی خاندان کے علاج کی مد میں انشورنس کمپنی کو 4 سے 10 لاکھ روپے(فی خاندان سالانہ 1 ملین روپے) ادا کیے جائیں گے،جو محکمہ صحت سندھ کی جانب سے فلاحی اداروں کے لیے مختص کردہ رقم (89 ارب) سے نصف ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اسپتالوں میں انشورنس آفس بنائیں گے،کوشش ہے کہ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) کی پوسٹ تین سال تک ایک ہی اسپتال میں رہے،چھ ماہ کے اندر ایم ایس کا ٹرانسفر درست نہیں وہ بھی صرف اس لیے کہ وہ ایم ایس اپنے افسر کو پسند نہیں،ایسا نظام بنائیں گے کہ تین سال تک ایم ایس کو ہٹایا نہ جاسکے لیکن اگر اس دوران اس پر کرپشن یا جنسی ہراسانی کا الزام لگ جائے تو پھر اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

ایم ایس کو ٹارگٹ دیا جائے گا تاکہ اداروں میں بہتری آئے،اچھے ڈاکٹرز ملک سے باہر چلے گئے ہیں، کچھ پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں،سرکاری 17 سے 18 گریڈ کے ڈاکٹرز دھکے کھانے پر مجبور ہوتے ہیں،آٹھ فروری سے پہلے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کو آٹومیشن پر کررہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈاؤ یونیورسٹی کے تحت ہونے والے ایم ڈی کیٹ 2023 کا پرچہ لیک ہونے کی افواہیں آئی ہیں لیکن جب تک کوئی ثبوت نہیں ملتا ہم اس پر انکوائری نہیں بٹھا سکتے، رواں سال جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے تحت ہونے والے ایم ڈی کیٹ کی انکوائری ایف آئی اے کو دے دی گئی ہے، ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ نے انکوائری جلد مکمل کر کے دے دی تھی، لیکن گزشتہ ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصے سے یہ انکوائری ایف آئی اے کے پاس موجود ہے۔

ایس آئی یو ٹی میں چار روبوٹس ہیں ان میں سے ایک جانوروں کے ٹرائیلز کے لیے ہے،سندھ انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانس اینڈو اسکوپی اینڈ گیسٹرو اینٹرولوجی کو قیام میں آئے چھ ماہ ہوئے ہیں،لیکن اس کے تین سال کی آڈٹ رپورٹ مانگ لی گئی ہے، محکمہ صحت سندھ کی جانب سے فارنسک آڈٹ رپورٹ طلب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مختلف اسپتالوں میں فی مریض یومیہ خرچ کا تعین کیا جاسکے۔

ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا کہ وزیر صحت کو علم ہونا چاہیے کہ فلاحی ادارے ،نجی اسپتال یا سرکاری اسپتال کے آئی سی یو یا جنرل وارڈ میں داخل مریض پر ایک دن میں کتنی لاگت آتی ہے،رواں سال انڈس اسپتال کی نئی عمارت کے لیے محکمہ صحت نے ان کو 4 ارب کی گرانٹ دی ہے جبکہ بقیہ 4 ارب انڈس اسپتال کے دیگر امور پر خرچ کیے جائیں گے۔

رواں سال ایس آئی یو ٹی کا بجٹ 15 ارب روپے کا ہے،جناح اور سول اسپتال کے بستروں کی مجموعی تعداد 3 ہزار 8 سو ہے جس کے لیے تقریبا 16 ارب روپے کی سالانہ لاگت آئے گی،200 بستروں پر مشتمل کورنگی اسپتال میں سالانہ ادویات کی لاگت تقریباً 5 کروڑ ہے۔ محکمہ صحت سندھ فلاحی اداروں کو 89 ارب کا بجٹ دیتا ہے، پی پی ایچ آئی کے تقریباً 13 کلینکس کو رواں سال 13 ارب کا بجٹ ملا ہے۔

ڈاکٹر سعد خالد نیاز کا کہنا تھا کہ سندھ کے اسپتالوں میں 35 فیصد عملے کی کمی ہے،ڈی جی ہیلتھ اور چیف ڈرگ انسپکٹر کی تعیناتی میرٹ پر ہوئی ہے،حکومت کا سسٹم ایسا ہے کہ ہم کسی کو نوکری سے فارغ نہیں کرسکتے، زیادہ سے زیادہ معطل کرسکتے ہیں جس سے اس شخص کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ اس میں سیاسی عوامل بھی شامل ہوتے ہیں۔