افغان طالبان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رپورٹ مسترد کر دی

فغانستان کے حکمران طالبان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یواین ایس سی) کی حالیہ رپورٹ کوبے بنیاد اور جانبدار قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے، جس میں افغان کی موجودہ انتظامیہ کو انتہائی غیر شمولیتی اور جابرانہ قرار دیا گیا تھا۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق رواں ماہ کے اوائل میں یو این ایس سی کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی جانب سے افغانستان کی صورتحال پر رپورٹ جاری کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ طالبان کا گورننس ڈھانچہ انتہائی غیر شمولیتی، پشتون مرکوز اور ہر قسم کی اپوزیشن کے لیےجابرانہ نظام پر مبنی ہے۔

دوسری طرف افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ امارت اسلامیہ افغانستان، ان الزامات کو بے بنیاد اور افغانستان کے عوام کے ساتھ واضح دشمنی قرار دیتی ہے اور گزشتہ 20 برسوں سے جاری بے بنیاد پروپیگنڈے کے ہی تسلسل ہیں۔ ہماری حکومت پر عزم ہے افغانستان کی سرزمین دوسروں کے خلاف استعمال کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دے گی۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اماراتِ اسلامیہ افغانستان میں تمام فیصلے اسلام کے شرعی رہنما خطوط کے مطابق دو طرفہ نیز کثیر جہتی عزائم اور قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے جاتے ہیں۔ انتظامیہ مشترکہ خدشات کو دور کرنے کے لیے عالمی برادری کے ساتھ بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے افغان طالبان کے درمیان آپسی اختلافات سے متعلق الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ بے بنیاد ہیں اور افغانوں سے واضح دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔سلامتی کونسل کی طرف سے اس طرح کی جانبدارانہ اور بے بنیاد رپورٹس کی اشاعت سے افغانستان اور بین الاقوامی برادری میں امن و سلامتی کے قیام میں کوئی مدد نہیں ملتی، بلکہ اس سے لوگوں (افغانوں) کی تشویش میں اضافہ ہوتا ہے۔

خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رپورٹ یہ بھی کہا گیا کہ طالبان کی واپسی کا مطلب قندھار کے اقتدار کی کرسی کی اسی طرز کی واپسی ہے جیسا کہ 1990ء کی دہائی میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کے دوران ہوا کرتا تھا۔ تاہم حکومت کے مرکز کابل میں طالبان کے بعض سینئر وزراء کے فیصلوں کی وجہ سے پرانے طریقہ کار پر عمل رک جاتا ہے۔ طالبان گروپ اپنی اہم پالیسیوں، طاقت کی مرکزیت اور افغانستان میں مالی اور قدرتی وسائل کے کنٹرول کے حوالے سے اندرونی تنازعات سے لڑ رہا ہے۔

واضح رہے کہ حالیہ مہینوں میں کابل میں مقیم کم از کم دو طالبان ترجمانوں کو جنوبی شہر قندھار منتقل ہونے کے لیے کہا گیا ہے۔ اس سے اقتدار کی منتقلی کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ طالبان اپنا دارالحکومت کابل سے جنوبی شہر قندھار منتقل کرنا چاہتے ہیں، جہاں سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ قیام کرتے ہیں۔