افغانستان کے بارے میں بنیادی معلومات اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت

ایک صحافی کے طور پر اخبارات، ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پر لکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف ٹی وی چینلز پر بات کرنے کا موقعہ بھی ملتا ہے۔ روزنامہ اسلام آفیشل یوٹیوب چینل پر ولاگ بھی کرتا ہوں، بعض انٹرنیشنل ویب سائٹس کے لئے بھی کچھ نہ کچھ تجزیہ وغیرہ دیتے رہتے ہیں۔ ہر قسم کے سوال جواب سے واسطہ پڑتا ہے۔ ایک چیز مجھے شدت سے محسوس ہوئی کہ ہم پاکستانیوں کو افغانستان کے حوالے سے اپنی بنیادی معلومات اپ ڈیٹ کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اسے ”سافٹ وئیر اپ ڈیٹ” نہ سمجھیں کہ وہ ہمارے ہاں ایک منفی اور خطرناک سی اصطلاح بن گئی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ ہمیں اپنے ڈیٹا کو اپ ڈیٹ اور فریش کرنے کی ضرورت ہے۔ تین چار پہلو خاص طور سیاہم ہیں، ان کی طرف آج روزنامہ اسلام کے اپنے قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔

اول: افغانستان ایک برادر ہمسایہ ملک نہیں بلکہ ایک مشکل، ناقابل اصلاح اور برا ہمسایہ ہے۔ ایک عام تاثر ہے کہ پاکستان اور افغانستان اور خاص کر آج کی افغان طالبان حکومت کے درمیان بہت سے رشتے ہیں، مذہب ایک ہے، اسلامی نظریہ ایک، کلچرل رشتے، تجارت وغیرہ کے صدیوں پرانے رشتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہوں گی، مگر حقیقت یہ ہے کہ افغانستان ایک مشکل اور برا ہمسایہ ہے۔ ایسا ہمسایہ جس کی پناہ مانگی جاتی ہے۔ احادیث میں بعض دعائیں مذکور ہیں۔ وہ افغانستان جیسے محسن کش، احسان فراموش، کج فہم ہمسایوں پر مصداق آتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہی دیکھ لیں کہ دو ہزار اکیس میں بیس سالہ مشکل اور پریشانیوں کا طویل دور گزارنے کے بعد افغانستان میں امن قائم ہوا۔ افغان طالبان کو حکومت ملی۔ منطقی طور پر اب انہیں خطے میں امن وامان قائم رکھتے ہوئے اپنے عوام کے لئے خوشحالی لانی چاہیے تھی، اپنے ملک میں ترقی کے راستے کھولتے، ہمسایوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھتے۔ خاص طور سے پاکستان کے ساتھ تو اچھا خوشگوار، تجارتی، معاشی، اقتصادی تعلق اس لئے بھی ضروری ہے کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں سے پاکستان واحد ملک ہے جسے افغان پراڈکٹس کی ضرورت ہے۔ ایران، ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان وغیرہ کو افغان کوئلے کی قطعی ضرورت نہیں، ان کے اپنے پاس بڑے انرجی ذخائر ہیں، افغانستان سے بہت زیادہ۔ ان ہمسایہ ممالک میں سے بعض کی آبادی ویسے بھی کم ہے اور ان کے پاس مقامی طور پر بہترین پھل، سبزیاں وغیرہ پیدا ہوتی ہیں۔ انہیں افغانستان سے کچھ منگوانے کی ضرورت ہی نہیں۔

پاکستان پچیس کروڑ آبادی والا ملک ہے جہاں پر پھلوں، سبزیوں کی کھپت زیادہ ہے، پاکستان کو اپنی انرجی کے لئے افغان کوئلہ درکار ہے کیونکہ قریب ہونے کے ناتے ٹرانسپورٹیشن کی کاسٹ کم ہے۔ پاکستان افغانستان کے لئے ایک فطری تجارتی پارٹنر ہے جہاں اگر خوشگوار تعلقات ہوں اور کچھ کوشش کی جائے تو افغانستان کئی سو کروڑ ڈالر کی ایکسپورٹ با آسانی کر سکتا ہے۔ اگر پاک افغان بارڈرز پرامن ہوں تو پاکستان بیک وقت کئی کراسنگ کھول سکتا ہے جس سے اتنا افغان کوئلہ پاکستان لے سکتا ہے کہ افغانستان کی تمام تر ایکسپورٹ سے بھی زیادہ صرف اسی مد میں کمائی ہوسکے۔ اس کے علاوہ پاکستان افغانستان کو بہترعسکری تربیت دے سکتا ہے، انٹیلی جنس شیئرنگ، جدید ہتھیار چلانے کی تربیت وغیرہ تاکہ وہ امریکی چھوڑے گئے بھاری ہتھیار چلا سکیں۔ افغان ائیرفورس کو پاکستان آسانی سے کھڑا کر سکتا ہے، اور بھی بہت کچھ۔

بدقسمتی سے افغان طالبان حکومت نے اس سامنے کی بات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ خواہ مخواہ غیر ضروری طور پر پاکستان کے ساتھ مسائل خراب کئے۔ ٹی ٹی پی جیسی دہشت گرد تنظیم کو کھل کر سپورٹ کی اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بیس سال تک طالبان قیادت اور ان کے جنگجوئوں کو بچانے، خفیہ طور پر تحفظ اور مدد فراہم کرنے والا پاکستان ہی اب افغانستان کے خلاف فوجی کارروائی جیسی سخت ترین کارروائی کی انتہا تک جا چکا ہے۔

افغان حکومت یا ان کے پاکستان میں موجود حامیوں کو ذرا بھی اندازہ نہیں کہ پاکستان ان کے ساتھ کیا کر سکتا ہے؟ وہ سمجھتے ہیں کہ روس اور امریکا کی طرح پاکستان سے لڑ لیں گے۔ وہ نہیں جانتے کہ پاکستان نے ان پر حملہ کر کے قبضہ کرنا ہی نہیں ہے۔ پاکستان نے تو صرف ائیر سٹرائیکس کرنے ہیں اور محدود فوجی کارروائی۔ افغان طالبان کے پاس ائیر ڈیفنس سسٹم ہے ہی نہیں، اگر وہ بھارت سے کچھ لینے کی کوشش کریں تب بھی وہ پاکستانی میزائل، ڈرونز وغیرہ کو نہیں روک سکتے اور کسی ائیر ڈیفنس سسٹم کو چلانے کی مہارت حاصل کرنے میں بھی ڈیڈھ دو سال لگ جانے ہیں۔ افغان طالبان شاید یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جوابی طور پر پاکستانی سرحد پر حملہ کر دیں گے، ممکن ہے ایک آدھ بار وہ ایسا کر لیں، کسی چوکی کو نشانہ بنا کر نقصان پہنچا دیں، مگر پھر پاکستانی جوابی کارروائی کا کیا کریں گے؟ وہ صرف گوریلا جنگ لڑنے والی فورس ہے، روایتی جنگ میں پاکستان کے ساتھ ان کا تناسب سو ایک کا ہے۔ پاکستان ان سے کم از کم بھی سو گنا زیادہ طاقتور ہے۔ یہ سب باتیں افغان طالبان کاش سمجھ سکیں۔ ایک برے، ناسمجھ، بدنیت، کمینے اور گھٹیا ہمسایے کی طرح وہ یہ سب سوچ سمجھ ہی نہیں پا رہے۔

دوم : موجودہ افغان طالبان ملا عمر کی طرح نہیں۔ یہ بھی ایک ایسی حقیقت ہے جو پاکستان میں لوگوں کو سمجھ لینی چاہیے۔ ملا عمر مرحوم میں بھی خامیاں ہوسکتی ہیں، مگر بہرحال وہ کردار، تقوی اور اپنی راست بازی میں موجودہ افغان طالبان لیڈرشپ سے کئی سو گنا زیادہ بہتر تھے۔ وہ اپنی بات پر قائم رہتے اور جھوٹ بولنے کے بجائے صاف بول دیتے۔ ان کے دور میں افغانستان کے پاکستان سے بہت اچھے مثالی تعلقات قائم ہوئے تھے۔ ملا عمر کو بہرحال پاکستان سے شکوہ نہیں تھا۔ بعد میں ان کے قریبی طالبان کمانڈر یہ کہتے تھے کہ ملا عمر پاکستان کی مجبوریوں کو سمجھتے ہیں اور وہ پاکستان کی امریکا کے ساتھ ”ڈبل گیم” کو قدر کی نظر سے دیکھتے ہیں تاکہ طالبان مزاحمت کی نہ کسی شکل میں جاری رہے۔ موجودہ افغان طالبان لیڈر شپ ملا عمر سے بہت مختلف ہے۔ ان کا وہ کردار ہے نہ تقوی اور نہ راست بازی۔ یہ دجل، جھوٹ اور فریب کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔ مسلسل جھوٹ بولتے ہیں، دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر پکڑے جانے پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔ ہم پاکستانیوں کو بہرحال اس حوالے سے کلیئر ہوجانا چاہیے کہ موجودہ افغان طالبان پرانے والے ملا عمر کے افغان نہیں۔

سوم : پاکستانی ادارے امریکا کے ساتھ ڈبل گیم کھیلتے رہے ہیں۔ یہ وہ اہم نکتہ ہے جو پاکستان میں افغان طالبان کے حامی حلقوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ وہ اس بات کو جان لیں کہ دنیا بھر میں کوئی بھی گوریلا تحریک اپنے کسی ہمسایہ ملک کی سپورٹ اور معاونت کے بغیر کام نہیں کر سکتی۔ ایک سال بھی لڑنا ممکن نہیں، بیس سال تو دور کی بات ہے۔ بھائی لوگو جنگجو انسان ہوتے ہیں، روبوٹ نہیں۔ وہ جنگ میں زخمی بھی ہوتے ہیں، انہیں بعض اوقات کئی کئی ماہ تک جدید طبی سہولتوں والے ہسپتالوں میں علاج کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان جنگجوئوں کے بیوی بچے بھی ہوتے ہیں، انہیں بھی کہیں رہنا پڑتا ہے، بچوں کو تعلیم کے لئے سکول، مدرسے میں تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ ملا عمر کی حکومت ختم ہوتے وقت ان کے بیٹے ملا یعقوب جو آج ”مجاہد اعظم” بنے ہیں، تب وہ بارہ تیرہ سال کے بچے ہوں گے، اس کے بعد بیس سال وہ کہاں رہے، کہاں پڑھے؟ ملابرادر دس سال پاکستان کی تحویل میں رہے، ان کے بچے اس دوران کس مدرسے میں پڑھتے رہے، کیا آپ جانتے ہیں؟ اس کے علاوہ بھی جنگجوئوں کو مستقل سپلائی لائن چاہیے ہوتی ہے، مزید افرادی قوت بھی، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔

پاکستان نے روس کے خلاف افغان مزاحمت اور پھر امریکا کے خلاف افغان طالبان جدوجہد میں ایک خاص طریقہ کار اپنایا۔ پاکستان نے خفیہ طور پر افغانوں مزاحمت کاروں کو مکمل سپورٹ دی اور اعلانیہ طور پر یہ کہتے رہے کہ ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ یہ افغانستان کا اندرونی مسئلہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہم اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دے رہے۔ روسی جرنیل بھی اس پر یقین نہیں کرتے تھے، امریکی جرنیل تو اس پر چیختے چلاتے رہے۔ امریکی اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں، سینکڑوں، ہزاروں بیانات مل جائیں گے۔ اس لئے یہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ پاکستانی حکومت، پاکستانی ریاست یا ادارے بے شک امریکی دوست ہونے کا دکھاوا کریں، تاثر دیں۔ درحقیقت یہ پاکستانی مفاد کو دیکھتے ہیں اور امریکی کی تابع داری نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے تو امریکی ہمیشہ ہماری ایجنسیوں اور فوج سے ناخوش رہے ہیں، ورنہ اپنی تابعدار فوج سے کون ناراض ہوتا ہے؟ امریکی جرنیلوں کی اس موضوع پر لکھی کتابیں اور بے شمار ویڈیو انٹرویوز موجود ہیں۔ بعض کے تو اردو تراجم بھی ہوچکے ہیں۔ اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو سی آئی اے سے بہت قریبی تعلق رکھنے والے امریکی صحافی سٹیو کول کی کتاب ”ڈائریکٹوریٹ ایس” ہی کو پڑھ لے۔
(بات طویل ہوگئی ہے، اگلی نشست میں بھی اس پر لکھیں گے ان شاء اللہ۔)