حکومت نے پارلیمنٹ کے فورم پر ایک بار پھر پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش کر دی۔وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ مذاکرات کا آپشن اب بھی موجود ہے آئیں بیٹھ کر بات کریں، جن سے بانی پی ٹی آئی بات کرنا چاہتے ہیں وہ ان سے بات نہیں کرنا چاہتے۔
سینیٹ اجلاس میں پی ٹی آئی سینیٹر مشعال یوسفزئی نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں کروائی جا رہی، میں کہتی ہوں رانا ثناء کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے، ملکی و بین الاقوامی میڈیا کو ساتھ لے کر جائیں اور بانی پی ٹی آئی کی صحت اور ان کو دی گئی سہولیات سے متعلق ہمیں آگاہ کرے۔
اس کا جواب دیتے ہوئے سینیٹر رانا ثناء اللہ نے کہا کہ جمہوریت ڈائیلاگ سے آگے بڑھتی ہے، ڈیڈلاک سے نہیں، وزیراعظم نے دو بار فلور آف دی ہاؤس بات چیت کے لیے بیٹھنے کا کہا، یہاں تک کہا کہ اسپیکر کے چیمبر میں بیٹھ جائیں میں وہاں آجاتا ہوں۔انہوں نے کہا آن ریکارڈ ہے کہ پی ٹی آئی ہم سے بات کرنے کو تیار نہیں، جن سے بات کرنے کی خواہشمند ہے وہ راضی نہیں، قیدی سے ملاقات سے متعلق کچھ امور پہلے سے طے ہونے چاہئیں، بانی سے ملاقات کے بعد جو گفتگو کی گئی وہ بھی سب کے سامنے ہے۔
رانا ثناء اللہ نے مزید کہا کہ کسی قیدی کو ریاست کے خلاف تحریک چلانے کے لیے ملاقاتوں کی اجازت نہیں دے سکتے۔وزیراعظم اپوزیشن کو میثاقِ استحکامِ جمہوریت کے لیے مذاکرات کی دعوت دے چکے ہیں۔انہوں نے جیل ملاقاتوں کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ مکمل طور پر قانون اور انصاف کے مطابق ہوتی ہیں اور قانون کسی قیدی کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ جیل میں بیٹھ کر امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کی کوشش کرے، بانی پی ٹی آئی نے اپنی بہن سے جیل ملاقات میں امن و امان میں خلل ڈالنے اور پارٹی معاملات میں مداخلت کرنے کی ہدایات دیں۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ ہمارا اصولی مؤقف ہے کہ تمام ملاقاتیں قانون کے مطابق ہونی چاہئیں اور ایسی ملاقاتیں جن سے ریاستی امن و امان متاثر ہو، ان کی اجازت نہیں دی جا سکتی، مذاکرات کا راستہ آج بھی کھلا ہے، اگر اس معاملے پر کمیٹی بنانی ہے تو متعلقہ جماعت کو پہلے اپنی قیادت سے بات کرنی چاہیے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی اموررانا ثنا ء اللہ نے کہا ہے کہ سی ڈی ایف کی اہم تعیناتی کیلئے ترامیم کی گئیں، اب آرمی چیف کی ریٹارمنٹ کی عمر نہیں ، سی ڈی ایف کی مدت پانچ سال ہے، پانچ سال بعد بھی دوبارہ تعیناتی ہوسکتی ہے۔ایک انٹر ویو میں انہوںنے کہاکہ 29نومبر کو گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرنے کی ضرورت نہیں تھی، گزٹ نوٹیفکیشن تو پہلے سے ہوا تھا۔

