اپنی زندگی کو کیسے بدل سکتے ہیں؟

بعض فقرے سادہ ہونے کے باوجود دل میں اترجاتے ہیں، انسان زندگی بھر انہیں بھلا نہیں سکتا۔ ایسے ہی ایک فقرہ لاہور کے معروف صوفی بزرگ سید سرفراز شاہ صاحب سے سنا جو دل ودماغ میں نقش ہوگیا۔ ان کی گفتگو کی محفل جاری تھی۔ ایک صاحب نے سوال کیا، میں روحانیت سیکھنا چاہتا ہوں، اس کا طالب علم بننا چاہتا ہوں۔ شاہ صاحب نے سوال کیا، آپ ایسا کیوں چاہتے ہیں؟ ان صاحب نے سادگی سے جواب دیا، دراصل میں نیک ہونا چاہتا ہوں۔ سرفراز شاہ صاحب نے مسکرا کر ان کی طرف دیکھا اور بولے، بھائی یہ تو بہت ہی آسان کام ہے۔ آپ سیرت مبارکہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کریں اور اپنی زندگی کو اس پیمانے پر ڈھال دیں۔ سادہ سا فارمولا یاد رکھیں کہ زندگی کے مختلف کرداروں، مختلف اوقات میں اپنا عمل، ردعمل، پسند ناپسند، غصہ، تلخی وغیرہ کے وقت صرف یہ سوچ لیا کریں کہ اس وقت ہمارے آقا سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے تو کیا کرتے؟ بس صرف اتنا سوچ لیں تو آپ کے ہر کام میں توازن آ جائے گا، ہر کام نیکی کے پیمانے سے ہوگا اور آپ نیک ہوجائیں گے۔ اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی دراصل رب کی پیروی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو کاپی کرنا دراصل اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔

محفل میں بیٹھے سب لوگ اس بات سے متاثر ہوئے۔ یہ ظاہر ہے اتنا آسان کام بھی نہیں۔ جب ہم غصے میں ہوں یا شدید ردعمل دینا چاہ رہے ہوں تب دماغ اتنا کام ہی نہیں کرتا کہ یہ سب سوچ سکے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو ٹرینڈ کیا جائے۔ صبح سے شام تک مختلف اوقات اور مختلف مراحل میں خود کو یاد دلایا جائے کہ سنت کا طریقہ کیا ہے اور کیسے اسے فالو کیا جا سکتا ہے۔ عام حالات میں ایسا کرتے رہیں گے تو پھر خاص مواقع پر اور شدت جذبات میں بھی یہ یاد ہی رہے گا۔

برسوں پہلے ایک صاحب نے ہمیں یہ نصیحت کی کہ لکھتے وقت بھی یہ یاد رکھیں کہ اگر ہماری تحریر ہمارے آقا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پڑھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ردعمل کیا ہوگا؟ کیا یہ تحریر عالی مقام کے چہرہ مبارک پر تبسم لے آئے گی یا ناراضی کی لہر دوڑ جائے گی۔ یہ نصیحت اور بات ایسی تھی کہ سن کر آدمی تھرا جائے۔ خود سوچیں کہ ہم جذبات میں، ردعمل میں کتنا کچھ لکھ جاتے ہیں۔ خاص کر سوشل میڈیا پر لکھتے ہوئے، کمنٹس میں نجانے کتنی بار احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔ اگر یہ سوچ کر لکھا جائے کہ ہم امتی ہیں اور ہماری تحریر ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آئے گی یا نہیں آئے گی تو پھر کس قدر ڈسپلنڈ اور متوازن لکھا جائے گا۔ کام آسان قطعی نہیں، مگر کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ ایک دوسرے کو تذکیر بھی کرتے رہیں۔ اللہ نے چاہا تو بتدریج کچھ نہ کچھ ہمارے اندر یہ عادت پیدا ہو ہی جائے گی۔ ایک زمانے میں خاکسار نے ایک مضمون لکھا جو سوشل میڈیا پر خاصا وائرل ہوا، نام تھا، رائٹ ونگ انٹیلی جنشیا کو چند مشورے۔ ان میں سے ایک نکتہ یہی تحریر کیا۔ بعض سیکولر احباب نے اس پر ناک بھوں بھی چڑھائی کہ آپ ہر بحث میں مذہب کو لے آئیں۔ ہم نے عرض کیا بھیا مذہب ایک طرز زندگی یعنی لائف سٹائل ہے۔ اسے پورا ہی اپنانا پڑتا ہے، جزوی یا آدھے ادھورے سے کام نہیں چلتا۔ خیر سیکولر حضرات کی یہ تکلیف تو قابل فہم ہے۔

آج کل سوشل میڈیا پر مختلف مباحث چلتے رہتے ہیں۔ سیاسی اور غیرسیاسی سب ہی کچھ۔ ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ جن موضوعات پر اخباری کالموں میں بات نہیں ہوتی تھی، سوشل میڈیا پر وہ بھی زیر بحث آ جاتے ہیں۔ اس لئے کہ سوشل میڈیا نے خواتین کو بھی قلم اور آواز عطا کی ہے۔ وہ اپنی بات سلیقے سے کہہ سکتی ہیں۔ مرد حضرات خواہ جتنے ہی اچھے ہوں، انڈرسٹینڈنگ ہوں، مگر بہرحال نسائی جذبات اور محسوسات کو وہ اس طرح بیان نہیں کر سکتے۔ انہی میں سے ایک بحث یہ ہے کہ خواتین کو گھروں میں رہ کر اپنے کردار ادا کرنا چاہیے یا ہر ایک کو ملازمت کے لئے باہر نکل آنا چاہیے؟ ہمارا کہنا یہ ہے کہ اگر کوئی ضرورت یا مجبوری کی صورت میں کام کرتا ہے تو وہ دوسرا معاملہ ہے۔ اپنے گھر کی صورتحال دیکھتے ہوئے گھر والوں کی رضامندی اور خوشی سے کسی خاص کام کو کرنا بھی دوسرا معاملہ ہے، مگر بہرحال خواتین کا گھریلو کردار بہت اہم اور غیر معمولی ہے۔ اس کے لئے مگر ضروری ہے کہ مرد حضرات اپنی ہاوس وائف کے کام کو سراہیں، ان کے قدردان بنیں اور یہ زہریلا جملہ نہ بولا کریں کہ گھر رہ کر تم کرتی کیا ہو؟

میرا ماننا ہے کہ گھر میں رہنے والی عورت کا کنٹری بیوشن بہت اہم ہے۔ وہ گھر سنبھالتی، اپنے خاوند اور جوائنٹ فیملی کی صورت میں سسرالی بزرگوں کا خیال رکھتی، بچوں کی تربیت کرتی ہے، یہ کم اہم کام نہیں۔ مردوں کو چاہیے کہ وہ اس رول کو گلوریفائی کریں۔ خواتین کی تکریم کریں، ان کے کام کا اعلانیہ اعتراف کریں۔ اسی طرح گھر کی ضرورت کے لئے اگر کوئی خاتون ملازمت کے لئے نکلتی ہے، واپس آ کر اسے گھر بھی دیکھنا پڑتا ہے، بچوں وغیرہ کی ضروریات بھی تو ان کے اس دوگنی کوشش کو سراہنا چاہیے۔ ان کے گھریلو کاموں میں تخفیف ہونی چاہیے، مرد کچھ ہاتھ بٹائیں اور اپنی بیویوں کے لئے آسانی پیدا کریں۔ یاد رہے کہ یہ سب وہ چیزیں ہیں جو نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ میں ملتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایک بار بھی اپنی کسی زوجہ سے سخت فقرہ نہیں کہا۔ شادی شدہ زندگی میں ایک بار بھی ایسا کچھ نہ کہنا حیران کن ہے، مگر ساتھ ہی ہمیں سکھاتا ہے کہ کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔

اپنی بیگمات سے نرمی، شائستگی، محبت سے سلوک رکھنا سیرت مبارکہ کا حصہ ہے۔ ہم لوگ عالی جناب صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں سے اپنی پسند کے ٹکڑے نکال لیتے ہیں جیسے میٹھا کھانا سنت ہے، نمک سے روزہ افطار کرنا سنت ہے، کھجور کھانا سنت ہے وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے یہ سب بھی سنتیں ہیں، ان کی عادت ڈالنی بھی اچھی بات ہے، مگر فاقہ کرنا بھی تو سنت ہے، کثرت سے روزے رکھنا بھی سنت ہے، ہم کبھی اس جانب نہیں آتے۔ سب سے بڑھ کر ہر مشکل سے مشکل اور کٹھن سے کٹھن مرحلے پر گھر والوں، دوست احباب، حتی کہ اپنے غلاموں تک سے سو فی صد مواقع پر نرمی سے بات کرنا بھی سنت مبارکہ ہے۔ دل آزاری سے ہر صورت بچنا بھی سنت مبارکہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان معاملات میں سنت کی پابندی کرنا عالی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ خوش کرے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کا اچھا، حسین، سافٹ امیج سامنے آئے گا۔ شدید غصے میں، گھر میں کسی ناپسندیدہ معاملے پر جھنجھلاتے ہوئے، کسی تند وتیز بحث کے درمیان ایک لمحے کے لئے رک کر اگر سوچا جائے کہ میرا یہ طرز عمل ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسا لگے گا؟ میں کیا کروں کہ بطور نبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے جیسے امتی کے طرز عمل کو پسند کریں؟ ایک لمحے کے لئے اگر یہ سوچ لیا جائے تو ازخود رویوں میں توازن، مزاج میں اعتدال اور شر کا عنصر تحلیل ہوجائے گا۔

آخری بات یہ کہ ان باتوں کو کرنے کا یہ مقصد نہیں کہ مصنف بڑا نیک یا مجسم خیر بن گیا ہے۔ ایسا نہیں۔ ہم سب دنیا دار لوگ ہی ہیں، کمزور، بشری جذبات کے اسیر۔ البتہ ہمیں اپنی خامیوں پر کام کرتے رہنا چاہیے، ایک دوسرے کو نیک کام کی تلقین کرنی چاہیے۔ یہ سب اچھی باتیں، مثبت خیالات، وہ رویے ہیں، جو ہمیں مطلوب ہونے چاہیں، ہمیں ایسا ہی کرنا چاہیے، ایسا کرنیکی کوشش کرنی چاہیے۔ میں، آپ، ہم سب کو یہی کوشش کرنی اور اپنے برتائو میں بہتری لانی چاہیے۔ خامیاں خوبیاں ہم سب میں ہیں، کبھی خیر غالب آتی ہے تو کبھی شر زور کر جاتا ہے۔ اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ ہمیں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منور، مہکتی، جگمگاتی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ یہ تحریریں، کالم، فیس بک پوسٹیں، سٹیٹس تذکیر کے لئے لکھے جاتے ہیں، آپ لوگوں کے لئے بھی اور اپنے لئے بھی۔ مجھے لگتا ہے کہ مجھے ایسا کرنا چاہیے، میں کر پایا یا نہیں، اس کا جواب تو میری بیوی ہی کو پتہ ہوگا، مگر میں ایسا کرنا ضرور چاہتا ہوں، میری خواہش ہے کہ ہم مرد جاتی کے لوگ اپنے رویوں میں زیادہ تہذیب، شائستگی اور نرمی لے آئیں۔ کیا پتہ اس کٹھن دن جب ہم سب کا امتحان ہوگا، اس روز یہی عمل ہی ہمارے کام آ جائے، ہماری کفایت کا باعث بن جائے۔ رب کی رحمت سے امید تو یہی کرنی چاہیے۔