پشاور میں فیڈرل کانسٹیبلری(ایف سی) کے ہیڈکوارٹرز پر فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں کا خودکش حملہ سیکورٹی فورسز نے ناکام بنا دیا،گیٹ پر خودکش دھماکے میں3ایف سی اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا جب کہ ایف سی جوانوں کی فوری کارروائی میں خودکش بمبار سمیت 3 دہشت گرد جہنم واصل ہو گئے جب کہ ایف سی اہلکاروں سمیت10افراد زخمی ہوگئے۔ذرائع نے بتایا کہ 3 خود کش حملہ آور پیدل آئے، تمام دہشت گردوں نے خود کش بمبار جیکٹس پہنی تھیں، دہشت گردوں کی عمریں 18 سے 22 سال کے درمیان تھیں۔ دہشت گردوں کا ٹارگٹ پریڈ تھی۔
چند روز قبل وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں کچہری کے باہر دہشت گردی کا واقعہ ہوا تھا جس میں ایک درجن سے زائد بے گناہ شہری شہید ہوگئے تھے۔اب خیبر پختونخوا کے صوبائی دار الحکومت پشاور میں ایف سی کے ہیڈ کوارٹرز کو نشانہ بنانے کی کوشش کرکے ملک دشمن عناصر نے اپنے عزائم ظاہر کردیے ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں دشمن قوتوں کی منصوبہ بندی اور فنڈنگ سے کی جانے والی تخریب کاری کے بڑھتے ہوئے واقعات ہمیں بحیثیت قوم بیداری کا مظاہرہ کرنے اور متحد ہوکر مادر وطن کے دفاع و تحفظ کی جنگ لڑنے کا پیغام دیتے ہیں۔ اسی بنا پرذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق سیکورٹی فورسز، قومی سلامتی کے محافظ اداروں اور ریاست سے جڑی دیگر قوتوں نے مشترکہ حکمتِ عملی کے تحت عسکریت پسندوں، دہشت گردوں اور باغیوں کے خلاف ملک کے طول و عرض میں کارروائیوں کا سلسلہ تیز کردیا ہے ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق افغان عبوری حکومت اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے مراسم، بھاری سرمایہ کاری، باغیوں کی مالی امداد اور پاکستان کے خلاف دفاعی لحاظ سے مشترکہ اقدامات کے انکشافات نے مغربی سرحدوں کی اوٹ میں پنپے والے خطرات کو مزید سنگین بنا دیاہے جس کے جواب میںریاست اب اپنی قوت اور طاقت کو بروئے کا ر لانے کی تیاری کررہی ہے ۔
پاکستان کو اس وقت ایک ہمہ جہت یلغار کا سامنا ہے اور جدید ذرائع ابلاغ بالخصوص سوشل میڈیا اس یلغار کا موثر ترین ہتھیار ثابت ہورہا ہے۔ ایک جانب ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی و تخریب کاری کو ہوا دی جارہی ہے تو دوسری جانب جدید ابلاغی ہتھیاروں کے ذریعے نوجوان طبقے کی ملک اور ریاستی اداروں کے خلاف برین واشنگ کی جارہی ہے۔ چنانچہ تازہ میڈیا رپورٹ میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کے لیے بھارت، افغانستان اور پی ٹی ایم سے منسلک جعلی اکاؤنٹس کا انکشاف ہوا ہے۔پاکستان کے خلاف جھوٹ، فتنہ اور انتشار پھیلانے والے جعلی انسانی حقوق کے علمبردار اور پروپیگنڈا نیٹ ورکس کا مکروہ چہرہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس” کی نئی اپڈیٹ کے بعد بے نقاب ہو گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اپڈیٹ کے نتیجے میں واضح ہوا ہے کہ افغانستان، فتنہ الہندوستان اور پشتون تحفظ موومنٹ (PTM) سے منسلک متعدد اکاؤنٹس غیر ملکی ایجنڈے پر سرگرم تھے۔پاکستان میں دہشت گردی کے بیانیے کو ہوا دینے کے لیے بھارت سمیت کئی ممالک سے اکاؤنٹس آپریٹ کیے جا رہے تھے، جن میں اپنی اصل لوکیشن چھپانے کے لیے VPN کا استعمال بھی عام تھا۔مزید انکشافات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے دہشت گردوں سے منسلک متعدد اکاؤنٹس بھی بھارت اور دیگر ممالک سے چل رہے تھے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں جعلی انسانی حقوق کا ڈھونگ رچانے والے کئی اکاؤنٹس دراصل غیر ملکی نیٹ ورکس نکلے، جن کے روابط بھارت سے ملتے ہیں۔ پاکستان دشمنی میں سرگرم ان بیرونِ ملک پروپیگنڈا فیکٹریوں کا پورا نیٹ ورک اب دنیا کے سامنے آشکار ہو چکا ہے۔ذرائع کے مطابق مختلف سیاسی بیانیے بھی بیرونِ ملک سے منظم طریقے سے چلائے جا رہے تھے، جن کا مقصد ملک میں انتشار اور انتشار پیدا کرنا تھا ۔
ماہرین سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت اور جھوٹ پھیلانے والے بھارتی نیٹ ورک کے مکمل طور پر بے نقاب ہونے کو ایک بڑی پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ تاہم اب اصل سوال یہ ہے کہ دشمن قوتوں کی اس خطرناک سازش کے بے نقاب ہونے کے بعد ہماراردعمل کیا ہے؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ دہشت گردی، خوارجی نظریات، باغیانہ روش، فتنۂ و فساد اور تخریبی کارروائیوں کے تدارک کے لیے ریاست کیا اقدامات کررہی ہے اور اسے مزید کیا کرنا چاہیے ؟ علاوہ ازیں ملک کی سیاسی جماعتوں، مذہبی تنظیموں اور بالخصوص علماء کرام کے کردار پر پوری قوم کی نگاہیں مرکوز ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام محب وطن طبقات بالخصوص دینی حلقے مصلحتوں کا شکار ہونے کی بجائے کھلے اور دوٹوک الفاظ میں دین اور جہاد کے نام پر پھیلائی جانے والی دہشت گردی کی مخالفت و مزاحمت کریں۔
ہمیں پڑوسی ممالک بالخصوص افغانستان کے بارے میں بھی خوش فہمیوں کی دنیا سے باہر آجانا چاہیے ۔ فی الواقع دہشت گردی، تخریب کاری، مداخلت اور بالواسطہ جنگ کا سلسلہ کوئی بھی ریاست برداشت نہیں کرسکتی اور نہ ہی ان مسائل کی موجودگی میں خیر سگالی پر مشتمل تعلقات ممکن ہوسکتے ہیں۔ سادہ اور عام فہم بات یہ ہے کہ مسلم ممالک کے درمیان تعلقات مفادات سے بڑھ کر باہمی اخوت، کلمہ طیبہ کی بنیاد پر مشترکہ مقاصدِ زندگی اور خیر خواہی کے نظریات پر مشمل ہونے چاہئیں جبکہ غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ تعلقات کی بنیاد مفادات سمیت مختلف حوالے بن سکتے ہیںاور باہمی مصالح کے تحت دوستانہ روابط کا شرعی و عقلی جواز بھی کسی شک کے بغیر موجود ہے تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق ایک مسلم ریاست کی حریف، مشرکانہ تہذیب کے نفاذ کے لیے سرگرم اور جارحانہ عزائم کی حامل ریاست کے ساتھ مشترکہ توسیع پسندانہ پالیسیوں کے تناظر میں اشتراکِ عمل کچھ اور ہی کہانی بیان کرتا ہے۔ نہایت المناک حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی طالبان خود کو حکومت پاکستان کی حکومت اور عوام کی توقعات سے کہیں زیادہ مضر اور خطرناک ثابت کر رہی ہے۔ پاکستان نے باربار کے مذاکرات اور گفت و شنید کے ذریعے اتمام حجت کے تقاضے پورے کر لیے ہیں۔ اب بھی اگر افغان انتظامیہ کی روش میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اور وہ پاکستان کے خلاف عالمی و علاقائی اسلام دشمن قوتوں کا آلہ کار اور پراکسی بننے پر اصرار کرتی ہے تو پاکستان کے پاس انتہائی اقدام اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ افغان حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور پاکستان میںدہشت گردی کی سرپرستی کی پالیسی سے اجتناب کرنا چاہیے۔

