پاکستانیوں کا بڑا فکری مسئلہ

ہماری قومی زندگی، سماج اور معاشرت میں پائے جانے والے امراض یا بڑے مسائل کی تعداد کم نہیں۔ کسی ایک بڑے مسئلے کی نشاندہی کرنا آسان نہیں۔ ایک زمانے میں جنرل ضیاء الحق نے ملک بھر سے دانشوروں، اسکالروں کی بڑی تعداد اسلام آباد میں جمع کر کے انہیں کئی گروپوں میں تقسیم کر دیا اور یہ ٹاسک دیا کہ ملک و قوم کو درپیش نمبر ون مسئلے کی نشاندہی کریں۔ دانشور حضرات دو تین دن تک لگے رہے، کئی سیشن ہوئے، ہر گروپ نے اپنی اپنی سفارشات پیش کیں اور بعد میں پتہ چلا کہ ان سب نے جن مسائل کی جانب توجہ دلائی، ان کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ جنرل ضیاء برسوں اس واقعے کو حوالے کے طور پر پیش کر کے اہل علم و دانش کا مذاق اڑاتے رہے کہ جو ایک بات پر متفق نہیں ہو سکتے، وہ قوم کی رہنمائی کیا کریں گے؟ جنرل ضیاء تو خیر ڈکٹیٹر تھے، ان کی تمام تر حکمت عملی یہی رہی کہ زیادہ سے زیادہ غبار پیدا کر دیا جائے اور اس بہانے چند ماہ کی مزید مہلت مل جائے، ورنہ اگر وہ سنجیدہ ہوتے تو پہلے سے موجود مسائل حل کرنے سے زیادہ اہم کام ان میں اضافہ نہ کرنے کا تھا۔ جنرل ضیاء ہی نے ذات برادری اور پیسے کی بنیاد پر غیر جماعتی سیاست کا فتنہ کھڑا کیا، جو آج اس قدر طاقتور ہو چکا ہے کہ سیاسی جماعتیں یرغمال بن چکی ہیں۔ خیر یہ الگ بحث ہے، ہم کسی اور طرف نکل جائیں گے۔

یہ بات لیکن اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ ہمارے ہاں مسائل اس قدر زیادہ ہیں اور ان میں سے بیشتر اتنے جینوئن ہیں کہ ان کی فہرست مرتب کی جائے تو وہ خاصی طویل ہو جائے گی۔ ایک اور مسئلہ یہ پیدا ہو گیا کہ اب حقیقی ایشوز پر بات کرنے والا بھی کوئی نہیں رہا۔ کسی بھی سنجیدہ فورم پر یہ بات زیر بحث نہیں آتی۔ ٹی وی ٹاک شوز کرنٹ افئیرز کے اسیر ہو چکے، روزمرہ کی بدلتی صورتحال پر پروگرام ہوتے ہیں، تجزیہ کار اپنی ذہنی صلاحیتیں اسی پر کھپاتے ہیں۔ فلاں حکمران نے یہ بات کیوں کی، فلاں اسکینڈل سچا ہے یا جھوٹا؟ فلاں سیاستدان نے فلاں بیان کیوں دیا، فلاں بات کیوں نہ کہی۔ اس سیاستدان نے وہ کیا، اسٹیبلشمنٹ کیا کر رہی ہے، کیا ہو رہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اس جیسے ان گنت سوالات پر روزانہ درجنوں پروگرام ہوتے، بیسیوں کالم لکھے جاتے، سینکڑوں چائے خانوں، ڈرائنگ روم محفلوں میں گفتگو ہوتی ہے۔ ہم جیسے عام اخبار نویس بھی اسی رجحان کی پیروی کرتے اور انہی رنگوں میں بھیگنا پسند کرتے ہیں۔ اہل دانش کی گفتگو مگر ان سطحی معاملات کے گرد نہیں گھومتی، وہ اصل بنیادی معاملات پر بات کرتے اور خرابیوں کی جڑ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں فیس بک میموری میں معروف ادیب، ماہر اقبالیت اور دانشور احمد جاوید کے ایک انٹرویو کے حوالے سے لکھی گئی یادداشت سامنے آئی تو بہت کچھ یاد آگیا۔ انہیں قدیم و جدید علوم سے انہیں استفادہ کا موقع ملا۔ مولانا ایوب دہلوی جیسے عبقری عالم دین اور متکلم سے انہیں دینی اصول و اسلوب سیکھنے کو ملے۔ حضرت مدنی کے ایک خلیفہ سے ان کی روحانی نسبت رہی ہے۔ شاعر ادیب سلیم احمد جیسے لیجنڈری ادیب اور دانشور سے برسوں ان کی نشستیں رہیں۔ دراصل یہ پروفیسر محمد حسن عسکری کا سکول آف تھاٹ تھا، جسے سلیم احمد نے قابل قدر اضافوں کے ساتھ آگے بڑھایا۔

احمد جاوید نے پاکستانی سماج کے انحطاط کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہا: ہمارا سب سے بڑا اجتماعی مرض یا ام الامراض یہ ہے کہ ہم گھٹیا لوگ بن کر رہ گئے ہیں۔ ذوق میں، فہم میں، ذہن میں، اخلاق میں۔ ہر معاملے میں ہم اوسط سے نیچے ہیں۔ یہ ہمارے انحطاط کا سب سے بڑا سبب ہے اور اسی سے ذہنی اور اخلاقی انحطاط پیدا ہوا۔ ہم بہت چھوٹے لوگ ہیں اور اس چھو ٹے پن کو دور کرنے کی خواہش بھی نہیں رکھتے، اپنے معمولی پن سے نکلنے کی کوئی طلب نہیں رکھتے۔ معمولی پن پیدا ہو جانا مرض ہے، مگر اس معمولی پن، گھٹیا پن پر راضی ہو جانا موت ہے۔

احمد جاوید سے سوال پوچھا گیا کہ ہمارے معاشرے میں قحط الرجال کیوں ہے، کوئی بڑا ادیب پیدا ہو رہا ہے، بڑا شاعر نہ بڑا عالم دین؟ دانشور کا جواب بڑا صاف اور قطعی تھا: بڑے لوگ پیدا نہ ہونے کا سبب وہی ہے کہ ہم مجموعی طور پر اوسط سے بھی نیچے درجے کی قوم بن چکے ہیں۔ جب تک ہم اپنی کمزوریوں کی ذمہ داری غیروں پر ڈالتے رہیں گے، اس وقت تک ہم ان کمزوریوں سے نکل نہیں سکتے۔ ہمارا پورا نظام تعلیم عمومی لوگ پیدا کرنے کی مشین ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہر تہذیب کا ایک ذہن ہوتا ہے جو اس کے نظام تعلیم سے تشکیل پاتا ہے۔ اگر کسی معاشرے یا سماج کا نظام تعلیم اس کے اپنے تصور علم سے مناسبت نہ رکھتا ہو اور مانگے تانگے پر مبنی ہو تو ظاہر ہے اس تعلیمی نظام سے اس تہذیب کے اجتماعی شعور کو تقویت نہیں ملے گی۔ آگے جا کر احمد جاوید صاحب نے ایک دلچسپ تھیسس پیش کیا ہے۔ کہتے ہیں: ہر تہذیب کا ایک اجتماعی شعور، اجتماعی قلب اور اجتماعی ارادہ ہوتا ہے۔ اپنے اجتماعی شعور کو سیراب کرنے کے لئے ہر تہذیب اپنا نظام علم بناتی ہے۔ اسی طرح تہذیب کا اجتماعی ارادہ اس کے مقاصد کو حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اب اگر کوئی تہذیب اپنی اوریجنل مراد، خواہش سے دستبردار ہو کر دوسروں کے مقاصد کو اپنا مقصد بنانے کا فیصلہ کر لے تو اس کا وہ اجتماعی ارادہ معطل ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں تخلیقی اعمال نہیں ہو سکتے، بڑے مقاصد حاصل کرنے والی اجتماعی محنت نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح تہذیب کا اجتماعی قلب اس تہذیب کی محبت، نفرت اور اس کے جذبات، احساسات کو ایک خاص ہیئت، رنگ اور حالت میں رکھتا ہے۔ ہر تہذیب اپنا نظام احساسات بھی رکھتی ہے۔ اگر تہذیب اپنے نظام احساسات سے خالی اور غیر مطمئن ہو جائے تو اس کا قلب دھڑکنا بند کر دیتا ہے۔ ان تینوں سطحوں پر اگر دیکھیں تو ہم بانجھ پن کا شکار ہو چکے ہیں۔اب ہم یہ کہنے کے لائق نہیں رہے کہ یہ رہا ہماری تہذیب کا اجتماعی ذہن اور یہ رہے اس کے افکار و اقدار، یہ رہی ہماری منزل اور یہ رہی ہماری پسند و ناپسند۔ جس تہذیب کے اندر اس کی آبیاری، اس کی نگہداشت، حفاظت کا نظام ختم ہو جائے، اس تہذیب کو باطنی قوت فراہم کرنے والا نظام تعلیم، نظام اخلاق، نظام انصاف وغیرہ ختم ہو جائے تو پھر وہ تہذیب بڑا آدمی پیدا کرنے سے معذور ہو جاتی ہے۔ بڑا آدمی اپنی تہذیب کے ذہن اور قلب کا مظہر بن جانے والے کو کہتے ہیں۔ جس تہذیب کے اندر خلا پیدا ہو جائے گا، وہ پھر خالی لوگ ہی پیدا کرے گی۔ اس لئے ہم اس بحران میں مبتلا ہیں۔

احمد جاوید صاحب کی اس فکرافروز گفتگو سے ایک اہم نکتہ سامنے یہ آیا کہ ہم بحیثیت مجموعی ایک اوسط یا اوسط سے کم درجے کی قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ قوموں کی تاریخ میں ایسا ہوجاتا ہے کہ مختلف اسباب کی بنا پر وہ گروہ، کمیونٹی یا قوم اپنی اعلی سطح سے زوال پذیر ہو کر نیچے چلا جاتا ہے۔ یہ ایک المیہ، ایک خامی، ایک تشویشناک مرحلہ ہے۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہوتی ہے کہ وہ گروہ، کمیونٹی یا قوم اس ایوریج مائنڈ سیٹ اور اپنی اوسط درجے کی کارکردگی پر مطمئن اور آسودہ ہو کر بیٹھی رہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آنے والے برس، عشرے بھی اس میں بہتری نہیں لا سکیں گے۔ ہم اپنے ہاں بھی ایسی ہی چیزیں دیکھ رہے ہیں۔ پوری قوم مجموعی طور پر ایک شدید قسم کے زوال کا شکار ہے۔ مختلف محکموں، اداروں میں مسائل آ رہے ہیں۔ ہماری سیاست زوال زدہ ہوئی ہے، عدلیہ، انتظامیہ، پولیس وغیرہ بھی جبکہ دوسری طرف کھیلوں سے لے کر ادب، فلم، ٹی وی، فکری علمی کاموں تک میں مسلسل زوال ہے۔ بیس تیس سال پہلے ہی چلے جائیں تو مختلف شعبوں میں ہمیں بہت سے لیجنڈز نظر آ جاتے تھے۔ بڑے بڑے نام جو عالمی سطح پر بھی مانے جاتے تھے۔ اب جو صورتحال ہے، وہ سب جانتے ہیں۔

احمد جاوید صاحب نے ایک اور اہم نکتہ بیان کیا، اس سے بھی مجھے اتفاق ہے بلکہ قارئین بھی یقینا تائید کریں گے۔ وہ یہ کہ ہمارا نظام تعلیم ایک ایسی ٹکسال، ایسی مشینری بن چکی ہے جس سے صرف اوسط درجے کے لوگ ہی تیار ہو کر باہر آ رہے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نوے کے عشرے کے اوائل تک جب ہم میٹرک، ایف ایس سی، بی ایس سی کے امتحانات دیتے تو امتحان کا نتیجہ آنے میں دو ڈھائی ماہ لگتے تھے۔ یہی وہ وقت ہوتا جس میں ہم لڑکے رسالے، ناول، کتابیں وغیرہ پڑھتے، یعنی غیر نصابی مطالعہ۔ میری زندگی کی بہت سی اہم کتابیں تب پڑھی گئیں۔ اب پچھلے دس پندرہ برسوں سے یہ ہو رہا ہے کہ بچے امتحان دیتے ہی فوراً اگلے سال کی اکیڈمی میں داخلہ لے لیتے ہیں۔ میٹرک کے امتحانات کے بعد اگلے ہفتے ہی سے فرسٹ ائیر کی تیاری شروع کر دی ۔ یوں ان کے پاس غیر نصابی مطالعہ کے لئے کچھ وقت ہی نہیں بچتا۔ہمارا امتحانی نظام ہی ایسے بن گیا ہے کہ بچے صرف نمبر لینے کی مشین بن گئے ہیں، نوے فیصد نمبروں کی بھی اہمیت نہیں رہ گئی، ترانوے، چورانوے فیصد تک میرٹ چلا گیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہمارے ٹاپ کرنے والے بچے بھی ہر قسم کے مطالعہ، جنرل نالج اور کامن سینس سے محروم صرف رٹو طوطے اور نمبر مشین بن گئے ہیں۔ وہ میرٹ بنا لیتے ہیں، آگے تعلیم بھی حاصل کر لیتے ہیں مگر چونکہ ان کا مطالعہ نہیں، ذہنی کینوس وسیع نہیں، شعور نہیں، اس لئے وہ صرف نوکری پیشہ سٹف بن کر رہ جاتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ اسے دور کرنے کی کوئی تدبیر بھی نہیں ہو رہی۔