”سابق وزیر اعظم عمران خان کی روحانی پیرنی بشری بی بی تھیں۔ بشری بی بی کا عمران خان حکومت پر گہرا ثرورسوخ تھا۔ وہ بڑے بڑے فیصلوں پر اثرانداز ہوتی تھیں۔” یہ مشہور برطانوی جریدے دی اکانومسٹ کی رپورٹ کا حاصل وصول ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ عمران خان اور بشری بی بی کا ”روحانی تعلق” کس نوعیت کا تھا اور اس سچائی کو تسلیم کرتے ہوئے کہ دنیا میں روحانیت کے نام پر بہت سے بہروپیے بھی پھر رہے ہوتے ہیں، روحانیت اور پیری مریدی کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال پر بھی کلام کی گنجائش ہے تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انسان کتنے ہی بڑے منصب و مرتبے پر پہنچ جائے، روحانیت کی پیاس اسے کسی نہ کسی گھاٹ پر ضرور اترنے پر مجبور کرتی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ بہت سے لوگ ہمیں دقیانوسی، تنگ نظری، اجڈ اور قدامت پرستی کا طعنہ دیں گے کہ سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں آپ کیسے اور کیوں پتھر کے دور کی باتیں کرتے ہیں؟ سائنس کا ڈنکا ہے چہار دانگِ عالم میں اور آپ فقط اللہ ھو، اللہ ھو میں لگے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں ملک کے ایک معروف دانشور نے لکھا کہ مجھے حیرت ہے اس سائنس کے دور میں بھی لوگ ”مرنے کے بعد کیا ہوگا؟” جیسی باتیں کرتے ہیں اور ”پیرکاملۖ” جیسے ڈرامے شوق سے دیکھتے ہیں، حالانکہ یہ سب ”دقیانوسی” کی علامات ہیں۔ دنیا اس سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں انسان چاہے جتنا بھی ماڈرن ہوجائے، جتنا بھی ترقی یافتہ ہوجائے وہ روحانیت سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ روحانیت سے فرار ممکن ہی نہیں۔ آپ غور سے دیکھیں اور باریک بینی سے جائزہ لیں۔ دنیائے عیسائیت سے تعلق رکھنے والا انسان ہو یا یہودیت سے۔ بدھ مت ہو یا آتش پرست، ہندو مت ہو یا وثنیت، مسلمان ہو یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والا انسان۔ دنیا میں بسنے والے ہر بشر کو کسی نہ کسی قدم پر روحانیت کی ضرورت لازماً محسوس ہوتی ہے۔ آپ ہی بتائیں دنیا کا واحد سپر پاور ملک امریکا کا صدر کیوں چرچ جاتا ہے؟ دنیوی اور مادی اعتبار سے اسے کس چیز کی کمی ہے؟ دنیا کی سب سے بڑے جمہوری ملک بھارت کا وزیراعظم کیوں مندر جاتا ہے؟ اسرائیل کا وزیراعظم نیتن یاہو ہر اتوار کو سینی گاگ کیوں جاتا ہے؟ صدر پاکستان آصف علی زرداری ایوان صدر میں بیٹھ کر پیر سے کیوں پھونکیں لگواتے ہیں۔ کیا دم درود زیادہ طاقتور ہے؟ سابق صدر پرویز مشرف نے جب لندن سے پاکستان آنے کا حتمی فیصلہ تھا تو اپنی بیوی کے ساتھ نقشبندی سلسلے کے شیخ محمد ناظم کی خانقاہ پر بھی گئے تھے۔ ان سے اپنے سیاسی کیریئر کے لیے خصوصی دعا کروائی تھی۔ شیخ ناظم نے ان کے حق میں دعا کی اور ان کے بازور پر تعویذ بھی باندھا تھا۔ پاکستانی کے تمام حکمرانوں کا کسی نہ کسی پیر، بابے، درگاہ، خانقاہ اور روحانی مراکز سے تعلق رہا ہے۔ آصف علی زرداری جس وقت قید میں تھے، اس وقت انہوں نے مطالعہ شروع کیا۔ انہیں تصوف کی چند کتابیں میسر آئیں۔ ان کتابوں میں بزرگوں کے احوال پڑھ کر انہوں نے کسی سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔ کچھ لوگوں نے ان کی ملاقات میانوالی کے نواب جہانگیر ابراہیم المعروف ”ابرا” سے کرائی۔ ”ابرا” نے آصف علی زرداری کے سامنے چند پیش گوئیاں کیں، جن میں سے ایک دو بعد میں سچ بھی ثابت ہوئیں۔
1993ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو انتخابات کی مہم پر تھیں۔ فیصل آباد میں ان کی ملاقات ایک نجومی سے کرائی گئی۔ نجومی نے زائچہ بنایا اور محترمہ سے کہا آپ یہ انتخابات جیت جائیں گی، مگر یہ اقتدار صرف ڈھائی سال تک ہی چل پائے گا اور واقعی ایسا ہی ہوا۔ وہ تصویر بھی بہت سے لوگوں کے پاس محفوظ ہے، جس میں محترمہ پیرتنکہ کے قریب بیٹھی ہوئی ہیں۔ 1996ء میں محترمہ اپنے اقتدار میں دوام کے لیے ”پیرتنکہ” کی درگاہ پر گئی تھیں۔ پیرتنکہ نے ان کی کمر پر چھڑیاں مارکر انہیں لمبے اقتدار کی بشارت دی تھی۔
میاں نواز شریف کے بارے میں بتایا جاتا ہے، وہ بھی فیصل آباد کی ایک روحانی شخصیت سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا نام سالار تھا اور سالار ہمیشہ خاموش رہتے تھے۔ ایک مرتبہ میاں نواز شریف کو یہاں کا دورہ کرایا گیا۔ ”سالار” نے ان کے لیے خصوصی دُعا کی۔ میاں صاحب ایک طویل عرصے تک ان کے پاس حاضری دیتے رہے۔
جنرل ضیاء الحق مرحوم کے بارے میں جاننے والے بتاتے ہیں ان کا علماء ومشائخ اور دین داروں کے ساتھ بہت گہرا ربط رہتا تھا۔ وہ اکثر ان کے پاس حاضری دیتے تھے۔ ان میں مشہور حکیم فاضل ظہیر تھے۔ یہ لاہور میں رہتے تھے۔ ان کا تعلق صابریہ سلسلے سے تھا۔ حکیم فاضل نے انہیں اس وقت اقتدار کے بارے میں بتایا تھا جب ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے 17اگست 1988ء کی صبح حکیم صاحب نے جنرل ضیاء الحق کو بہاولپور کے سفر سے روکنے کے لیے ایوان صدر فون کیا، مگر ان کی صدر سے بات نہ ہو سکی۔ معاملہ چونکہ حساس تھا، اس لیے حکیم صاحب نے ایوان صدر کے کسی دوسرے شخص کو راز نہ بتایا، مگر وہ بہاولپور چھائونی فون کرتے رہے اور صدر ضیاء الحق سے ان کا رابطہ نہ ہو سکا۔ شام کو جنرل ضیاء الحق کے جہاز کے ساتھ حادثہ پیش آیا۔ اسی طرح غلام محمد نے اپنا تعلق ”دیول شریف” سے رکھا تھا۔ تقسیم سے قبل غلام محمد ان کے مزار پر حاضری دیا کرتے تھے۔ وہاں پر دُعائیں کروایا کرتے تھے۔
جن لوگوں نے روحانیت، مذہبیت کو دیس نکالا دیا ہے، وہ اب پریشان ہیں۔ اگر مادّیت اور دولت ہی سب کچھ ہے تو پھر دنیا کی سب سے بڑی گیس کمپنی کا مالک پاگل ہوکر نہ مرتا۔ گندم کا سب سے بڑا سٹے باز، مفلس، نادار اور غریب ہوکر دنیا سے نہ جاتا۔ نیویارک اسٹاک ایکسچینج کا مالک جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ کر آہیں بھر بھر کے نہ مرتا۔ دنیا کا مضبوط ترین ملک امریکا کا وزیر پریشان ہوکر ایسے کام نہ کرتا جس کی بناء پر وہ ذلیل ہوکر گرفتار ہوا اور کال کوٹھڑی میں موت کا انتظار کرتا رہا۔ وال اسٹریٹ کا معاشی بھیڑیا کہلانے والا بزنس مین زندگی کے ہاتھوں زچ ہوکر خودکشی نہ کرتا۔ دنیا کی سب سے بڑی اجارہ داری کمپنی کا مالک اور نیویارک بینک کا صدر پنکھے سے جھول کر نہ مرتا۔ دنیا کے سب سے بڑی یوٹیلیٹی کمپنی کا مالک قلاش ہوکر موت کا انتظار نہ کرتا۔ اگر مادیت ہی سب کچھ ہوتی تو پھر اسکینڈے نیوین ممالک کے لوگ جن کو دنیا بھر کی تمام سہولتیں اور عیاشیاں میسر ہوتی ہیں، اس قدر پریشان نہ ہوتے۔ ڈپریشن کے مریض نہ بنتے۔ خودکشیاں نہ کرتے۔ انسان کی فطرت ہے جب وہ پریشان ہوتا ہے تو اسے کوئی نہ کوئی سہارا چاہیے ہوتا ہے۔ مادیت، دنیویت، آسائش سے تنگ لوگوں کو روحانیت ہی چاہیے ہوتی ہے۔ بحکم قرآن دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر میں ہی ہے۔ روحانیت کی لذت پانے والے کے سامنے دنیا بھر کی دولتیں، سہولتیں، آسائشیں سب ہیچ ہوتی ہیں۔

