استنبول مذاکرات: پاکستان کے سات اہم مطالبات سامنے آگئے

ترکیہ کے دوسرے بڑے شہر استنبول میں جاری مذاکرات کے دوران پاکستان کی جانب سے افغان وفد کو واضح طور پر سات اہم مطالبات پیش کیے گئے ہیں جن پر باقاعدہ بحث جاری ہے۔

پاکستان نے کہا ہے کہ دہشت گردوں اور مسلح گروہوں کے ٹھکانوں کے خاتمے کے لیے فوری، واضح اور قابلِ عمل اقدامات کیے جائیں تاکہ سرحد پار سے ہونے والی خطرناک سرگرمیوں کا تدارک ممکن ہو۔ اس کے ساتھ ہی اسلام آباد نے زور دیا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف کسی بھی نوعیت کی نظریاتی یا عملی سرگرمیوں اور حملوں کے لیے استعمال ہونے سے روکا جائے۔

مذاکرات میں یہ مطالبہ بھی سامنے رکھا گیا کہ تحریکِ طالبانِ پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ علیحدگی پسند عناصر کے خلاف واضح نوعیت کی کارروائیاں کی جائیں اور دہشت گرد حملوں کے ماسٹر مائنڈز اور منصوبہ سازوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اگر افغان طالبان مطلوبہ کارروائی انجام دینے سے قاصر رہیں تو پاکستان نے مضبوط موقف اختیار کیا کہ صورتِ حال کی نزاکت کے پیشِ نظر اسلام آباد کو کارروائی کی اجازت دی جانی چاہیے۔

دونوں فریقین کے درمیان اطلاعاتی معلومات کے تبادلے اور ہم آہنگی کو مستحکم کرنے پر بھی زور دیا گیا تاکہ افغانستان میں پاکستان مخالف عناصر کی سرگرمیوں کا مؤثر سدِّباب ممکن ہو۔ اس کے علاوہ ڈیورنڈ لائن پر سکیورٹی کے واضح اقدامات یقینی بنانے اور سرحد کی مشترکہ حفاظت کے لیے عملی میکانزم وضع کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

پاکستان نے یہ بھی کہا کہ افغانستان میں مشکوک گروہوں کو محض دوسری جگہ منتقل کرنے کی بجائے ان کی سرکوبی اور سرگرمیوں کی مؤثر روک تھام کو اولین ترجیح دی جائے اور ان مطالبات کے نفاذ کے لیے باریک بینی سے مؤثر اور عملی اقدامات کیے جائیں تا کہ فوری قابلِ پیمائش نتائج سامنے آئیں۔ مذاکرات ابھی جاری ہیں اور دونوں جانب سے اس فریم ورک کی نفاذ پذیری اور طریقۂ کار پر تفصیلی بات چیت ہو رہی ہے۔