غزہ/لندن/نیویارک/قاہرہ/واشنگٹن:یورومیڈیٹری ہیومن رائٹس مانیٹر کے مشاہدے نے انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیل ایک منظم اور ادارہ جاتی پالیسی کے تحت غزہ میں اپنے دو سالہ فوجی حملوں کے دوران کیے گئے اجتماعی قتل عام، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے شواہد کو مٹانے میں مصروف ہے۔
یہ سلسلہ زمین پر اور انتظامی اقدامات کے ذریعے جاری ہے جس میں بین الاقوامی صحافیوں اور آزاد تحقیقاتی کمیٹیوں کو داخلے سے روکنا شامل ہے تاکہ کسی بھی قانونی یا میدانی تحقیق کو روک کر اسرائیل کی مجرمانہ ذمہ داری چھپائی جاسکے۔
یورومیڈیٹری کے بیان کے مطابق قابض اسرائیل کی سپریم کورٹ نے حال ہی میں حکومت کو مزید وقت دیا ہے تاکہ آزاد صحافیوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی جائے جو اسرائیلی ریاست کے اندرونی ادارہ جاتی یکجہتی اور مجرمانہ اقدامات کی حفاظت کو ظاہر کرتا ہے۔
عدالت اس پالیسی کو قانونی تحفظ فراہم کرتی ہے تاکہ شفافیت کو روکا جا سکے اور غزہ میں کیے گئے جرائم کے شواہد مٹائے جا سکیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بین الاقوامی صحافیوں اور تحقیق کاروں کی داخلے کی پابندی قابض اسرائیل کی ایک مستقل اور مربوط پالیسی کا حصہ ہے جس کے ذریعے قابض فوج، سیکورٹی اور عدلیہ مل کر جرائم کو عالمی نگرانی سے باہر رکھتے ہیں اور کسی بھی آزاد تحقیق یا جوابدہی کو روک دیتے ہیں۔
اس پابندی کی بدولت دنیا حقیقت تک رسائی سے محروم رہتی ہے کہ غزہ میں کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہے۔ قابض اسرائیل نے مکمل میڈیا محاصرہ نافذ کر رکھا ہے تاکہ ہر قسم کی آزاد رپورٹنگ یا توثیق کو روکا جا سکے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 10 اکتوبر سے جنگ بندی کے بعد بھی قابض اسرائیل نے بین الاقوامی صحافیوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کیا، سوائے چند محدود دوروں کے جو فوجی نگرانی میں منعقد کیے گئے۔
اس طرح دکھائی جانے والے تمام مناظر فوجی کنٹرول میں ہیں اور آزاد بین الاقوامی صحافت کے معیارات سے خالی ہیں۔یورومیڈیٹری نے کہا کہ 254 فلسطینی صحافیوں کے قتل اور بین الاقوامی صحافیوں کو داخلے سے روکنا ایک منظم اسرائیلی پالیسی ہے جس کا مقصد حقیقت چھپانا اور میڈیا پر کنٹرول قائم کرنا ہے۔
اس کے ذریعے نہ صرف معلومات کو محدود کیا جا رہا ہے بلکہ متاثرہ افراد کو بھی اپنی کہانی دنیا تک پہنچانے سے محروم کیا جا رہا ہے اور فلسطینی المیے کو مجرم کے زاویے سے ایک واحد داستان میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
قابض اسرائیل کی پالیسی میں بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹیوں، بین الاقوامی جرائم کی تحقیقات اور عدالتِ بین الاقوامی کی ٹیموں کو داخلے سے روکنا شامل ہے تاکہ شواہد کو جان بوجھ کر تباہ کیا جائے اور عالمی انصاف کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی جائے۔
اسرائیلی حکام فرانزک اور انسانیاتی ماہرین کو بھی داخلے سے روک رہے ہیں تاکہ قتل عام کے مناظر، انسانی باقیات اور حیاتیاتی و عدالتی شواہد کی جانچ نہ ہو سکے۔ اس پابندی سے نہ صرف شواہد کو ضائع کیا جا رہا ہے بلکہ متاثرین کو اپنے رشتہ داروں کی قسمت معلوم کرنے کا حق بھی نہیں دیا جا رہا۔
یورومیڈیٹری کے مطابق قابض اسرائیل نے سیکڑوں لاشوں کی شناخت اور دفن کی معلومات دینے سے انکار کر رکھا ہے۔
تقریباً 195 لاشیں اسرائیل کی جانب سے فراہم کی گئی ہیں لیکن کسی کی شناخت یا موت کے حالات معلوم نہیں، جن پر تشدد اور قتل کے واضح نشان ہیں جو قانون کے باہر اعدام اور غیر انسانی سلوک کو ظاہر کرتے ہیں، خاص طور پر فلسطینی اسیران کے ساتھ۔
یہ پابندی فلسطینی خاندانوں کے لیے اجتماعی سزا کی ایک شکل ہے جو انہیں اپنے پیاروں کے حق میں انسانی حقوق سے محروم کرتی ہے اور دفن کرنے کا حق چھین لیتی ہے۔قابض اسرائیل نے متعدد شہروں، دیہات، کیمپوں اور رہائشی بلاکس کو مکمل طور پر مٹا دیا ہے جہاں بڑے پیمانے پر قتل عام ہوئے، زمین کی اوپری سطح ہٹا کر ملبہ تباہ کیا اور اسے غیر معلوم مقامات پر منتقل کیا تاکہ ممکنہ شواہد مٹائے جائیں۔
اسرائیل غزہ کے تقریباً 50 فیصد علاقے پر غیر قانونی فوجی کنٹرول رکھتا ہے، زمین کی شکل و صورت بدل رہا ہے، بمباری، دھماکوں اور تخریب کے ذریعے نئے فوجی مراکز قائم کر رہا ہے اور اس عمل کے ذریعے جرائم کے شواہد مٹائے جا رہے ہیں۔
فوجی تعیناتیاں اور خطرناک علاقوں کی نشاندہی کے بہانے نصف غزہ کو ایک ممنوعہ زون میں تبدیل کر دیا گیا ہے جس سے صحافیوں، تحقیق کاروں اور انسانی امدادی ٹیموں کی رسائی ناممکن ہے اور قتل عام و وسیع تباہی کی آزادانہ دستاویزی رپورٹنگ روکی جا رہی ہے۔
یورومیڈیٹری نے کہا کہ یہ عمل بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے جو جرائم کے مقامات کو محفوظ رکھنے اور آزاد تحقیقات مکمل ہونے تک شواہد کی حفاظت کا تقاضا کرتا ہے اور یہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے بھی منافی ہے جو اسرائیل کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ شواہد کو محفوظ کرے اور نسل کشی کو روکنے کے اقدامات کرے۔
یورومیڈیٹری نے عالمی برادری اور اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر بین الاقوامی صحافیوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دیں تاکہ شفافیت اور حقائق سامنے آئیں اور فرانزک ٹیمیں شواہد جمع کر سکیں تاکہ تحقیقات موثر اور بین الاقوامی جوابدہی ممکن ہو۔
دوسری جانب مرکزاطلاعات فلسطین کو موصول ہونے والی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق قابض اسرائیل نے فلسطینی سرزمین پر قبضے اور نوآبادیاتی توسیع کے اپنے گھناؤنے منصوبوں کو مزید تیز کر دیا ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صہیونی حکومت بالخصوص وادی اردن اور القدس کے گردونواح میں زمینوں پر قبضے کی نئی لہر چلا رہی ہے جس کا مقصد مغربی کنارے میں ایک نیا استعماری حقیقت مسلط کرنا ہے۔
قومی دفتر برائے دفاع اراضی و مزاحمتِ آباد کاری کی ہفتہ وار رپورٹ میں بتایا گیا کہ گذشتہ ہفتے قابض اسرائیل نے مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں 248 نئی نوآبادیاتی یونٹس کی تعمیر کے منصوبے پر غور کیا۔ یہ منصوبے چھ مختلف نوآبادیاتی خاکوں پر مشتمل ہیں جن پر چار بستیوں میں تیزی سے عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔
ان میں سب سے نمایاں روتیم نوآبادی ہے جو شمالی وادی اردن میں واقع ہے جہاں 102 یونٹس تعمیر کیے جا رہے ہیں جبکہ ایلی بستی میں 138 یونٹس اور گیوعات زئیف اور شیلو میں بھی اضافی یونٹس کی منظوری دی گئی ہے۔
قابض اسرائیلی فوج نے نابلس گورنری کے دیہات قریوت، مشرقی اللبن اور الساویہ کی 70 دونم سے زائد زمین پر فوجی احکامات کے ذریعے قبضے کا اعلان کیا ہے، تاکہ ایلی نوآبادی کے ارد گرد ایک نام نہاد ”حفاظتی زون” قائم کیا جا سکے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ قابض اسرائیل کے ماتحت سول انتظامیہ کا نام نہاد ”اعلیٰ منصوبہ بندی کونسل” نومبر 2024ء سے مسلسل ہفتہ وار اجلاس منعقد کر رہی ہے جس میں نئی نوآبادیاتی تعمیرات کی منظوری دی جاتی ہے تاکہ توسیع کی رفتار کو معمول کی حیثیت دی جا سکے اور عالمی سطح پر توجہ کم کی جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق قابض اسرائیل نے رواں سال کے آغاز سے اب تک 26 ہزار سے زیادہ نوآبادیاتی یونٹس کی منظوری دی ہے، جو نوآبادیاتی پھیلاؤ کی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ ہے۔
دریں اثناء غزہ میں دوسال کے دوران اسرائیلی جارحیت کے باعث سینکڑوں عمارتوں کو ملیا میٹ کر دیا گیا، غزہ کی پٹی میں 61 ملین ٹن سے زیادہ ملبہ موجود ہے جس پر اقوام متحدہ کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق اقوام متحدہ کے سیٹلائٹ تجزیہ پروگرام نے اطلاع دی ہے کہ 8 جولائی 2025ء تک جنگ نے فلسطینی پٹی میں مختلف اقسام کی تقریباً 193,000 عمارتوں کو تباہ کردیا، یہ اعداد و شمار ان 78 فیصد عمارتوں کے برابرہیں جو 7 اکتوبر 2023ء کو جنگ شروع ہونے سے پہلے موجود تھیں۔
رپورٹس کے مطابق 22 اور 23 ستمبر کو جمع کی گئی تصاویر کی بنیاد پر اقوام متحدہ کے ادارے نے اندازہ لگایا کہ صرف غزہ سٹی میں 83 فیصد عمارتیں مکمل تباہ یا شدید نقصان کا شکار ہو چکی ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ فلسطینی پٹی میں ملبے کی مقدار 61.5 ملین ٹن ہے۔
یہ وزن نیویارک کی مشہور ایمپائرا سٹیٹ بلڈنگ کے وزن کے تقریباً 170 گنا یا پیرس کے ایفل ٹاور کے وزن کے 6,000 گنا کے برابر ہے۔اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے مطابق ملبہ کا دو تہائی حصہ جنگ کے پہلے پانچ مہینوں کے دوران فوجی کارروائیوں کا نتیجہ تھا تاہم جنگ بندی سے پہلے کے مہینوں میں بھی عمارتوں کی تباہی میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
رپورٹس کے مطابق اپریل اور جولائی 2025ء کے درمیان تقریباً 8 ملین ٹن نقصان اور تباہی ریکارڈ کی گئی۔ زیادہ تر جنوبی غزہ کی پٹی میں رفح اور خان یونس کے درمیان عمارتوں کو تباہ کیا گیا۔
علاوہ ازیںامریکی فوج نے گذشتہ چند دنوں کے دوران غزہ پر ڈرون طیارے روانہ کیے ہیں تاکہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کی تعمیل کی نگرانی کر سکیں جو 10 اکتوبر 2025ء سے نافذ العمل ہے۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے قابض اسرائیل اور امریکی فوجی حکام کے حوالے سے رپورٹ دی کہ یہ ڈرون طیارے غزہ میں میدان میں ہونے والی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں اور ان کا مقصد امریکا کی طرف سے قائم کردہ نئے سول و فوجی رابطہ مرکز کی مدد کرنا ہے جسے پچھلے ہفتے نگرانی کے لیے قائم کیاگیا۔
رپورٹ کے مطابق امریکی جاسوسی کے یہ عمل واشنگٹن کی اس خواہش کو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ غزہ میں ہونے والے حالات کی آزادانہ جانچ پڑتال کر سکے۔
اخبار نے بتایا کہ امریکی وزارت خارجہ جو جنگ بندی کی نگرانی کی کوششوں کی سربراہی کرتی ہے نے ڈرون طیاروں کے بارے میں سوالات کے جواب نہیں دیے اور اسرائیلی فوج نے بھی اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ادھرغزہ میں قابض اسرائیل نے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزی کرتے ہوئے شہریوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں خان یونس کے مشرقی حصے میں ایک گاڑی پر حملہ اور البریج کیمپ کے مشرق میں فائرنگ سے متعدد شہری زخمی ہو گئے۔
مقامی ذرائع کے مطابق خان یونس کے مشرقی علاقے بنی سہیلہ میں ابو طعیمہ خاندان کی ایک گاڑی پر قابض اسرائیل کے ڈرون نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں کئی افراد زخمی ہوئے۔اسی سلسلے میں البریج کیمپ کے مشرق میں ایک شہری کو قابض اسرائیل کی فوج نے فائرنگ کر کے زخمی کر دیا۔
قابض اسرائیل کی افواج نے تین ماہی گیروں کو گرفتار کیا اور غزہ کے ساحل پر ان کی کشتیوں کو تباہ کردیاجبکہ مشرقی غزہ کے متعدد علاقوں میں توپخانے سے حملے، فائرنگ اور مکانات کی تباہی جاری رکھی جو جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا تسلسل ہیں۔
قابض اسرائیل کی جنگی کشتیوں نے غزہ کے سمندر میں فائرنگ بھی کی۔اسی طرح شمالی غزہ کے مشرقی علاقے جبالیہ کیمپ میں قابض اسرائیل کی گاڑیوں نے فائرنگ کی جبکہ مشرقی دیر البلاح میں توپخانے سے حملے کیے گئے۔
قابض اسرائیل کی افواج نے مشرقی الشجاعیہ میں شہری مکانات کو بھی تباہ کیا۔ہفتے کے روز مغربی کنارے کے شہروں نابلس اور الخلیل میں زیتون کے موسم کے دوران فلسطینی کسانوں پر حملے کیے گیے اور انہیں اپنے کھیتوں میں جانے سے روک دیاگیا۔
قابض اسرائیل نے 10 اکتوبر 2025ء سے شروع ہونے والی جنگ بندی کو متعدد بار پامال کیا جس کے نتیجے میں 93 شہری شہید اور 324 سے زائد زخمی ہوئے۔
دوسری جانب فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے عالمی برادری سے اسرائیل پر جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کیلئے دبائو ڈالنے کا مطالبہ کردیا۔
عرب میڈیا کے مطابق حماس ترجمان حازم قاسم نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، جنگ بندی کے بعد سے اب تک 90 فلسطینیوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی خلاف ورزیوں میں رفح بارڈر کی بندش اور امداد کی فراہمی روکنے کی کوششیں شامل ہیں۔حماس نے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم نہ کرنے کے امریکی موقف کو سراہا ہے۔
ترجمان حازم قاسم نے کہا کہ غزہ امن معاہدے کی کامیابی اور اسکے نفاذ کو یقینی بنانے کیلئے حماس پرعزم ہے۔ حماس کو غزہ امن معاہدے کیلئے مصر، قطر اور ترکیے سے واضح ضمانتیں موصول ہوئی ہیں، امریکا کی جانب سے بھی اسکی براہِ راست تصدیق کی گئی۔
حماس ترجمان نے مزید کہاکہ امریکا کا مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم نہ کرنے کا موقف ایک مثبت قدم ہے۔حماس ترجمان کے مطابق انہوں نے زندہ یرغمالیوں اور متعدد لاشیں اسرائیل کے حوالے کرکے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کیا ۔
مصر میں جلاوطن کیے گئے فلسطینی قیدیوں کو آباد کرنے کیلئے جن ممالک پر غور کیا جا رہا ہے ان میں قطر، ترکیہ اور ملائیشیا کے علاوہ پاکستان بھی شامل ہے۔
غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی ثالثی سے ہونے والے جنگ بندی معاہدے کے بعد جو 10 اکتوبر سے نافذ العمل ہے، حماس نے تقریباً 2 ہزار فلسطینی قیدیوں کے بدلے تمام 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا تھا۔
ان میں سے زیادہ تر قیدی غزہ اور مغربی کنارے واپس چلے گئے تاہم 154 فلسطینی سابق قیدیوں کو جلاوطن کر کے بسوں کے ذریعے مصر بھیج دیا گیا جہاں حکام نے انہیں ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں رکھا ہوا ہے جہاں سے وہ اجازت کے بغیر باہر نہیں نکل سکیں گے۔
قاہرہ میں موجود یہ تمام افراد اسرائیلی فوجی عدالتوں سے قتل اور مزاحمتی تنظیموں کی رکنیت رکھنے کے الزامات میں عمر قید کی سزا پاچکے ہیں تاہم، اقوام متحدہ کے ماہرین متعدد مواقع پر ان فیصلوں کو غیر منصفانہ قرار دے چکے ہیں جنہیں مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے خلاف دہائیوں سے جاری غیر عادلانہ مقدمات کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
ادھراقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کے مشرقِ وسطیٰ و شمالی افریقہ کے علاقائی ڈائریکٹر ایڈوارڈ بیگ بیدیر نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں تعلیم کا نظام تباہ ہونے کے باعث ایک پوری نسل ضائع ہونے کے دہانے پر ہے۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ تیسرا سال ہے جب بچے اسکول نہیں جا پا رہے۔ اگر فروری تک تعلیمی نظام بحال نہ کیا گیا تو ہم ایک کھوئی ہوئی نسل کے سامنے ہوں گے۔ان کے مطابق قابض اسرائیلی جارحیت سے غزہ میں 85 فیصد تعلیمی ادارے تباہ ہو چکے ہیں اور باقی بیشتر کو بے گھر شہریوں کے پناہ مراکز کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت اساتذہ خود اپنے گھروں کے لیے پانی اور خوراک کی فراہمی میں مصروف ہیں، ایسے میں تعلیم جاری رکھنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔
دوسری جانب فلسطینی وزارتِ صحت نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ 48 گھنٹوں میں قابض اسرائیل کی غزہ پر جاری جارحیت کے نتیجے میں 19 افراد شہید ہوئے ہیں جن میں سے 4 کو براہِ راست قابض اسرائیل نے نشانہ بنایا اور 15 کو ملبے سے نکالا گیا جبکہ 7 افراد زخمی ہوئے ہیں اور انہیں غزہ کے ہسپتالوں میں داخل کیا گیا۔
وزارت نے بیان میں کہا کہ ابھی بھی ہزاروں شہداء ملبے کے نیچے اور سڑکوں پر پھنسے ہوئے ہیں۔ ایمبولینس اور سول ڈیفنس کی ٹیمیں ابھی تک ان تک رسائی حاصل نہیں کر پائی ہیں۔بیان کے مطابق 7 اکتوبرہ2023ء سے اب تک قابض اسرائیل کے حملوں میں شہداء کی تعداد 68,519 اور زخمیوں کی تعداد 170,382 تک پہنچ چکی ہے۔

