دوسروں کے لیے جینے والے لوگ

مجھے دو طرح کے لوگوں پر ہمیشہ رشک آیا ہے؛ اہلِ علم جنہوں نے اپنی زندگی علم کی خاطر وقف کر دی۔ زندگی کے ماہ وسال تحقیق میں گزار دئیے۔ میں دینی مدارس سے منسلک ایسے اساتذہ کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے زندگی کے پچاس ساٹھ سال قرآن وحدیث کی تعلیم میں گزار دیے، ہزاروں بچوں کو تعلیم وتربیت دے کر سنوارا اور نہایت سادگی سے زندگی بسر کر دی۔ اللہ انہیں اس کا اجرعظیم عطا کرے۔ مجھے ان سکالرز، محققین سے دلی محبت ہے اور میرے رول ماڈلز کی ترجیحی فہرست میں یہی لوگ ٹاپ پر آتے ہیں۔ دوسرا وہ لوگ بہت پسند ہیں اور ان پر رشک آتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی سماجی خدمت کے لیے وقف کر دی۔ جو دنیا کو ترجیح دینے کے بجائے خلق خدا کی زندگیاں آسان بناتے ہیں۔ پاکستان میں سماجی خدمت کے حوالے سے بہت سے بڑے اور ممتاز ترین لوگ موجود ہیں۔ خوش قسمتی سے ہمارے زوال زدہ معاشرے میں ایسی شاندار سماجی تنظیمیں موجود ہیں جو عام آدمی کے دکھ دور کرتے ہوئے انہیں ریلیف پہنچا رہی ہیں۔ ایدھی، الخدمت، اخوت، غزالی ٹرسٹ سکولز، سیلانی اور نجانے کتنے بڑے، جگمگاتے ہوئے نام ہیں۔ پی او بی (پریونشن آف بلائنڈنیس) نامی چیریٹی تنظیم بھی ان میں سے ایک ہے۔ لاہور میں آنکھوں کے مشہورسرجن پروفیسر ڈاکٹر انتظار بٹ اور ڈاکٹر زاہد لطیف اس کے روح رواں ہیں۔ ڈاکٹر انتظار بٹ کو پہلی بار میں نے لاہور کی مشہور ماڈل ٹائون لائبریری کی ایک تقریب میں دیکھا۔ تقریب کے بعد ہمارے ایک پیارے دوست نے ایک نم آنکھوں اور چھوٹی ڈاڑھی والے میانہ قد شخص سے تعارف کرایا۔ اپنی مخصوص نستعلیق اُردو میں حلق سے عین اور ش ق کی درست آوازیں نکالتے ہوئے دوست نے بتایا کہ یہ ڈاکٹر انتظار حسین بٹ بڑے نیک آدمی ہیں اور سوڈان و دوسرے افریقی ممالک میں جا کر آنکھوں کے فری آپریشن کرتے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ اس فقرے نے مجھے قطعا متاثر نہیں کیا۔ اپنی ناگواری ایک رسمی مسکراہٹ سے چھپاتے ہوئے میں نے دل میں سوچا، یہاں لوگ اندھے ہوتے جا رہے ہیں اور یہ صاحب باہرجا کر پتہ نہیں کیا کر رہے ہیں؟کچھ عرصے بعد ایک دن انہی ڈاکٹر انتظار بٹ کی ایک پریزینٹیشن دیکھنے کا موقع ملا۔ لیپ ٹاپ پر عام سے انداز کی بنی ہوئی نصف گھنٹے کی پریزینٹیشن نے گویا میرا زاویہ نظر ہی بدل ڈالا۔ مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ ڈارفر اور دوسرے سوڈانی علاقوں میں لوگ اس قدر پریشاں حال ہیں، ان کے پاس لکھنے کو قلم اور بستے تک نہیں۔ یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ صومالیہ، سوڈان، برکینافاسو، چاڈ وغیرہ میں کئی ملین لوگوں کے پاس صرف ایک آدھ آئی سرجن ہی کی سہولت میسر ہے۔ پہلی بار مجھے اندازہ ہوا کہ باہر کے ممالک میں جا کر کام کرنا بھی ضروری ہے، خاص کر اس صورت میں جب اسی تنظیم کے پلیٹ فارم پر اندرون ملک بھی بے پناہ کام کیا جا رہا ہو۔ پھر مجھے ایک عالمی چیریٹی پلیٹ فارم ‘فیڈریشن آف اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ‘کے تحت نائیجیریا میں فری آئی کیمپس جانے کا موقع ملا۔ پاکستان، سعودی عرب، اُردن اور ایک آدھ کسی دوسرے عرب ملک کے آئی سرجن وہاں تھے۔ حقیقی معنوں میں ڈاکٹر انتظار سے میرا تعارف انہی دس بارہ دنوں میں ہوا۔ سفر کے مختلف مراحل میں انسان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ مجھے وہ موقع ملا اور بے حد خوشی ہوئی کہ اس منافقت بھری دنیا میں جہاں ہر کوئی چہرے پر مصنوعی نقاب لگائے رہتا ہے، ایک خالص شخص سے ملاقات ہوئی۔ یہ ایک اچھوتا تجربہ تھا، ایسا تجربہ جس نے پہلی بار مجھے خود اپنی زندگی پر غور کرنے کا موقع فراہم کیا کہ اس طرح کا خالص پن میرے اندر کیوں نہیں ہے؟

ویسے خالص پن تو میں نے روح کے لئے استعمال کیا، مگر ان کے ساتھ بارہا ملاقاتوں کے بعد مجھے یوں لگتا ہے کہ ان کی شخصیت کے بھی کئی رنگ ہیں۔ پہلی ملاقات میں میں نے یہ نوٹ کیا کہ ان کی آنکھوں میں ایک غیر محسوس سی نمی اور ایک بے نام سی اداسی کی دھند چھائی رہتی ہے۔ مجھے یوں لگا کہ اس شریف بندے کا قلب بے حد گداز ہے۔ جب انہوںنے پریزینٹیشن دی تو ایک عجب انداز کا انکسار اور عجز غالب تھا۔ کسی بھی چیز کا کریڈٹ لینے کے بجائے ان کا تمام تر زور اپنی بات کو مؤثر انداز سے بتانے پر تھا۔ نائجیریا میں بظاہر خاموش طبع ڈاکٹر انتظار بٹ کا ایک اور روپ سامنے آیا۔ آپریشن تھیٹر سے لے کر پورے کیمپ تک ان کی آواز گونجتی رہتی۔ وہ ڈاکٹروں سے لے کر نرسز اور معاونین سے آفس بوائے تک کو ہنساتے رہتے۔ اونچی اونچی آواز میں نعرے لگاتے، لطیفے سناتے اور سب کو لمحوںمیں تازہ دم کر دیتے۔ مریضوںمیں جا کر ان کا مزاج مزید شوخ ہوجاتا۔ وہ ان سب کا مورال ہائی کرتے۔ انہیں بگ اپ کرتے، اللہ اکبر، سبحان اللہ، الحمد اللہ اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگواتے۔ پاکستانی نیشنلسٹ کیریکٹر وہاںکھل کر سامنے آیا۔ دوسی، قدونہ اور دیگر نائیجرین ریاستوں میں آئی کیمپ کے بعد مقامی لوگوں سے پاکستان کے حق میں نعرے لگوانا اچھا لگا۔ میں نے سوچا کہ ان مریضوں کے دلوں میں پاکستانی ڈاکٹروں کا سافٹ امیج تو لازمی بنا ہوگا۔

ایک اہم سبق ہم نے یہ سیکھا کہ بغیر تحقیق کئے کسی کے ساتھ صبح کی سیر کا وعدہ کبھی نہیں کرنا چاہیے۔ میں نے ڈاکٹر انتظار بٹ کے ساتھ پہلے دن ہی وعدہ کر لیا کہ مارننگ واک پر جائیں گے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے اگلے سات دن مسلسل مارننگ واک کرنی پڑی جس سے ہمیں اس قدر نفرت تھی کہ کبھی اسکول میں مارننگ واک پر مضمون تک نہیںلکھا تھا۔ وہ صبح صبح اٹھ بیٹھتے اور اٹھا کرباہر لے جاتے، کئی میل کی پیدل سیر کے بعد واپسی ہوتی۔ کام کرنے کا ان کا اپنا ہی انداز ہے۔ سولہ سولہ گھنٹے روزانہ کام کرنا۔ خاکسار کو بھی ان تمام سرگرمیوں کو رپورٹ کرنا تھا، مجبوری کے عالم میں ہم بھی سولہ گھنٹے کام کرتے رہے۔ نائجیریا اور مصر میں گزرے دو ہفتوں کی نیند کی کمی ہمیں اگلے دو مہنیوں تک پوری کرنی پڑی۔ ویسے ڈاکٹر انتظار سے بات کرنا بھی اچھا لگتا۔ ان کی بھیگی نظروں اور رقیق قلب کا اندازہ اس وقت ہوجاتا جب سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بات کی جائے یا اسلام کے حوالے سے گفتگو جاری ہو۔ انتہائی منکسرانہ انداز میں وہ بار بار یہی دہراتے کہ کاش ہم کچھ اچھا کام کرسکیں۔ آنے والے دنوں کی تیاری کر سکیں۔ ڈاکٹر انتظار بٹ کی تنظیم پی اوبی تو خیر کام کرہی رہی ہے مگر بٹ صاحب اپنے طور پر کہیں زیادہ کام کر رہے ہیں، مگر یہ سب اس قدر خاموشی سے ہو رہا ہے کہ دوسرا ہاتھ تو خیر ایک طرف رہا شائد ایک ہاتھ کو بھی پورا پتہ نہ چل سکے۔ تاہم میں ان کی ذاتی شخصیت پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا کہ کچھ پہلو مخفی ہی رہنے چاہئیں، وہ بندے اور خدا کا معاملہ ہیں۔ ویسے بھی عرب شاعر ابن حطیئیہ نے کہا تھا کہ نیکی انسان اور خدا کے درمیان رہتی ہے اور کبھی ضائع نہیں ہوتی۔ البتہ چیریٹی تنظیم ‘پی اوبی’پر مختصر بات کرنا چاہوں گا۔

پی او بی کا مرکزی فوکس آنکھوں کے مریضوں کا مفت علاج کرنا ہے۔ یہ ملک بھر میں بے شمار فری آئی کیمپس لگا چکے ہیں۔ بیرون ممالک میں بھی سینکڑوں کیمپس لگائے اور اب تک مجموعی طور پر کئی لاکھ مریضوں کا علاج ہوچکا ہے۔ کراچی میں پی اوبی کے تحت چار ہسپتال کام کررہے ہیں جن سب میںمکمل فری علاج مہیا کیا جاتا ہے۔ سفید موتیے کے علاج سے کالا موتیا اور دیگر پیچیدہ آپریشن تک۔ لاہور میں کچھ عرصہ قبل پی او بی نے رائے ونڈ روڈ پر ایک سٹیٹ آف آرٹ ہسپتال بنایا ہے۔ چند دن پہلے وہاں کا وزٹ کیا اور مختلف شعبوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو خوشگوار حیرت ہوئی۔ پی او بی نے تئیس ممالک میں فری آئی کیمپس لگائے ہیں، پاکستان کے اٹھاون اضلاع میں انہوں نے ایک ہزار سے زیادہ فری آئی کیمپس لگائے جن میں ستائیس لاکھ مریضوں کا معائنہ ہوا۔ سوا چار لاکھ کے قریب مریضوں کے سفید موتیے کے آپریشن ہوئے، جن میں فری لینز فراہمی کے ساتھ تمام اخراجات اٹھائے گئے۔ جیلوں میں دس ہزار سے زائد قیدیوں کا معائنہ کرکے وہاں بھی مفت آپریشن کئے گئے ہیں۔ پچھلے دو برسوں میں مختلف اسکولوں میں فری سکریننگ کر کے وہاں ستر ہزار سے زائد طلبہ کا معائنہ کیا گیا اور کئی ہزار طلبہ کو مفت عینکیں فراہم کی گئیں۔

مجھے زیادہ اچھا یہ لگا کہ ان ہسپتالوں میں مریضوں کی عزت نفس کا خیال رکھا جار ہا۔ فائل ورک کے بجائے ڈیجیٹل کام ہورہا ہے۔ خاموشی کے ساتھ غیرضروری میڈیا پبلسٹی سے دور رہتے ہوئے عام آدمی کی زندگی میں آسانی پیدا کی جارہی ہے۔ یہ سب کام وہ ڈاکٹر حضرات ہی کر رہے ہیں جن کے بارے میں عام تصور یہ ہے کہ یہ کھال اتارتے اور لوٹ مار مافیا ہیں۔ پتہ چلا کہ کئی آئی سرجن اپنی جیب سے مریضوں کے لئے وہ انجیکشن لاتے ہیں جن کی قیمت دس پندرہ ہزار سے کم نہیں۔ وہ بغیر کسی کو کچھ بتائے، خاموشی سے نادار مریضوں کی مشکل دور کر رہے ہیں۔ میں نے کہیں کسی جگہ پڑھا تھا جو میرا پسندیدہ قول بن گیا، کچھ اس طرح کا جملہ تھا: ‘دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو اپنی زندگی سے لطف اٹھاتے اور موج مستی کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جو اپنے آپ کو مشکل میں ڈال کر اس دنیا کو آسان اور رہنے کے قابل بناتے ہیں، دنیا کے لوگوں کی محرومیوں اور مشکلات کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں’۔ میرے خیال میں تو اسی دوسری کیٹیگری کے لوگ ہی عظیم، منفرد اور شاندار ہیں۔ بس ہمیں کوشش یہی کرنی چاہیے کہ کسی نہ کسی طریقے، کسی انداز میں ہم بھی اسی قافلے کا حصہ بن جائیں۔ کیا خبر کہ اسی کوشش ہی میں وہ کریم ہستی ہمیں اُخروی نجات سے نواز دے۔ آمین!