چار مردہ یرغمالیوں کے بدلے 45فلسطینی شہداء کی لاشوں کا تبادلہ

تل ابیب/واشنگٹن/قاہرہ/غزہ:ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے تحت حماس نے مزید 4 اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں حوالے کیں جس کے بدلے 45 فلسطینیوں کی لاشیں غزہ بھیجی گئیں۔

عرب میڈیا کے مطابق صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ امن منصوبے کے تحت حماس اور اسرائیل کے درمیان لاشوں کا تبادلہ کیا جا رہا ہے۔گزشتہ کل اور آج حماس نے چار چار اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں حوالے کیں جب کہ اب بھی ممکنہ طور پر 20 یرغمالیوں کی لاشیں غزہ میں موجود ہیں۔

بدلے میں اسرائیل نے بھی کل 45 اور آج بھی 45 فلسطینیوں کی لاشیں غزہ کے حوالے کی ہیں جس سے مجموعی تعداد 90 ہوگئی۔اسرائیل نے جو لاشیں غزہ کے حوالے کیں ان میں سے اکثر مسخ شدہ ہیں۔ کئی کے ہاتھ ہتھکڑی میں بندھے تھے اور کچھ کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔

لاشوں کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ قتل سے قبل بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور متعدد روز سے بھوکا رکھا گیا تھا۔غزہ کی انتظامیہ نے بتایا کہ لاشوں کو شناخت اور ضروری کاغذی کارروائیوں کے بعد لواحقین کے حوالے کیا جائیگاجن فلسطینیوں کی لاشیں حوالے کی گئی ہیں ان میں سے اکثر قیدی تھے اور غیر قانونی طور پر اسرائیل کے ٹارچر سیلوں میں رکھے گئے تھے۔

ابھی یہ واضح نہیں کہ مزید اور کتنی لاشیں اسرائیل کے پاس موجود ہیں اور ان کی واپسی کب تک ممکن ہے۔ادھرقابض اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی میں جنگ بندی معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد سے دانستہ طور پر گریز کر رہی ہے۔

تازہ اقدام کے طور پر اس نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر آنے والی امداد کی مقدار میں بڑی حد تک کمی کر دی ہے۔عبرانی ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ قابض اسرائیل نے غزہ کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔

اس درندگی کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ تمام صہیونی قیدیوں کی لاشیں واپس نہیں کی گئیں۔اگرچہ بعد ازاں اسرائیلی نشریاتی ادارے نے اطلاع دی کہ حکومت نے رفح گزرگاہ بند کرنے کے فیصلے سے وقتی طور پر پسپائی اختیار کر لی ہے۔

تاہم اقوام متحدہ نے تصدیق کی ہے کہ قابض اسرائیلی حکام نے باقاعدہ نوٹس کے ذریعے آگاہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں داخل ہونے والی امدادی گاڑیوں کی تعداد کو آدھا کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے جنگ بندی کے بعد روزانہ 600 ٹرکوں کی اجازت دینے کا وعدہ کیا تھا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نائب ترجمان فرحان حق نے گذشتہ شب نیویارک میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ قابض اسرائیل کی سول انتظامیہ نے اقوام متحدہ کو ایک سرکاری پیغام کے ذریعے آگاہ کیا ہے کہ وہ ”لاشوں کی واپسی” کے بہانے امدادی ٹرکوں کی تعداد کم کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کو اس اطلاع کا علم ہے اور وہ غزہ کے عوام تک زیادہ سے زیادہ انسانی امداد پہنچانے کے لیے کوشاں ہے۔ فرحان حق نے واضح کیا کہ اقوام متحدہ تمام فریقوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنے وعدوں کی پابندی کریں، جن میں لاشوں کی واپسی اور جنگ بندی کی دیگر شقوں پر مکمل عمل درآمد شامل ہے، بالخصوص انسانی امداد کے تسلسل کو یقینی بنانا۔

دوسری جانب یورومتوسطی انسانی حقوق مرکز نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں قحط، غذائی قلت اور بھوک کا خطرہ اب بھی برقرار ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ قابض اسرائیل نے دانستہ طور پر غزہ پر دو سالہ فوجی جارحیت اور مکمل محاصرے کے دوران قحط کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔

ادھراقوامِ متحدہ کے انسانی ہمدردی کے امور کے نائب سربراہ ٹام فلیچر نے تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے پر مکمل عملدرآمد کریں، ان کے مطابق فلسطینی، اسرائیلی اور پورے خطے کے لوگ چاہتے ہیں کہ یہ امن قائم رہے۔

الجزیرہ کے مطابق انہوں نے کہا کہ اس ہفتے طویل رکاوٹوں کے بعد امدادی سرگرمیوں کا آغاز ممکن ہوا اور خوراک، ادویات، ایندھن، پانی، گیس اور خیمے ضرورت مندوں تک پہنچائے گئے۔ٹام فلیچر نے خبردار کیا کہ اب اصل امتحان یہ ہے کہ آیا ان رکاوٹوں کے باوجود وہ پیش رفت جاری رکھی جا سکتی ہے جس پر صدر ٹرمپ، اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور دیگر عالمی رہنما زور دے رہے ہیں۔

ادھر اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کو اطلاع دی ہے کہ وہ بدھ سے روزانہ صرف 300 امدادی ٹرک غزہ جانے دے گا جو پہلے طے شدہ تعداد کا نصف ہے۔فلیچر نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ ہفتہ وار ہزاروں ٹرکوں کی شکل میں امداد کے بڑے پیمانے پر داخلے کی اجازت دے اور کہا کہ مزید بارڈر کراسنگز کھولنا اور عملی سطح پر مسائل کے حل کی کوشش ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔

رائٹرز کے مطابق اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ رفح بارڈر کراسنگ کو دوبارہ کھولے گا تاکہ غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل ممکن ہو سکے، تاہم اس عمل کو سیکورٹی کلیئرنس سے مشروط رکھا گیا ہے۔دوسری جانب ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق ایک سیکورٹی اہلکار نے بتایا کہ رفح کراسنگ آج نہیں کھولی جائے گی۔

کراسنگ کھولنے کے فیصلے اور اس پر عملدرآمد میں تاخیر ہو رہی ہے۔ادھر امدادی سامان کی ترسیل دیگر راستوں سے جاری ہے جن کے ذریعے خوراک، ادویات، ایندھن اور تعمیراتی سامان غزہ پہنچایا جا رہا ہے۔

غزہ سٹی میں واپس آنے والے لوگوں کے لیے حالات اب بھی نہایت کٹھن ہیں۔ بیشتر شہری اپنے گھروں کی حالت دیکھنے آ رہے ہیں تاکہ معلوم کر سکیں کہ وہاں پانی، خوراک اور زندگی کی بنیادی ضروریات باقی ہیں یا نہیں۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق سب سے سنگین مسئلہ پانی کی کمی ہے۔ متاثرہ خاندان بار بار پوچھ رہے ہیں کہ علاقے میں پانی کب آئے گا، یا پانی کے ٹینکر کب پہنچیں گے۔ گزشتہ سات دنوں میں صرف چند ٹرک ہی یہاں پہنچ سکے ہیں، جو واپس آنے والے ہزاروں افراد کے لیے بالکل ناکافی ہیں۔

بیشتر لوگ میلوں پیدل چل کر اپنے علاقوں تک پہنچتے ہیں مگر وہاں نہ پانی ملتا ہے نہ بنیادی سہولتیں۔ ہر طرف لوگ ہاتھوں میں بوتلیں، ڈبے اور برتن لیے پانی کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔

دریں اثناء امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ امن معاہدے کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حماس کی قید سے تمام 20 یرغمالی اچھی صحت کے ساتھ واپس آچکے ہیں ۔ایک بڑا بوجھ اتر گیا ہے تاہم ہمارا کام مکمل نہیں ہوا۔

ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر جاری پیغام میں کہا کہ حماس نے وعدے کے مطابق اب تک تمام ہلاک مغویوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے نہیں کیں۔دریں اثنا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہائو س میں ارجنٹائن کے صدر سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حماس سے امریکا کے اعلیٰ سطح کے حکام نے بات کی۔

حماس نے بتایا وہ غیر مسلح ہوجائیں گے اگر وہ نہیں ہوتے تو ہم کردیں گے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا کہ اگر حماس نے معاہدے پر عمل نہ کیا تو واشنگٹن خود اقدمات کرے گا ۔ انہوں نے کہا کہ حماس کو غیر مسلح کرنا تیزی سے اور ممکنہ طور پر طاقت کے استعمال سے ہوگا۔

اْدھر غزہ میں اسرائیلی بمباری سے تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے سے فلسطینی شہریوں کی لاشیں نکالنے کا سلسلہ جاری ہے، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 44 شہدا کی لاشیں نکالی گئی ہیں۔علاوہ ازیںبدھ کے روز قابض اسرائیلی فوج نے غرب اردن کے مختلف علاقوں میں وسیع پیمانے پر چھاپے مار کر متعدد فلسطینی شہریوں کو گرفتار کر لیا۔

رام اللہ کے قریب المغیر گاؤں کا داخلی راستہ بھی مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔مقامی ذرائع کے مطابق قابض فوج نے قلقیلیہ شہر کے مشرقی داخلی راستے سے داخل ہو کر کئی گھروں پر دھاوا بولا اور گھر گھر تلاشی کے دوران ساجد الفار، مہدی الجبر، قیس الحج حسن اور محمد الجعیدی کو گرفتار کر لیا۔

الخلیل میں بھی قابض فوج کی دراندازی کے دوران پانچ فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا۔ قابض فوج نے العروب کیمپ اور حلحول قصبے پر دھاوا بولا، گھروں کو تباہ کیا اور احمد رائف البدوی، محمد نادی الشریف اور محمد عبداللہ کرجہ کو گرفتار کر لیا۔

اسی طرح بیت امر قصبے میں بھی قابض صہیونی فوج نے گھر گھر تلاشی کے دوران کئی دروازے توڑ ڈالے اور محمد عمر ابو عیاش (62 سالہ) اور ابراہیم خلیل صبارنہ کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔قابض فوج نے اسی دوران دو سابق اسیران کے گھروں پر بھی حملہ کیا۔

جنوبی الخلیل میں یاسر ابو ترک کے گھر اور یطا قصبے میں مراد ادعیص کے گھر کی تلاشی لی گئی اور ان کے گھریلو سامان کو درہم برہم کر دیا گیا۔اسی تسلسل میں قابض اسرائیلی فوج نے بیت لحم کے مختلف علاقوں سے بھی چار فلسطینی شہریوں کو گرفتار کر لیا۔

گرفتار ہونے والوں میں مصطفیٰ موسیٰ نواورہ (علاقہ جبل الموالح)، محمد رائد زواہرہ (کَرفہ)، رائد عبد الکریم مذبوح (کارتاس علاقہ) اور زکریا جمال عویضہ (ہندازہ مشرقی بیت لحم) شامل ہیں۔ قابض فوج نے ان کے گھروں پر دھاوا بول کر تلاشی لی اور اہل خانہ کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

عینی شاہدین کے مطابق قابض فوج نے بیت لحم کے دیگر علاقوں میں بھی گھروں پر حملے کیے جن میں معتز مزہر اور عیسیٰ ابو عاہور کے گھر شامل ہیں۔ معتز مزہر کا ذاتی موبائل فون فوجی اہلکار ضبط کر کے لے گئے تاہم دیگر علاقوں میں مزید گرفتاریوں کی اطلاع نہیں ملی۔

ادھر مصری وزیرِ خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کی عبوری قیادت کیلئے 15ٹیکنوکریٹس کو حماس اور اسرائیل کی منظوری کے بعد منتخب کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان ٹیکنوکریٹس کی تعیناتی کا مقصد غزہ کے عوام کی دیکھ بھال اور انتظامی امور کو بہتر بنانا ہے۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق مصری وزیرِ خارجہ نے کہاکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نگرانی میں ایک بورڈ غزہ کی تعمیرنو کیلئے فراہم کی جانے والی مالی امداد کی نگرانی کرے گا۔انہوں نے بتایا کہ حماس کے بعض ارکان نے صدر ٹرمپ کے منصوبے کو خوش آمدید کہا ہے تاہم واضح کیا کہ حماس کا غزہ کے روزمرہ انتظامی معاملات میں کوئی براہِ راست کردار نہیں ہوگا۔

مصری وزیرِ خارجہ نے مزید کہا کہ اسرائیل کو غزہ سے انخلا کرنا ہوگا اور امداد کی آزادانہ ترسیل کی اجازت دینی ہوگی جبکہ حماس کو اپنے کیے گئے وعدوں پر مکمل عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ انھیں امید ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت ایک پر امن مرحلہ شروع ہو گا تاہم انھوں نے واضح کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شرائط انتہائی واضح ہیں۔

ان کے مطابق حماس کو اپنے تمام ہتھیار چھوڑنے ہوں گے اور اپنی عسکری صلاحیتیں ختم کرنا ہوں گی ورنہ جہنم پھٹ پڑے گی۔نیتن یاہو نے یہ بات ایک انٹرویو میں کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں فریقوں نے امن کو ایک موقع دینے پر اتفاق کیا ہے جبکہ ٹرمپ نے اپنے دورے کے دوران اعلان کیا تھا کہ جنگ ختم ہو چکی ہے۔ن

یتن یاہو نے واضح کیا کہ زندہ قیدیوں کی بازیابی کے بعد اگلا مرحلہ غزہ کو غیر عسکری بنانا ہے۔ انھوں نے کہا سب سے پہلے حماس کو ہتھیار ڈالنے ہوں گے اور دوسرا یہ کہ ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ غزہ کے اندر کوئی اسلحہ ساز فیکٹری موجود نہ ہو اور وہاں ہتھیاروں کی اسمگلنگ نہ ہو یہی اسے غیر عسکری بنانا ہے۔

این جی او ہینڈی کیپ انٹرنیشنل نے بم ناکارہ بنانے والے آلات کے داخلے کا مطالبہ اور اس بات سے خبردار کیاہے کہ غزہ میں نہ پھٹنے والے بموں نے ان لوگوں کے لیے بہت زیادہ خطرات پیدا کیے ہیں جو جنگ بندی کے دوران گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔خطرات بہت زیادہ ہیں کیونکہ جنگ کے آغاز سے اب تک غزہ پر ایک اندازے کے مطابق 70,000 ٹن دھماکا خیز مواد گرایا گیا ہے۔

فلسطینی علاقوں کے لیے تنظیم کی ڈائریکٹر این کلیئر یایش نے کہادو سالہ جنگ کے دوران نہ پھٹنے والے ہتھیاروں یا دستی بموں سے لے کر سادہ گولیوں تک ہتھیاروں کی موجودگی غزہ میں ایک عام منظر بن گیا ہے۔

ملبے کی تہیں اور جمع شدہ ہتھیاروں کی سطح بہت زیادہ ہیں، یایش نے نے خبردار کیا کہ گنجان آباد شہری علاقوں میں تنگ جگہ کے باعث ماحول کی انتہائی پیچیدہ نوعیت نے خطرات کو سنگین تر کردیاہے۔

عالمی ای کامرس اور ٹیکنالوجی کمپنی ایمازون نے فلسطینی سافٹ ویئر انجینئر کو برخاست کردیا ہے۔غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق فلسطینی انجینئر احمد شہریور نے کمپنی کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور دفاعی سطح پر کام کرنے والے کلاڈ معاہدے پر احتجاج کیا تھا۔

29 سالہ فلسطینی انجینئر احمد شہریور کو پہلے کمپنی کے اندرونی چینلز پر اسرائیل کے ساتھ شراکت پر تنقید کرنے پر معطل کیا گیا تھا بعدازاں انہوں نے سیاٹل کے ایمازون ہیڈکوارٹر کے سامنے احتجاج ریکارڈ کروایا اور فلائرز بھی تقسیم کیے۔

فلسطینی انجینئر کے مطابق ایمازون گوگل کے ساتھ مل کر اسرائیلی حکومت اور عسکری اداروں کو کلاڈ سروسز فراہم کرنے والے پروجیکٹ نیبس کا حصہ ہے جو کہ اسرائیلی فوجی اور انتظامی کارروائیوں کو ٹیکنالوجی مہیا کرتی ہے۔

طویل خونریز محاصرے، بھوک اور تباہی کے بعد آخرکار تنظیم غزہ ہیومینیٹیرین فائونڈیشن اپنے انجام کو پہنچ گئی ہے۔ اسرائیلی فوج کے انخلا کے پہلے مرحلے کے دوران جنوبی غزہ میں اس فائونڈیشن کے تمام امدادی مراکز ختم کر دیے گئے ۔

یہی مراکز کبھی غزہ کے بھوکے عوام کے لیے امید کا پیغام بن کر پیش کیے گئے تھے مگر جلد ہی وہ خوف و ذلت کے اڈے بن گئے۔قابض اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو ایک بار پھر بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنے کے لیے عدالت میں پیش ہوں گے۔

یہ پیشی ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قابض ریاست کے صدر اسحاق ہرزوگ سے نیتن یاھو کے لیے عام معافی دینے کی اپیل کی۔قابض اسرائیلی ٹی وی چینل 12 کی رپورٹ کے مطابق بنجمن نیتن یاھو اور ان کی اہلیہ سارہ نیتن یاھو پر الزام ہے کہ اس نے مالدار تاجروں سے لگژری تحائف حاصل کیے جن کی مالیت 2 لاکھ 60 ہزار ڈالر سے زیادہ تھی۔

ان تحائف میں قیمتی سگار، جواہرات اور شیمپین کی بوتلیں شامل تھیں جو سیاسی رعایتوں کے بدلے دی گئیں۔نیتن یاھو پر دو مزید مقدمات میں بھی الزامات عائد ہیں کہ انہوں نے دو بڑی قابض اسرائیلی میڈیا کمپنیوں کی خبروں کو اپنے حق میں موڑنے کی کوشش کی تاکہ عوامی رائے پر اثرانداز ہوا جا سکے۔