میری مفتی عبدالرحیم صاحب اور جامعة الرشید سے صرف دو سال پہلے تک براہ راست کوئی واقفیت نہیں تھی، صرف یہ سنا تھا کہ جامعة الرشید اچھا دینی مدرسہ ہے جہاں انہوں نے دینی تعلیم کے ساتھ جدید عصری تعلیم کا بھی اہتمام کیا ہے اور وہاں کے طلبہ درس نظامی کے ساتھ گریجویشن تک تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ مفتی عبدالرحیم صاحب کے بارے میں برادرم رعایت اللہ فاروقی کی ایک پوسٹ پڑھی تھی جس میں انہوں نے مفتی صاحب کی برداشت اور تحمل کا بھلے لفظوں سے ذکر کیا۔ اس سے زیادہ میں اس ادارے اور مفتی صاحب کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ دو سال قبل یعنی دسمبر 2023ء میں پہلی بار کراچی کے کتاب میلہ میں شرکت کے لئے اپنے دوستوں سرمد خان، طاہر بندیشہ اور روزنامہ 92 نیوز کے ایڈیٹر ایڈیٹوریل اشرف شریف کے ہمراہ گیا۔ پانچ دن کا قیام تھا اور مصروفیت ایکسپو کراچی میں کتاب میلہ کے علاوہ کچھ خاص نہیں تھی۔ چند دوستوں سے ملاقاتیں، لنچ، ڈنر وغیرہ ہوا، اس کی تفصیل پھر کبھی۔ کتاب میلہ کی پوسٹ فیس بک پر لگائی تھی تو ندیم نامی ایک نوجوان نے رابطہ کیا۔ ان کا تعلق میرے ننھیالی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جامعة الرشید میڈیا میں کام کرتے ہیں، انہوں نے مجھے جامعة الرشید میں مدعو کیا۔
میرے پاس جمعہ کا دن فری تھا، ہامی بھر لی۔ تب یہ بھی یاد نہیں رہا کہ دینی مدارس میں جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے۔ خیر ہم پہنچ گئے، جامعة الرشید کا وزٹ کیا، کلاسز نہیں ہو رہی تھیں۔ ندیم میاں نے نجانے کس طرح چند طلبہ کا اہتمام کیا اور ان بے چاروں نے ہم دو صحافیوں (خاکسار اور اشرف شریف) کی گفتگو سنی۔ دو چار سوالات بھی کئے اور یوں یہ مذاکرہ نمٹ گیا۔ اس دوران جمعہ کا وقت ہو گیا۔ وہیں جامعہ کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کی، اس سے پہلے میرے باقی ساتھی کسی اور مصروفیت کی بنا پر واپس جا چکے تھے، میری صحافیانہ حس نے البتہ مجھے روکے رکھا۔ میں نے ندیم صاحب سے درخواست کی کہ اگر ممکن ہو تو جمعہ کے بعد مفتی عبدالرحیم صاحب سے چند منٹ کی گفتگو کرا دیں۔ انہوں نے بتایا کہ استاد صاحب نے جمعہ کے بعد کراچی سے باہر کا سفر کرنا ہے۔ جمعہ کے بعد مجھے پتہ چلا کہ مفتی عبدالرحیم صاحب نے کچھ وقت عنایت کر دیا ہے۔ ایک سادہ سا کمرہ تھا، مناسب سا فرنیچر۔ وہیں پر مفتی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ کسی فارمل انٹرویو کا ارادہ نہیں تھا، اس لئے دانستہ نوٹس نہیں لئے اور نہ موبائل کے ریکارڈر پر ریکارڈنگ کی۔ یہ بھی ذہن میں تھا کہ بے تکلفی سے رواں گفتگو ہو اور چند چیزیں جو میں سمجھنا چاہتا تھا، وہ سمجھ سکوں۔
گفتگو میری توقع سے زیادہ بھرپور اور دلچسپ تھی۔ میں حیران رہ گیا کہ ہر تیکھے سوال کا مفتی عبدالرحیم صاحب نے کھل کر اور صاف جواب دیا، کسی لگی لپٹی کے بغیر۔ وہ اس قدر کھل کر بول رہے تھے کہ مجھے حیرت ہوئی۔ ایک دو بار پوچھا بھی کہ میں نے اس ملاقات کے تاثر پر کچھ لکھنا ہے تو جو باتیں آف دا ریکارڈ کہنی ہوں، وہ بتا دیں۔ مفتی صاحب نے مسکرا کر دیکھا اور کہا، میں کچھ بھی آف دا ریکارڈ نہیں بولتا۔ جو کہا ہے، اس پر قائم رہوں گا۔ میں نے آخر میں ان سے ایک سوال کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہر دینی مدرسہ دین سکھانے کا دعوے دار ہے مگر یہاں سے مسلک کے لبادے میں لپٹے طالب علم ہی برآمد ہوتے ہیں۔ دیوبندی مدرسے سے سو فیصد دیوبندی اور بریلوی مدارس سے سو فیصد بریلوی مدارس وغیرہ وغیرہ۔ مفتی صاحب نے مسکرا کر کہا، بھائی جب دیوبندی مدرسے میں دیوبندی ٹکسال لگی ہے تو دیوبندی سکے ہی باہر آئیں گے۔ اتنی صاف گوئی سے یہ اعتراف سن کر میں دم بخود رہ گیا۔
خیر ملاقات ختم ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے ازراہ تلطف دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔ سادہ سا مناسب سا لذیذ دسترخوان تھا، جامعہ کے ایک دو اساتذہ اور مفتی صاحب کے رفیق بھی شریک طعام تھے۔ کھانے کے بعد اچھی پکی ہوئی دودھ پتی چائے پی کر رخصت ہوئے۔ لاہور واپس آ کر میں نے اس ملاقات کے تاثر پر ایک کالم لکھا۔ چونکہ میں نے بہت توجہ اور انہماک سے گفتگو سنی تھی، کالم لکھنے سے پہلے اچھی طرح اپنے دماغ میں بنے نوٹس چیک کئے اور پھر پوری احتیاط سے کالم لکھا۔ مصلحت کے تحت ایک معمولی سی تبدیلی یہ کہی کہ جہاں انہوں نے کہا تھا جب مدرسے میں دیوبندی ٹکسال لگی ہو تو دیوبندی ہی باہر آئیں گے، وہاں پر دیوبندی کی جگہ پر مسلکی ٹکسال کر دیا کہ جب مسلکی ٹکسال مدرسے میں ہوگی تو اسی مسلک کے طلبہ ہی پروڈیوس ہوں گے۔ یہ ذہن میں تھا کہ خواہ مخواہ مفتی صاحب کے خلاف شور اٹھ جائے گا۔
خیر کالم چھپا، ندیم صاحب کا فون آیا کہ میں نے مفتی صاحب کو کالم بھیج دیا ہے۔ پھر ندیم ہی نے مفتی عبدالرحیم صاحب کا ایک آڈیو میسج بھیجا، جس میں مفتی صاحب نے بڑے سلیقے سے شکریہ ادا کیا اور اس پر حیرت ظاہر کی کہ میں نے اس گفتگو کو ریکارڈ کیا اور نہ نوٹس لئے، مگر سب کچھ ویسا ہی ہے جو کہا گیا تھا، ایک بھی فقرہ مفتی صاحب کے مفہوم کے خلاف نہیں یا توڑ موڑ کر پیش نہیں کیا گیا۔ انہوں نے میری یادداشت کی ستائش کی اور بزرگوں کے روایتی شفقت بھرے انداز میں دعائیں دیں۔ویسے الحمدللہ میں نے زندگی میں بہت سے انٹرویو کئے ہیں اور یہ تاثر بہت سے لوگوں کا ہے کہ ہم نے جو کہا سو فیصد وہی شائع ہوا۔ یہ مجھے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے بھی کہا، مستنصر حسین تارڑ اور عبداللہ حسین کا بھی یہی تاثر تھا، قاضی جاوید مرحوم کا انٹرویو چھپا تو اگلے روز ان کا فون آیا، انہوں نے کہا کہ آپ کے بارے میں کئی لوگوں کا یہ تاثر پڑھا تھا اور اب اندازہ ہوا کہ وہ کیوں یہ بات کہتے ہیں۔ آپ نے حرف بہ حرف وہی لکھا جو میں نے کہا تھا۔ (الحمدللہ! یہ پروفیشنل ازم ہے اور یہ کوئی کمال نہیں بلکہ ایک بنیادی تقاضا ہے جو ہر صحافی کو کرنا چاہیے۔)
اگست 2024ء میں معلوم ہوا کہ جامعة الرشید نے اپنے قریب واقع ایک سوسائٹی میں تیس کے قریب پلاٹس اپنے سینئر اساتذہ کو فری دیے ہیں۔ ساٹھ پینسٹھ لاکھ کی مالیت کے یہ پلاٹ میرٹ کے اعتبار سے مدرسے کے سینئر ترین اساتذہ کو مفت دیے گئے اور مفتی عبدالرحیم صاحب نے اپنے حصے کے پلاٹ کی بھی قربانی دی اور اپنی جگہ کسی اور کو پلاٹ دیا۔ یہ بات اچھی لگی تو ایک پوسٹ اس پر ستائش میں لگائی۔ پھر اگست 2024ء کے اینڈ میں مفتی عبدالرحیم صاحب سے براہ راست واسطہ پڑا، جب ہمارے پیارے دوست اور بچوں کا اسلام، خواتین کا اسلام کے ایڈیٹر فیصل شہزاد ایک ناگہانی مصیبت میں پھنس گئے۔ مجھے اس کا علم ہوا تو مفتی صاحب کو ٹیکسٹ میسج بھیجا کیونکہ فیصل شہزاد انہی کے ادارے کے تحت چھپنے والے میگزینز کا ایڈیٹر تھا۔ مجھے ازحد خوشی ہوئی کہ مفتی عبدالرحیم صاحب نے مصبیت میں گرفتار اپنے ایک اسٹاف ورکر کا بہت خیال رکھا۔ آؤٹ آف دا وے جا کر کوشش کی۔ الحمدللہ! فیصل شہزاد بھائی پر وارد آزمائش ختم ہوئی۔
2024ء کے اواخر میں مفتی عبدالرحیم صاحب لاہور تشریف لائے تو ازراہ تلطف انہوں نے میرے لیے ملاقات کا وقت نکالا۔ لاہور کے ایک ہوٹل میں حاضر ہوا، دلچسپ گفتگو رہی۔ مفتی صاحب میں انکسار کمال کا ہے۔ وہ میرے والد کی عمر کے ہوں گے، ہر لحاظ سے بزرگ تر، نہایت قابل احترام مگر تواضع اور اخلاق ایسا کہ کمرے سے باہر آ کر ملے اور پھر رخصت ہونے لگا تو میرے مجبور کرنے اور بار بار درخواست کرنے کے باوجود کمرے سے باہر آ کر رخصت کیا۔ چپل اتار کر بیٹھے تھے تو ننگے پاؤں باہر آگئے۔مفتی صاحب سے ایک ملاقات اس سال گرمیوں میں جامعة الرشید کے لاہور کیمپس واقع کوٹ عبدالمالک میں ہوئی۔ وہی انکسارس، وہی اخلاق، عاجزی اور بے تکلف صاف گوئی پر مبنی گفتگو۔ بہت کچھ کھل کر بیان کیا۔ افغانستان کے امور کے وہ اسپیشلسٹ ہیں۔ انہوں نے طالبان کے پہلے دور میں کئی سال افغانستان گزارے، اس سے پہلے بھی وہ مزاحمت میں عملی حصہ لے چکے تھے، افغانستان کے چپہ چپہ کو جانتے ہیں۔ ایک ایسے عظیم شخص (مفتی رشید احمد) کے وہ وارث اور جانشیں ہیں جنہیں افغان اپنا محسن سمجھتے ہیں۔ امریکا کے خلاف تحریک مزاحمت میں بھی وہ افغان طالبان کے قریب رہے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے بہت کچھ کھل کر بیان کیا، کئی واقعات بھی سنائے۔ (جاری ہے)