رات کے پچھلے پہر تیز ہوا کے شور سے آنکھ کھل گئی۔ کمرے کے باہر لان میں رات کی خنک ہوا نے ہر پودے اور ہر درخت کو بھی جگا دیا تھا۔ گھنی شاخوں سے ہوا کے گزرنے کا شور پراسرار ہوتا ہے اور اندھیری رت اسے مزید آسیب زدہ کر دیتی ہے۔ میں نے کھڑکی کھول کر دیکھا تو زیادہ کچھ نظر نہیں آیا لیکن ٹھنڈ ی ہوا کا ایک جھونکا آکر گلے سے لپٹ گیا۔ ہوا کے اس جھونکے سے واقعی پورے ایک سال کے بعد ملاقات ہو رہی تھی۔ یہ نمی سے بوجھل، خزاں کی خوشبو سے چھلکتا، شاداب کر دینے والا جھونکا پچھلے سال انہی دنوں میں ملا تھا۔ اندھیرے میں بارش کی بوندیں جھمکتی نظر آرہی تھیں اور تیز ہوا زرد پتوں سے کھیل رہی تھی۔ یہ پتے جو چند دن پہلے درختوں، پودوں اور بیلوں کا سنگھار تھے، اب ہوا کے ہاتھ میں تھے۔ چاہے تو انہیں بکھیرے، چاہے تو فضائوں میں اڑاتی پھرے۔ پتوں کو پرندہ بن جانا بس ایسے ہی لمحوں میں نصیب ہو سکتا ہے۔
یہ اک ہنر تو ازل سے ہوا کے ہاتھ میں ہے
کہ مشتِ خاک پہ گزرے تو مشتِ پر کر دے
ہوا کا رقص جاری تھا۔ کیلے کے ایک پیڑ نے کچھ دیر اس کا ساتھ دینے کی کوشش کی لیکن اس رقص کی مہارت کسی اناڑی کے بس کی بات نہیں تھی۔ کچھ ہی دیر میں لہرا کر زمین پر آگرا۔ امرود کے درخت کی ٹنڈ منڈ شاخیں پہلے ہی وہاں ڈھیر ہوئی پڑی تھیں۔ بوگن وِلیا اور پیٹریا بیلوں کو بلند دیوار کی قدرے حفاظت تھی، اس لیے ان کی لمبی لمبی بانہیں ہوا میں لہراتی رہیں لیکن زمین بوس ہونے سے بچ گئیں۔کافی دیر کمرے سے باہر یہ تماشا چلتا رہا اور بالآخر ہوا کو قرار آنے لگا۔ آنکھوں اور کانوں پر بیرونی مداخلت ختم ہوئی تو جیسے کسی کے ہاتھ ایک ساتھ انہیں تھپکنے لگے۔ میں اس بار نیند کی گہری نیلی جھیل میں اترا تو صبح کی خبر لایا۔
ایک روشن چمکیلی دھوپ بھری صبح نے استقبال کیا۔ باہر نکلا تو حدِ نظر تک فرش اور سبز گھاس پر زرد پتے، ٹنڈ منڈ ٹہنیاں، کچھ خاکستری کچھ ہری شاخیں اور کاغذوں کے پرزے بچھے تھے۔ ہوا نجانے یہ کہاں کہاں سے اڑا لائی تھی۔ دروازہ کھولتے ہی خزاں کی خوشبو اور خنکی سے بھری ہوا گھر میں داخل ہو گئی۔ اب اس میں بارش کی نمی اور بوندیں تو نہیں تھیں لیکن اس کی تازگی اور شادابی وہی تھی جو برسوں کی تھکن اتار دیتی ہے۔ اب یہ پورے گھر میں ناچتی اور جگہ جگہ جھانکتی پھر رہی ہے۔ خوشخبری دے رہی ہے کہ گرمی کی شدت ختم ہوئی، ایک رْت دوسری رت میں داخل ہونے والی ہے۔ اٹھو اور میرے ساتھ جشن منائو کہ گرمی کی طویل دوپہریں اور بے چین راتیں ختم ہوئیں۔ یہ صرف زبانی سندیسہ نہیں، اس ہوا میں آتی سردی کی خوشبو بھی ہے۔ اسے گلابی ہوا کہنا چاہیے کیونکہ یہ گلابی جاڑوں کی نوید لائی ہے اور گلابی شال اوڑھ کر چلتی ہے۔ تازگی سے چھلکتی، شاداب کرتی، دل پر چلتی ہوا جو ایک طرف درختوں کے زرد پتے اڑاتی اور دوسری طرف خزاں کے اس موسم میں دلوں میں پھول کھلاتی ہے۔ بادِ صبا کی خوبصورتیاں اپنی جگہ لیکن ہوائے شام کی شاعروں نے شاید وہ قدردانی نہیں کی جس کی وہ بجا طور پر حقدار تھی۔ یہ ہوا چلتی ہے تو ایئر کنڈیشنرز اور پنکھوں کی مصنوعی ہوائیں بند کر دیتی ہے۔ اب شاید چند ہی دن کی بات ہے کہ پنکھوں اور ایئر کنڈیشنرز چھ ماہ کی ہائبرنیشن اور گہری نیند میں چلے جائیں گے۔ کم از کم مارچ کے آخر تک اس شور سے نجات مل جائے گی اور دوسری طرف بجلی کے ناقابلِ برداشت بلوں سے بھی۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ یہ آوازیں جو ویسے زندگی کیلئے لازم ہیں، ان مہینوں میں خاموش ہوتی ہیں تو کیسا سکون بھرا سکوت جنم لیتا ہے۔ وہ سکون جو اَب شہروں میں تو کیا گائوں دیہات میں بھی میسر نہیں کیونکہ جہاں جہاں بجلی ہے وہاں یہ شور بھی لازمی ہے۔ یہ آوازیں مدہم ہوتے ہوتے بند ہوتی ہیں تو زندگی مصنوعی موسموں سے دور ہوکر فطرت کے قریب آنے لگتی ہے اور یہ ابدی اصول ہے کہ فطرت کے سکون جیسی طمانیت تو انسان نے کبھی بنائی ہی نہیں۔ یہ عمومی مشاہدہ بھی ہے اور نفسیات دانوں کا تجزیہ بھی کہ موسم خوشگوار ہو تو لوگوں کے موڈ بھی بہتر ہو جاتے ہیں۔ چڑچڑا پن، جھنجھلاہٹ اور بیزاری کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں اور خوش دلی،خوش مزاجی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلنے لگتی ہے۔ پورے ملک میں اس گلابی موسم کا انتظار اور خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ یہ پہننے، اوڑھنے، کھانے پینے، گھومنے پھرنے کا موسم ہے۔ چائے، گلابی کشمیری چائے اور قہوے کا موسم ہے۔ کافی کا موسم ہے۔ شاعری کا موسم ہے۔ لیکن کیا یہ موسم انسان کے اپنے اختیار میں تھا؟ یہ جو ایک رات نے ہمارے دن بدل کر رکھ دیے، ہمارے بس میں تھی؟ ایک ہی سرد آندھی نے تمازت اور تپش کا نشان تک مٹا کر رکھ دیا۔ اگر یہ ہمارے ہاتھ میں ہوتی تو ہم پہلے نہ کر لیتے؟ انسان کو اتنی ترقی اور اتنی بڑی تمدنی کامیابیوں کے بعد بھی کچھ سمجھ میں آیا تو یہ کہ فطرت کو اس کے نظام پر، اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس سے کھلواڑ نہیں کرنا چاہیے۔ اسی میں اس زمین کی بقا ہے اور اسی میں اس پر سانس لیتی مخلوق کی بقا ہے۔
پہاڑی اور شمالی علاقوں کے مسائل اور معاملات کو ایک طرف چھوڑ دیں تو شاید ہی کوئی پاکستانی ہو جسے سردیوں کا انتظار اچھا نہ لگتا ہو۔ خزاں سردیوں کی ہراول فوج ہوا کرتی ہے۔ لیکن پہاڑی اور بلند بستیوں کی بات کی جائے تو ان کیلئے بھی سردی کئی تحفے لاتی ہے۔ سردی کا ذکر ہوتا ہے تو ان سرد ترین علاقوں کا خیال ضرور آتا ہے جہاں موسم سرما شدت کے ساتھ اور بہت دیر کیلئے مقیم ہوتا ہے اور بہت سے مکین بلند علاقوں سے وادیوں میں اتر آتے ہیں۔ ظاہر ہے ان علاقوں کے مسائل موسم سرما میں بڑھ جاتے ہیں۔ یہ پہاڑی بستیوں کی غنودگی اور نیند کے دن ہوتے ہیں لیکن یہ بھی خدا کا ایک عجیب نظام ہے کہ موسم سرما بلند پہاڑوں اور چوٹیوں پر وارد ہوتا ہے تو زیریں علاقوں اور میدانوں کیلئے وسائل ساتھ لاتا ہے۔ اربوں روپے کی برف برستی ہے اور منجمد شکلوں میں دریا، جھیلیں اور ندی نالے پورے ملک کا اثاثہ بن جاتے ہیں۔ مارچ آتے ہی یہ منجمد اثاثے سیال ہونا شروع ہوتے ہیں اور جسم کی رگوں، شریانوں کی طرح پورے ملک میں پانی کا یہ بے رنگ خون دوڑا دیتے ہیں۔ اندازہ کریں تو شاید ملک کے سب سے مالدار بینک کے پاس بھی ایک وقت میں اتنی دولت نہیں ہوتی ہو گی جتنی منجمد شکل میں بلند علاقوں میں موجود ہوتی ہے۔ اس نظام کا کمال دیکھیے کہ یہ دولت، جو ہر سال قدرت کی طرف سے انعام کے طور پر ملتی ہے، ایک طرف تو نہایت حسین ہے اور دوسری طرف نہایت محفوظ۔ صدیوں سے یہ سیال کرنسی نوع انسان کو سیراب اور خوشحال کرتی آئی ہے۔
لیکن یہ اسموگ کا بھی موسم ہے۔ گلابی موسم کو عذاب بنا دینے والا اسموگ۔ ایسے جیسے کسی نے میلے اور آلودہ پلاسٹک کا غلاف شہر کے چہرے پر باندھ دیا ہو کہ اسی میں سانس لو اور اسی میں خارج کرو۔ اب سالہا سال سے اس گلابی موسم میں طرح طرح کی سانس کی بیماریاں بھی شہر پر اترتی ہیں۔ شنید ہے اور وہ تصویریں وائرل ہیں کہ لاہور میں کافی جگہ اسموگ گنیں لگائی گئی ہیں جو ہوا کی آلودگی کم کریں گی۔ یہ بھی بتایا جا رہا کہ کئی ممالک میں اسموگ دور کرنے کا یہ کامیاب تجربہ ہے۔ لیکن کیا یہ اسموگ گنیں اتنے بڑے شہر اور اتنی بڑی آبادی کو آلودگی کے اس غلاف سے نجات دلا سکیں گی؟ لاہوری پچھلے سال کے لمبے اور تکلیف دہ اسموگ سے ڈرے ہوئے ہیں۔ یاد کیجیے کہ پچھلے سال بارش کی دعائیں مانگی جاتی تھیں لیکن سردیوں کی بارشیں بہت دیر میں اور بہت کم ہوئی تھیں۔ شہر کے منہ پر اسموگ کا ڈھاٹا بندھا ہوا ہو تو جوش ملیح آبادی کے شعر یاد آجاتے ہیں
بخارات و دود و دخان و غبار
ہوا پر مسلط، سروں پر سوار
بلا در بلا و بلا در بلا
رفیقو! رندھا جا رہا ہے گلا
زمیں تیرگی، تیرگی، تیرگی
ارے روشنی، روشنی، روشنی

