جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ مبارکہ تو ہماری زندگی کے ہر سانس کے ساتھ ہے۔ قرآن کریم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نسلِ انسانی کے لیے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے۔ اسوہ حسنہ، نمونہ، آئیڈیل۔ آئیڈیل تو پھر ہر وقت سامنے رہتا ہے۔ اسوہ حسنہ کا معنیٰ یہ ہے کہ جو کام زندگی کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کر کے حضور کی یاد ذہن میں تازہ کر کے کریں گے وہ صحیح ہو گا اور جو کام حضور کو یاد کیے بغیر کریں گے اس کے صحیح ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔
معیشت کیا ہے؟ زندگی کے اسباب مہیا کرنا۔ زندگی کے اسباب حاصل کرنا، خرچ کرنا اور ان سے استفادہ کرنا۔ انسانی زندگی کا حساب کتاب مال اور اسباب سے ہے۔ اسباب اور مال کے بغیر انسان کی زندگی نہیں گزرتی۔ قرآن پاک نے بھی اس کو فرمایا ہے۔ ”ولا تؤتوا السفہآء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیاما” (النسائ) یہ مال اور دولت جو ہے نا، یہ تمہارے لیے قیام ہے۔ یعنی زندگی کا ذریعہ ہے، زندگی کے اسباب ہیں اور یہ مشاہدہ اور تجربہ بھی ہے کہ جس قدر اسباب زیادہ ہوں زندگی اچھی گزرتی ہے۔ اسباب کم ہوں زندگی تنگ گزرتی ہے۔ یہ تو قرآن پاک؛ معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی معیشت، لین دین، تجارت، معاملات، زراعت، کھیتی باڑی، کاروبار، اس کے بارے میں آسمانی ہدایات آتی رہی ہیں۔ اللہ کے ہر پیغمبر نے جہاں زندگی کے دوسرے معاملات میں رہنمائی کی ہے، معیشت میں بھی رہنمائی کی ہے۔ میں دو حوالے دینا چاہوں گا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے، جن کا قرآن پاک نے ذکر کیا ہے۔ایک تو اللہ کے پیغمبر ہیں حضرت شعیب علیہ الصلوٰة والسلام۔ موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کے خسر بزرگوار اور معاصر بھی ہیں، وہی زمانہ تھا۔ مدین کی طرف۔ مدین اس وقت اسرائیل کی ایک بندرگاہ ہے۔ مدین کے علاقے میں آئے تھے۔ ان کا قوم کے نام ایجنڈا اور دعوت کیا تھی؟ پہلی تو وہی ”اعبدوا اللہ ما لکم من الٰہ غیرہ” اللہ کی عبادت کرو، اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو۔ اللہ کی عبادت، توحید۔ ”فاتقوا اللہ واطیعون” (الشعرائ) ہر پیغمبر کی یہی دعوت رہی ہے: اللہ سے ڈرو، میری اطاعت کرو۔ اللہ کے سامنے جھکو، میری پیروی کرو۔ شعیب علیہ السلام کی بنیادی دعوت تو، جیسے ہر پیغمبر کی تھی، یہی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ماحول کے مطابق شعیب علیہ السلام کا ایجنڈا کیا تھا؟
اوفوا الکیل ولا تکونوا من المخسرین۔ماپ تول صحیح کرو بھئی، ماپ تول میں کمی نہیں کرو، ایک۔ ”ولا تبخسوا الناس اشیآء ھم” چیزوں کا معیار کم نہیں کرو۔ آج کی زبان میں، دو نمبر مال نہیں بیچو۔ ترازو صحیح رکھو، پیمانہ صحیح رکھو، دو نمبر مال نہیں بیچو۔ ”ولا تعثوا فی الارض مفسدین” زمین میں فساد نہیں پھیلاؤ۔ یہ شعیب علیہ السلام نے؛ توحید اور خدا کی بندگی کے بعد دوسرا بڑا ایجنڈا قوم کے لیے کیا تھا؟ معیشت کی اصلاح۔ تجارت کی اصلاح۔ دیانت پیدا کرو۔
یہ حضرت شعیب علیہ الصلوٰة والسلام نے قوم کو اللہ کے حکم سے دعوت دی اور ایجنڈا کیا تھا؟ معیشت کی اصلاح۔ معیشت خراب ہو تو معاشرے میں فساد پھیلتا ہے۔ معیشت صحیح ہو تو نظام صحیح رہتا ہے۔ معیشت میں گڑبڑ کریں تو معاشرے میں فساد پھیلتا ہے۔ یہ حضرت شعیب علیہ السلام کا ایجنڈا تھا۔
اسی زمانے میں؛ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ وہی ہے۔ قرآن پاک نے بہت تفصیل سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعات بیان فرمائے ہیں۔ ان میں سے ایک کا ذکر کروں گا۔ ”ان قارون کان من قوم موسیٰ فبغیٰ علیھم”۔ قارون موسیٰ علیہ السلام کی قوم سے تھا اور باغی ہو کر فرعون کے ساتھ مل گیا تھا۔ ہوتے ہیں، ہر علاقے میں، ہر زمانے میں، ہر قوم میں غدار ہوتے ہیں۔ ہے بنی اسرائیل میں سے اور ساتھی کس کا ہے؟ فرعون کا۔ یہ ہر زمانے میں ایسا ہوتا ہے۔ قارون کا تذکرہ قرآن پاک نے کیا ہے، کس حوالے سے، کہ وہ اپنے وقت کا سب سے بڑا سرمایہ دار تھا۔ (جاری ہے)

