اسلام آباد:غزہ میں جنگ بندی کے امریکی منصوبے کی حمایت کے اعلان پر حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے جبکہ حکومت نے تنقید مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاست کے لیے غزہ معاہدے کی مخالفت کی جا رہی ہے، کیا مخالفین چاہتے ہیں کہ معصوم فلسطینیوں کا خون بہتا رہے؟۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ 20 نکاتی غزہ امن منصوبے کا پرجوش خیرمقدم کرنے پر وزیراعظم شہباز شریف کو شدید تنقید کا سامنا ہے،کئی ناقدین اس مجوزہ منصوبے کو اسرائیل کی نسل کشی کی پردہ پوشی کرنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا نہ سوچے ،قطر سے معافی مانگی ،کیا فلسطینیوں کے قتل عام پر معافی مانگی گئی ،دو ریاستی حل میں فلسطینیوں اور حماس کو شامل کیا جائے وگرنہ کوئی فیصلہ قبول نہیں ہوگاجب تک فلسطینی فیصلہ نہ کریں تو زبردستی فیصلہ مسلط نہیں کیا جا سکتا اورحماس کے بغیر مسئلہ فلسطین حل نہیں ہو سکتا کیونکہ حماس اصل فریق ہے۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ اس وقت سب سے اہم سوال پوری دنیا میں مسئلہ فلسطین ہے، مسئلہ فلسطین کے معاملے پر بانی پاکستان نے اسرائیل کے وجود کو عرب دنیا کی پیٹھ میں خنجر قرار دیا تھا۔
اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اسے کبھی قبول نہیں کریں گے، آج امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پوری دنیا کے مسائل کا مالک بن رہا ہے اور ڈنڈا اٹھا کر بات منواتا ہے یہ روش نہ اخلاقی ہے نہ سیاسی ہے۔دو ریاستی حل کی بات تو کریں اسرائیل کو فلسطین اور فلسطینی اسرائیل کو قبول نہیں کررہے۔
یہ اسرائیل کی توسیع کا فارمولا تو ہو سکتا ہے لیکن فلسطین کی توسیع کا معاملہ نہیں ہو سکتا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ شہباز شریف کے جنرل اسمبلی میں خطاب اور ٹوئٹ میں فرق واضح ہے، کمزور موقف سے مسلم دنیا شکست کھا جائے گی۔
بوسنیا کے مسلمانوں کے ساتھ بھی معاہدہ کیا گیا پھر بھی لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا اور لاکھوں بے گھر کیے گئے، امن کی پشت پر خنجر گھونپ دیا جاتا ہے اور آج جو ٹرمپ اور نیتن یاہو کا بیانیہ ہے اسرائیل کی توسیع کا منصوبہ ہو سکتا ہے لیکن فلسطین کی آبادی کا فارمولہ نہیں ہو سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے دو ریاستی حل دیا بھی تو آزادفلسطین جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہوگا، حکمرانوں میں حکمرانی کی صلاحیت نہیں ہے کہ کیسے عوامی حقوق کی بات کی جاتی ہے اور کن رویوں کی ضرورت ہو۔ نوبل انعام نہیں ٹرمپ کو جنگ کا انعام دینا چاہیے، وہ انسانی مجرم ہے معافی کافی نہیں ہے کیونکہ لاکھوں فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا۔
جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ وہ وزیراعظم کے اس بیان کو تسلیم نہیں کرتے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کسی بھی قوم کو یہ حق ہے کہ اگر اس کی سرزمین پر قبضہ ہو تو وہ اس کے خلاف مسلح جدوجہد کرسکتی ہے۔
ایکس پر جاری اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ پاکستانی قوم کی مرضی کے بغیر کوئی بھی شخصیت کیسے ڈونلڈ ٹرمپ کو رضامندی دے سکتی ہے۔ 66 ہزار فلسطینی شہدا کی لاشوں پر قائم کسی نام نہاد امن منصوبے کی تعریف کرنا دراصل ظالموں کا ساتھ دینا ہے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے سینیٹر افنان اللہ خان نے ایکس پر جاری پوسٹ میں لکھا کہ اس منصوبے سے عرب اور مسلم ممالک کے ذریعے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماس پر دبائو ڈالنا ہے۔
یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھے گا۔سینیٹر افنان اللہ نے مزید کہا کہ کوئی بیوقوف ہی نیتن یاہو پر اعتماد کر سکتا ہے۔پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے پر تمام مسلمان ممالک کی جانب سے جاری مشترکہ بیان کو سرینڈر قرار دیا ہے۔
انھوں نے ایکس پر مشترکہ بیان کو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان دنیا نے مکمل طور پر ہتھیار ڈال دیے ہیں۔اس اعلامیے میں فلسطینی ریاست کا ذکر بھی نہیں کیا گیاجس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔انھوں نے لکھا کہ پاکستان اگر فلسطین کی ریاست کے قیام سے قبل ابراہیم اکارڈ کو تسلیم کرتا ہے تو یہ بہت بڑی غلطی ہو گی۔
سابق وزیر اور رکنِ قومی اسمبلی مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ قوم کو اعتماد میں لیے بغیر وزیراعظم کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ ٹرمپ کے پیس پلان کو خوش آمدید کہیں۔ ایکس پر جاری بیان میں مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ پاکستانی عوام کسی ایسے امن منصوبے کو نہیں مانیں گے جِس میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو جنگی جرائم پر کلین چِٹ دی جائے یا جنگی جرائم کی عدالت میں ان کے محاسبے کی بات نہ ہو۔
فاطمہ بھٹو نے اس امن منصوبے کے بارے میں لکھا کہ امہ مر چکی ہے۔ایکس پر اپنی پوسٹ میں فاطمہ بھٹو نے لکھا کہ کوئی بھی مسلمان اس تاریخی بربریت کو معاف نہیں کر سکتا ہے۔ آپ نے ہولو کاسٹ دیکھا اور کچھ نہ کیا بلکہ قاتلوں کے لیے تالیاں بجائی ہیں۔
انسانی حقوق کی کارکن ایمان مزاری نے کہا کہ پاکستان میں ایک مسئلہ ایسا ہے جس پر مکمل اتفاق ہے اور وہ ہے مسئلہ فلسطین، انہوں نے کہا کہ صہیونیوں کے غلام اور ان کے آقاؤں کو پاکستانی عوام کبھی معاف نہیں کریں گے۔
سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی نے اسرائیل کو حرام ریاست قرار دیا اور کہا کہ تاریخ اس غداری کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے سوال اٹھایا کہ کیوں اسرائیل سے فوری انخلا نہیں کرایا جا رہا؟ کیوں صرف 600 ٹرک امدادی سامان کی اجازت ہے؟۔
کیوں غزہ کے لیے ایک امریکی زیرِنگرانی نوآبادیاتی ٹیکنوکریٹ حکومت تجویز کی گئی ہے؟ اور کیوں غیر قانونی اسرائیلی بستیوں کے خاتمے کا ذکر تک نہیں؟ ان کے مطابق یہ منصوبہ فلسطین کے حق میں نہیں بلکہ ایک ‘دھوکہ’ ہے۔
دوسری جانب نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سیاست کے لیے غزہ معاہدے کی مخالفت کی جا رہی ہے، کیا آپ چاہتے ہیں کہ وہاں معصوم شہریوں کا خون بہتا رہے،پاکستان مشترکہ اہداف کو آگے بڑھانے اور فلسطینی عوام کیلئے منصفانہ اور دیرپا امن کی حمایت پر برادر ممالک اور امریکا کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے پرعزم ہے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے 8 مسلم ممالک کے سربراہان کی ملاقات کا مقصد غزہ میں امن واپس لانا تھا،غزہ میں قیام امن کیلئے وزیراعظم شہباز شریف بالکل واضح تھے، ہم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جانے سے قبل ہی غزہ کے مسئلے پر مسلم ممالک سے رابطے شروع کر دیے تھے۔
پاکستان سمیت 8 مسلم ممالک کی کوشش تھی کہ کسی طریقے سے غزہ میں امن لایا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ امریکی صدر سے ملاقات سے قبل 8 ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایک میٹنگ شیڈول کی، اس میٹنگ کے ایجنڈے میں غزہ میں فوری طور پر سیز فائر کی کوشش، معصوموں کا خون بہنے کا سلسلہ روکنا، پٹی میں امداد پہنچانے کے اقدامات پر غور کیا گیا۔
انہوںنے کہاکہ غزہ کے شہریوں کی علاقہ بدری کو روکنا، جو پہلے ہی علاقہ چھوڑ چکے ہیں ان شہریوں کو واپس لانا، تباہ شدہ پٹی کی بحالی کا عمل ممکن بنانا اور ویسٹ بینک کو اسرائیل کے ہڑپنے کے پروگرام کا سدباب کرنا تھا۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں لگتا کہ حماس معاہدے کی مخالفت کرے گی، ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ وہ معاہدہ قبول کر لے گی۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ پیس فورس کے لیے انڈونیشیا نے 20 ہزار اہل کار دینے کی پیش کش کی ہے، فلسطین میں گرائونڈ پر فلسطینی قانون نافذ کرنے والے ادارے ڈیل کریں گے، امید ہے کہ پاکستانی قیادت بھی اس سے متعلق کوئی فیصلہ کرے گی۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ 5 ممالک کہہ رہے ہیں کہ پلان کو حماس قبول کر لے گی تو ہمیں ان پر یقین کرنا چاہیے، پاکستان کی پالیسی بالکل واضح ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، آئیڈیا ہے کہ فلسطین میں ٹیکنوکریٹس پر مشتمل آزاد حکومت ہو گی، حکومت پر ایک نگراں باڈی ہو گی جس میں زیادہ تر فلسطینی ہوں گے۔
نائب وزیرِ اعظم اسحاق ڈارنے کہا کہ جب تک دو ریاستی حل کے متعلق فلسطینی کوئی فیصلہ نہیں کرتے کوئی حل تھوپا نہیں جا سکتا، اسحاق ڈار نے کہا کہ فلسطین کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی بالکل واضح ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔کچھ حلقے فلسطین امن منصوبے پر بلاجواز تنقید کر رہے ہیں۔
امریکا کو اس منصوبے میں شامل کرنے کا مقصد یہی تھا کہ وہ اسرائیل سے معاہدے پر عمل کروائے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی اچھا کام ہو رہا ہے تو اسے متنازعہ نہ بنایا جائے۔ ایسے حساس بین الاقوامی معاملے کو سیاست کی نذر کرنا کسی طور مناسب نہیں۔
انہوں نے کہاکہ اس سارے معاملے میں ہم نے اسرائیل کے ساتھ ڈیل نہیں کیا ہم نے امریکا کے ساتھ بات چیت کی کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکا ہی ان سے بات منوا سکتا ہے۔پاک سعودی عرب باہمی دفاعی معاہدہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہاکہ یہ کوئی آناً فاناً نہیں ہوا، ہم 2 سال سے اس پر کام کررہے تھے، جوہری ہتھیار صرف ڈیٹرنس کے لیے ہیں۔
پاک بھارت فوجی کشیدگی کے دوران بھی صرف ڈیٹرنس ہی رہا۔انہوں نے کہاکہ 1998 ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد سعودیہ نے 2 سال تیل دیا، اب بہت سارے ممالک چاہ رہے کہ ان کے ساتھ بھی ایسا معاہدہ ہوجبکہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹرمپ کے امن منصوبے پر فلسطین کے کلیدی رہنمائوں نے خوشی کا اظہار کیا ہمیں ماتم کرنے کے بجائے خوش ہونا چاہیے، اسلامی بلاک میں پاکستان کو اہم کردار ملا ہ