پنجاب،کے پی میں ربیع کی فصل متاثر ہونے کا خدشہ

ملتان/اسلام آباد/نیویارک/لاہور:ملتان کی تحصیل جلال پور پیر والا میں سیلابی پانی سے نقصان پہنچنے پر موٹروے ایم 5 اٹھارویں روز بھی بندہے جبکہ کئی دیہات اب بھی زیر آب ہیں۔نوراجہ بھٹہ کے حفاظتی بند کا کام مکمل ہونے سے سیلاب میں ڈوبے علاقوں میں پانی کی سطح کم ہونا شروع ہوگئی۔

موضع گج، نوراجہ بھٹہ، چک 87 ایم، بستی لانگ، بہادر پور، پیر اولیا، ابو سعید، ڈیپال، کنہوں، صبرا، چک 81 ایم اور چک 82 ایم اب بھی سیلابی پانی کی لپیٹ میں ہیں۔اوباڑہ جنوبی، شجاعت پور شمالی و جنوبی، لنگر، دولت پور، کوٹ امام دین، درآب پور شرقی و غربی، شیہنی شمالی و جنوبی کے علاقے بھی متاثر ہوئے۔

سیلابی پانی سے نہ صرف مکانات گرگئے بلکہ سرکاری عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔سیلابی ریلوں کی تباہ کاریوں کے ڈرون مناظر میں گیلانی روڈ اور موٹروے ایم 5 پر پڑنے والے شگاف واضح نظر آرہے ہیں جبکہ شہر کے مشرقی علاقوں میں موجود سیلابی پانی کی موٹروے شگاف سے تیزی سے نکاسی جاری ہے۔

ادھراقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) نے خبردار کیا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حالیہ سیلاب کے باعث ربیع کی فصل متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق ایف اے او نے خبردار کیا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں سیلابی نقصانات آنے والی ربیع کی فصل کو متاثر کریں گے، جب کہ پنجاب کی صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے سروے ٹیموں کو ہدایت دی ہے کہ نقصانات کے تخمینے کے دوران عوامی شکایات کو ترجیح دی جائے۔

اپنی ابتدائی تخمینہ جاتی رپورٹ میں ایف اے او نے خبردار کیا کہ ربیع 26-2025 اور خریف 2026 بیج کی دستیابی خطرے میں ہے۔سیلاب سے 13 لاکھ ہیکٹر رقبہ زیر آب آ گیا، جن میں سے 9 لاکھ 30 ہزار ہیکٹر زرعی زمین تھی جب کہ پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا۔

رپورٹ کے مطابق سیلاب نے چارے کی سپلائی کو بھی متاثر کیا جس کے نتیجے میں لاگت میں اضافہ اور دور دراز علاقوں تک رسائی محدود ہوگئی، کئی مالکان مجبوری کے تحت مویشی فروخت کر رہے ہیں، جب کہ باضابطہ مارکیٹ میں چارے کے بیج کی صرف 45 فیصد دستیابی موجود ہے، جو مویشیوں کی غذائی ضروریات کے لیے خطرہ ہے۔

اس کے علاوہ زیادہ بھیڑ والے شیلٹر اور کھڑا پانی مویشیوں میں دبا اور بیماریوں کے خطرات میں اضافہ کر رہے ہیں۔دوسری جانب وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی ہدایت پر پنجاب بھر میں سیلاب زدگان کی مدد کے لئے فلڈ سروے کا آغاز کردیا گیا۔

وزیراعلیٰ نے کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اے سیز کو سروے ٹیموں کی معاونت و مانیٹرنگ کیلئے ہدایات جاری کردیں۔پنجاب کے 26 اضلاع میں فلڈ سروے کیلئے 1629 ٹیمیں متحرک کر دی گئیں جو سیلاب متاثرہ علاقوں میں پہنچ کر سروے کا کام کر رہی ہیں۔

ابتدائی رپورٹ کے مطابق چند روز میں ہی ساڑھے 27 ہزار افراد کا ڈیٹا جمع کیا جا چکا ہے اور 48,071 ایکڑ سیلاب متاثرہ اراضی کا سروے مکمل ہو چکا ہے۔

فلڈ سروے ٹیموں نے سیلاب سے منہدم ہونے والے 8,305 گھروں کا ڈیٹا حاصل کر لیا ہے جبکہ سیلاب کے دوران ہلاک ہونے والے 1,712 مویشیوں کا ریکارڈ بھی جمع کر لیا گیا ہے۔قصور میں سیلاب زدگان کے نقصان کا تخمینہ لگانے کیلئے سروے کا آغاز آج یکم اکتوبر سے ہوگا۔