برطانیہ اور فرانس سمیت متعدد مغربی ممالک کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آیندہ ہفتے شروع ہونے والے اجلاس میں دو ریاستی فارمولے کے تحت آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلانات کیے جاچکے ہیں،یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برسوں کی بنسبت اس سال جنر ل اسمبلی کے اجلاس پر ساری دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ اس معاملے میں فرانس اور برطانیہ سمیت متعدد یورپی ممالک بظاہر امریکا کی لائن سے ہٹ کر چل رہے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ فلسطین کا قضیہ دوریاستی فارمولے کے تحت ہمیشہ کے لیے حل کیا جائے۔فلسطین سے متعلق یورپی ممالک،روس اور عرب ممالک کا امریکا سے اختلاف کوئی نئی بات نہیں ہے،تاہم 7اکتوبر کے بعد کی دنیا میں عالمی سطح پر فلسطین کے مسئلے کو زیادہ سنجیدگی سے لیا جارہا ہے اور خود اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے چند روز قبل تسلیم کیا ہے کہ اسرائیل کو دنیا میں تنہائی کا سامنا ہے ۔آج سے 24سال پہلے بھی اس طرح کی خبریں سامنے آئی تھیں کہ فلسطین کی حمایت میں روس،عرب ممالک اور یورپی ممالک کے درمیان اتحاد ہوگیا ہے۔اس موقع پر ہم نے ایک معاصر میں شائع ہونے والے کالم میں اس پر تبصرہ کیا تھا جو موجودہ حالات کے تناظر میں قارئین اسلام کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔
”ایک قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق فلسطین کی حمایت میں روس، عرب اور یورپی ممالک کا اتحاد وجود میں آنے والا ہے، جبکہ فلسطین پر امریکا اور اسرائیل کے خلاف روس اور یورپی یونین کے بعض ملکوں کے درمیان خفیہ اتحاد ہو گیا ہے۔ ان یورپی ممالک نے روس کو یقین دلایا ہے کہ وہ فلسطین کی حمایت پر امریکا اور اسرائیل کے خلاف اسٹینڈ لیں گے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ روس نے اسلامی و یورپی ملکوں کے سربراہوں سے رابطے کیے ہیں اور اسرائیلی مظالم رکوانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ فلسطین کے اندر اسرائیل جو مظالم اور تباہ کاریاں کر رہا ہے اس سے اکثر یورپی ممالک کے لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ امریکا کی حمایت کے بغیر اسرائیل یہ سب کچھ نہیں کر سکتا۔
ادھر امریکا اس موقف پر ڈٹا ہوا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں یاسر عرفات کا کوئی کردار نہیں ہوگا اور فلسطینی عوام کو یاسر عرفات کے علاوہ اپنا کوئی دوسرا لیڈر منتخب کرنا ہو گا، ورنہ یاسر عرفات کے دوبارہ منتخب ہونے کی صورت میں امریکا فلسطینی ریاست کی حمایت اور تعاون سے دست کش ہو جائے گا۔
اخباری رپورٹوں کے مطابق امریکا کے اس موقف کے خلاف غزہ کے علاقہ میں ہزاروں فلسطینیوں نے یاسر عرفات کے حق میں مظاہرہ کیا ہے اور صدر بش کے اس مطالبہ کو مسترد کر دیا ہے کہ فلسطینی عوام اپنی قیادت بالخصوص یاسر عرفات کو تبدیل کریں۔ مظاہرین نے ہوائی فائرنگ کی اور کہا کہ آزادانہ انتخاب ہمارا حق ہے، ہم بش کی ڈکٹیشن قبول نہیں کریں گے اور ہمارا انتخاب اور لیڈر یاسر عرفات ہے۔ جب کہ امریکی وزیر خارجہ کولن پاؤل نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ واشنگٹن نے فلسطین کے صدر یاسر عرفات سے تمام رابطے منقطع کر دیے ہیں اور فی الحال انہیں بحال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یاسر عرفات امریکا کی خواہش کے مطابق فلسطینیوں کو قیادت فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ کولن پاؤل نے کہا کہ اب امریکا سمجھتا ہے کہ فلسطینیوں کی قیادت کے لیے کسی نئے آدمی کو سامنے لایا جائے جو امریکی خواہشات کے مطابق قیادت کرے، چونکہ یاسر عرفات امریکی خواہشات پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں اس لیے اب امریکا انہیں ہٹا کر ہی دم لے گا۔
روس کی طرف سے فلسطینیوں کی حمایت اور اس سلسلہ میں اسلامی ممالک اور یورپی ملکوں کے ساتھ روس کے رابطوں کی خبر سے اب سے کوئی تیس برس پہلے کا منظر نامہ پھر سے سامنے آ گیا ہے جب دنیا دائیں اور بائیں بازو کے عنوان سے دو بڑے چودھریوں کے درمیان بٹی ہوئی تھی۔ ایک طرف امریکا تھا ور دوسری طرف روس۔ اور ان کی قیادت میں دو بڑے بلاک قائم تھے جن کے مابین سرد جنگ کا سلسلہ جاری تھا، جس سے کمزور ممالک اور اقوام کو یہ سہولت میسر تھی کہ اگر ایک چودھری کی طرف سے ظلم اور ناانصافی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو وہ دوسرے چودھری کا سہارا لے کر خود کو کسی حد تک محفوظ کر لیا کرتی تھیں۔ مگر اب یہ صورتحال باقی نہیں رہی کہ ”افغان وار” میں روس کی ہزیمت کے بعد امریکا دنیا کا واحد چودھری اور حکمران بن گیا اور اس کے مقابل کوئی ایسی طاقت باقی نہیں رہی جو اس کے کسی اقدام کو چیلنج کر سکے اور اسے مظلوم اقوام کے ساتھ زیادتی سے روک سکے۔
اس وقت عالمی صورتحال کچھ عجیب سی تھی اور مسلم ممالک بھی تقسیم کے اس عمل سے محفوظ نہیں تھے:
مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو امریکا کی کھلی سرپرستی اور پشت پناہی حاصل تھی، جو اب تک مسلسل جاری ہے بلکہ دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔جبکہ عرب ممالک دو حصوں میں تقسیم تھے: ایک حصہ سعودی عرب کی قیادت میں امریکی کیمپ میں تھا اور دوسرا کیمپ مصر کے جمال عبد الناصر مرحوم کی سربراہی میں روس کی بہی خواہوں میں شمار ہوتا تھا۔
عرب قوم پرستی کی تحریک کو روس کی حمایت حاصل تھی اور وہ عرب ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے اپنے حامی عرب ممالک کے ساتھ اقتصادی اور فنی تعاون میں بھی پیش پیش تھا۔
1967 ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کے ہاتھوں خوفناک پٹائی کے بعد روسی کیمپ کے عرب ممالک میں یہ احساس ابھرنا شروع ہوا کہ روس کی حمایت اور تعاون ان کے لیے کچھ زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہو رہا، اس لیے اب ان کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ امریکی کیمپ میں اپنے لیے جگہ تلاش کریں تاکہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے امریکا کی پالیسیوں میں توازن کی کوئی صورت نکل آئے، اور وہ علاقہ میں اسرائیل کے ساتھ اپنے معاملات کو بیلنس کر سکیں۔ چنانچہ صدر ناصر مرحوم کے آخری دور میں اس رخ پر کام شروع ہو گیا تھا جسے ان کے جانشین انور سادات مرحوم نے تکمیل تک پہنچایا اور عربوں نے ”کیمپ ڈیوڈ” سمجھوتے کی صورت میں اپنا مستقبل امریکا کے ساتھ وابستہ کر لیا۔
یاسر عرفات اس کشمکش میں اس کیمپ کے آدمی تھے جو روس کے ساتھ وابستگی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی پس منظر میں قوم پرستی کی بنیاد پر فلسطین کی آزادی کی تحریک کو آگے بڑھایا تھا۔ انہوں نے ایک عرصہ تک آزادی فلسطین کے لیے مسلح جنگ لڑی اور گوریلا کاروائیوں کی قیادت کی، اسی وجہ سے امریکا کو بہت دیر تک اس میں تامل رہا کہ وہ یاسر عرفات کو فلسطینیوں کے لیڈر کے طور پر قبول کرے۔ یاسر عرفات پر امریکا کے دروازے بند تھے اور ایک موقع ایسا بھی آیا کہ یاسر عرفات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینیوں کی نمائندگی کے لیے آنا تھا مگر امریکا نے انہیں ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔یاسر عرفات کو امریکی کیمپ میں جانے کے لیے عسکری سرگرمیوں سے دستبردار ہونا پڑا، روسی کیمپ سے تعلقات منقطع کرنا پڑے، بلکہ خدا جانے کون کون سی یقین دہانیوں سے گزرنا پڑا، تب جا کر یاسر عرفات کو امریکی کیمپ میں قدم رکھنے کی اجازت ملی۔ مگر اس کے بعد امریکا کی طرف سے ایک نئی شرط سامنے آئی کہ یاسر عرفات خود تو عسکری سرگرمیوں اور جہادی عمل سے دست کش ہو گئے ہیں اور گوریلا جنگ کی بجائے سیاسی مذاکرات کی میز پر آ بیٹھے ہیں، مگر فلسطینی عوام میں عسکری کارروائیوں کے رجحان کو مکمل طور پر ختم کرنے اور جہادی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے کی ذمہ داری بھی یاسر عرفات کو قبول کرنا ہو گی، ورنہ انہیں جہادی سرگرمیوں سے دستبرداری کے موقف میں سنجیدہ تصور نہیں کیا جائے گا۔
ان شرائط اور یقین دہانیوں کے بعد فلسطین کی ایک ادھوری اور غیر رسمی سی برائے نام حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا صدر یاسر عرفات کو منتخب کیا گیا۔ اور انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ فلسطین میں عسکریت پسندی کے رجحانات کو مکمل طور پر ختم کریں اور جہادی گروپوں کو عسکری سرگرمیوں سے باز کریں، ورنہ بصورت دیگر انہیں پوری طرح کچل دینے میں اسرائیل کے ساتھ شریک ہوں۔ یاسر عرفات اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور اپنی بساط کی حد تک ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود حماس اور دیگر جہادی گروپوں کی عسکری سرگرمیاں نہ صرف جاری ہیں بلکہ ان سے اسرائیل کے مظالم اور وحشیانہ کاروائیوں کے خلاف مزید شدت پیدا ہو رہی ہے، اور ان فلسطینیوں کے خودکش حملوں نے اس خطہ میں اسرائیل کی عسکری بالادستی کے خواب کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔
اس پس منظر میں امریکا کی یکطرفہ اور جارحانہ پالیسیوں کے ردعمل میں روس اور یورپی یونین کے بعض ممالک کے درمیان نئے رابطوں کی یہ خبر خوش آئند ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی ضمیر بالکل ہی موت کے گھاٹ نہیں اتر گیا بلکہ اس میں زندگی کی کچھ رمق باقی ہے۔ خدا کرے کہ روس، یورپی یونین اور اسلامی ممالک کے یہ رابطے جلد کسی نتیجے تک پہنچیں کیونکہ عالم اسباب میں اسرائیل اور امریکا کے وحشیانہ مظالم اور سنگدلانہ طرز عمل سے رہی سہی فلسطینی قوم کو کسی حد تک بچا لینے کی اب یہی صورت باقی رہ گئی ہے۔”

