رپورٹ: علی ہلال
اسرائیلی میڈیا کے مطابق پیر کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقدہ عرب‘ اسلامی ہنگامی سربراہی اجلاس بے نتیجہ ختم ہوا۔ اسرائیلی چینل 12 نے اپنے تبصرے میں کہا کہ عرب اور اسلامی ممالک کا سربراہ اجلاس اسرائیل کے خلاف کسی عملی اقدام کے بغیر ختم ہوا۔ عبرانی میڈیا نے بڑے زوردار لفظوں میں اس اجلاس کے بے معنی ختم ہونے کو خوش آئند قرار دیا۔
الشرق الاوسط کے مطابق پیر کے روز منعقدہ دوحہ سمٹ میں شریک رہنماوں نے قطر کی سلامتی، استحکام، خودمختاری اور شہریوں کے تحفظ کے لیے مکمل حمایت کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ اسرائیلی جارحیت کی مذمت اور اس کا مقابلہ کرنے میں قطر کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ قائدین نے اس حملے کو قطر کی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی، بین الاقوامی قانون کی سنگین پامالی اور علاقائی امن و سلامتی کے لیے شدید خطرہ قرار دیا۔ عرب‘ اِسلامی ہنگامی اجلاس نے اپنے اعلامیے میں کہا کہ قطر پر بزدلانہ اسرائیلی حملہ دراصل تمام عرب اور اسلامی ممالک پر حملے کے مترادف ہے۔ اجلاس نے یقین دہانی کرائی کہ قطر کی جانب سے اٹھائے جانے والے ہر اقدام اور تدبیر کی مکمل حمایت کی جائے گی تاکہ ملک کے امن، خودمختاری، استحکام اور شہریوں و مقیم غیرملکیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔ اختتامی بیان میں اس امر پر زور دیا گیا کہ قطر جو غزہ پر جنگ کے خاتمے، جنگ بندی کے قیام اور قیدیوں و یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک اہم ثالثی کردار ادا کررہا ہے، اس پر حملہ نہ صرف خطرناک اضافہ ہے بلکہ امن قائم کرنے کی عالمی سفارتی کوششوں پر بھی براہِ راست حملہ ہے۔ رہنماو¿ں نے کہا کہ ’ایسی جارحیت کسی غیرجانبدار ثالثی ملک کی خودمختاری کو ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر جاری مصالحتی اور امن قائم کرنے کی کوششوں کو بھی شدید نقصان پہنچاتی ہے اور اس کے تمام تر نتائج کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہوتی ہے‘۔
مبصرین نے پاکستان کے بیان کو غیرمعمولی حد تک سرا ہے۔ عرب میڈیا نے بھی پاکستانی وزیراعظم کے بیان کی تعریف کی اور اسے پاکستان کے اسلامی وژن کا مظہر قرار دیا۔ رپورٹ کے مطابق دوحہ سمٹ میں ایک اہم کمی یہ دیکھنے میں آئی کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے بیشتر عرب ممالک کے سربراہان غیرحاضر رہے۔ اہم غیرحاضر رہنماوں میں تیونس کے صدر قیس سعید، عمان کے سلطان ہیثم بن طارق، کویت کے امیر شیخ مشعل الاحمد الجابر الصباح، بحرین کے بادشاہ حمد بن عیسیٰ آل خلیفہ، متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید اور مراکش کے بادشاہ محمد ششم شامل تھے۔ آخر الذکر تینوں ممالک ’ابراہام اکارڈ‘ کے تحت اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کرچکے ہیں۔ اسی طرح اسلامی دنیا میں رقبے کے لحاظ سے دوسرے بڑے عرب ملک الجزائر کے صدر عبدالمجید تبون بھی شریک نہیں ہوئے۔
اگرچہ ان سربراہان کی جگہ ان ممالک کے اعلیٰ سطحی نمائندوں نے اجلاس میں شرکت کی لیکن ان کی کمی کو محسوس کیا گیا ہے۔ عمان کے نائب وزیراعظم برائے دفاع شہاب بن طارق آل سعید نے اپنے ملک کے وفد کی قیادت کی جبکہ مراکش کے شاہ کی نمائندگی مولای رشید نے کی اور کویت کی نمائندگی ولی عہد شیخ صباح خالدالحمد الصباح نے کی۔ اماراتی وفد کی سربراہی شیخ منصور بن زاید آل نہیان نے کی جبکہ بحرین کی نمائندگی شیخ عبداللہ بن حمد آل خلیفہ نے کی۔ تیونس کی طرف سے وزیر خارجہ محمد علی النفطی اجلاس میں شریک ہوئے۔ اس کے برعکس، متعدد رہنماوں نے براہِ راست شرکت کی جن میں فلسطینی صدر محمودعباس، لبنانی صدر جوزف عون، عراقی وزیراعظم محمد شیاع السودانی، شامی صدر احمدالشرع، سوڈان کی عبوری خودمختار کونسل کے سربراہ عبدالفتاح البرہان، عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابوالغیط، مصری صدر عبدالفتاح السیسی، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور اُردن کے بادشاہ عبداللہ دوم شامل ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اسرائیل کو کئی دہائی قبل تسلیم کرنے والے دو عرب ممالک مصر اور اُردن کے سربراہان نہ صرف شریک تھے بلکہ ان کے بیانات بھی خاصے تیز اور مختلف تھے۔
مصری صدر جنرل عبدالفتاح السیسی نے اسرائیل کے بارے مین جن الفاظ کا چناو کیا اس نے عرب خطے پر نظر رکھنے والے مبصرین کو حیران کیا ہے۔ مصر کے کسی سرکاری ذمہ دار نے 1977ء کے بعد سے اسرائیل کے لیے دشمن (عدو) کا لفظ نہیں کیا تھا۔ کل دوحہ سمٹ میں مصری صدر جنرل السیسی نے پہلی مرتبہ اسرائیل کے لیے لفظ دشمن کا استعمال کیا ہے۔ مصر کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے قبل اسرائیل کے لیے دشمن کا لفظ استعمال کرتا تھا۔ انوار السادات کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے بعد اس لفظ پر پابندی عائد ہے۔ السیسی نے اسرائیل کے لیے دشمن استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں دشمن کے بارے میں اپنی رائے میں تبدیلی لانی ہوگی۔ اپنے خطاب میں صدرالسیسی نے عرب اور اسلامی ممالک پر زور دیا کہ وہ دشمن کی سوچ کے بارے میں اپنی پالیسیوں کو بدلیں، تاکہ یہ بات واضح ہو کہ کوئی بھی عرب ملک محض ایک خطہ نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کو محیط ایک بڑی قوت ہے جس کا دائرہ کار بحر اوقیانوس سے لے کر خلیج تک پھیلا ہوا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے ڈپلومیٹک منظرنامے پر نظر رکھنے والے ماہرین کی نظر میں یہ بہت بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ ہے۔ مصر کے اہم تحقیقاتی ادارے کے سربراہ ضیاءرشوان نے بتایا کہ مصری سربراہ کا بیان کوئی عام بیان نہیں تھا۔ صدرالسیسی بہت سوچ اور فکر کے بعد الفاظ کا انتخاب کرتے ہیں۔ مصر کے معروف سیاسی مفکر اور سینیٹ کے رکن ڈاکٹر عبدالمنعم سعید نے خصوصی گفتگو میں کہا کہ صدر عبدالفتاح السیسی کا خطاب ’انتہائی واضح اور براہِ راست پیغامات‘ پر مشتمل تھا، محض اشارے نہیں تھے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ صدر نے جو کچھ پیش آیا اُسے ’ایک برادر ملک پر جارحیت‘ قرار دیا جو اس بات کا عندیہ ہے کہ اسرائیلی حملے غزہ سے نکل کر ایران، لبنان، شام بلکہ پورے خطے تک پھیل گئے ہیں۔ سعید کے مطابق: ’صدرالسیسی کا اسرائیلی عوام کے لیے پیغام دراصل ایک انتباہ تھا کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے سنگین نتائج ہوں گے، جو موجودہ امن معاہدوں کے لیے خطرہ ہیں اور مستقبل میں ان معاہدوں کے دائرے کو وسیع کرنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنیں گے۔ اس کے نتیجے میں پورا خطہ عدم استحکام کا شکار رہے گا جس میں خود اسرائیل بھی شامل ہے‘۔ مصری ‘ اسرائیلی امن معاہدے کے مستقبل پر گفتگو کرتے ہوئے سعید نے زور دیا کہ ’عرب ممالک پر براہِ راست حملوں کا تسلسل اس خطے میں موجود امن معاہدوں کو واقعی خطرے سے دوچار کررہا ہے‘۔ ڈاکٹر سعید نے کہا کہ صدر السیسی کا یہ موقف ایک واضح انتباہ ہے کہ منصفانہ امن پر مبنی موجودہ نظام ناکامی اور زوال کا شکار ہے اور اسرائیلی حکومت براہِ راست ان اقدامات کی ذمہ دار ہے۔ یہ پیغام دراصل اسرائیلی عوام کو خبردار کرنے کے لیے ہے کہ ان کی حکومت کی سیاسی اور عسکری بے قابو پالیسیاں امن کے امکانات کو شدید نقصان پہنچا رہی ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل کے بعض اعلامی اداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ قطر تل ابیب کے خلاف سفارتی سطح پر سرگرم ہے اور اسرائیل کو عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا نشانہ بنانا دوحہ کی خواہش ہے۔
